ایسے کیسے چلے گا؟

حکومت بنانے کے لیے اگر کمپرومائز کیے جا سکتے ہیں تو حکومت چلانے کے لیے کیوں نہیں کیے جا سکتے؟ حکومت بنانے کے لیے تو ہم سب نے دیکھا کہ اصولوں پر کمپرومائز کیا گیا، حکومت چلانے کے لیے تو صرف رویوں اور افتاد طبع پر کمپرومائز کی ضرورت ہے؟پاکستانی سیاست میں اللہ کا ولی یا مرد قلندر اب کوئی بھی نہیں۔ طریق واردات کے معمولی فرق کے ساتھ کم و بیش سبھی ایک جیسے ہیں۔ کوئی ایک گروہ نیک نیت اورصالحین کا ہوتا اور دوسرے گروہ میں صرف ابلیس اور شیاطین ہوتے تو معاملہ بہت آسان ہوتا۔ ایسے میں نیک گروہ کی پاک سیرت ہستیاں یہ کہنے میں حق بجانب ہوتیں کہ ہم نے ابلیس اور شیطانوں کے گروہ کے ساتھ بیٹھ کر بات نہیں کرنی ۔ لیکن ہمارے ہاں کوئی گروہ ایسا نہیں جو یہ دعوی کرسکے کہ اس کے قائدین شب کو دامن نچوڑتے ہیں تو فرشتے وضو کرتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ زعم تقوی حکمرانوں کو چین ہی نہیں لینے دیتا۔کیا ایک جمہوری نظام اس بے نیازی اور اس تکبر سے چل سکتا ہے؟ عمران خان کبھی قومی اسمبلی تشریف لائیں تو زبان حال سے اعلان عام فرما رہے ہوتے ہیں انہیں حزب اختلاف کا کوئی فرد یہاں گوارا نہیں۔ کسی کو عزت دینا تو دور کی بات ہے وہ کسی سے مصافحہ تک کرنے کے روادار نہیں۔ معلوم نہیں یہ محض بے نیازی ہے یا اس جمہوری نظام کو بے توقیر کرنے کی ایک شعوری کوشش؟تازہ بیانیہ اب یہ ہے کہ وطن عزیز میں نیک اور پاک وہی ہے جو قافلہ انقلاب کا حصہ ہے یا اس کا سیاسی حلیف۔ ایک لکیر کھینچ دی گئی ہے ۔لکیر کے اس طرف حزب اختلاف کا تعارف بس اتنا ہے کہ وہ چور ہیں ، اچکے ہیں ، ڈاکو ہیں ۔چوروں ، اچکوں اور ڈاکوئوں سے اب کوئی کیسے بات کرے؟ ایک جمہوری نظام کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ آئین میں اختیارات کی تقسیم کار اب ایسی ہے بہت سارے فیصلے وزیر اعظم نے قائد حزب اختلاف سے باہمی مشاورت سے کرنے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے چیئرمین کی تقرری ہو، اراکین کا انتخاب ہو، چیئر مین نیب کی تعیناتی ہو، بہت سارے معاملات میں آئینی تقاضا ہے کہ قائد حزب اختلاف سے مشاورت کی جائے۔وزیر اعظم اگر قائد حزب اختلاف سے بات کرنے کے ہی روادار نہ ہو ں تو معاملات حکومت کیسے آگے بڑھیں گے۔ابھی الیکشن کمیشن کے اراکین کا معاملہ آیا۔ آئینی ضرورت تھی کہ وزیر اعظم قائد حزب اختلاف سے مشاورت کرتے۔ وزیر اعظم نے قائد حزب اختلاف کو خط لکھنا گوارا نہیں کیا۔انہوں نے اپنے سیکرٹری سے کہہ دیا کہ تم خط لکھ دو۔ حزب اختلاف نے سیکرٹری کے خط کا جواب نہیں دیا۔ کیونکہ مشاورت وزیر اعظم کے سیکرٹری کو نہیں وزیر اعظم کو کرنا ہوتی ہے۔ پھر کیا ہوا؟ عمران خان کومجبوری کے عالم میں خود خط لکھنا پڑا۔ ایک روکھا سا خط۔ جواب آیا تو لکھا تھا : مائی ڈیر پرائم منسٹر۔ اپوزیشن کا جمہوری نظام میں ایک اپنا مقام اور افادیت ہے۔جس طرح حکمرانوں کے پاس عوامی مینڈیٹ ہے اسی طرح اپوزیشن کے پاس بھی عوامی مینڈیٹ ہے۔جب آپ قائد حزب اختلاف کی بات سن رہے ہوتے ہیں یا انہیں عزت دے رہے ہوتے ہیں تو یہ گویا اس مینڈیٹ کا احترام ہوتا ہے ۔کوئی کرپٹ ہے اور کسی کے اوپر الزامات ہیں تو نیب بھی موجود ہے اور عدالتیں بھی۔لیکن جب تک عدالتیں کوئی فیصلہ نہیں کر دیتیں کسی رکن پارلیمان کے ساتھ اس کے مینڈیٹ کے تقاضوں سے ہٹ کر معاملہ نہیں کیا جا سکتا۔اگر ایم کیو ایم کے وزراء نفیس قرار دیے جا سکتے ہیں تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے پارلیمنٹرین کیوں گوارا نہیں کیے جا سکتے؟ حکومت چلانا حزب اختلاف کی نہیں ، حزب اقتدار کی ذمہ داری ہے۔ حکومت حزب اختلاف کے ساتھ اگر بات چیت اور اشتراک کار کے راستے بند رکھے گی تو امور حکومت میں تعطل آئے گا اور اس کا نقصان اپوزیشن کو نہیں، حکومت کو ہوگا۔ حکمت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ بھلے مقدمات چلتے رہیں ، بھلے آپ کسی کو این آر او نہ دیں لیکن پولرائزیشن اور نفرت کو اس سطح تک نہ لے جایا جائیںجہاں ایوان کے اندر اشتراک کار کے راستے بھی بند ہو جائیں۔کبھی قانون سازی کی ضرورت پڑ سکتی ہے، کوئی بل لانا پڑ سکتا ہے، ابھی بجٹ آ رہا ہے ۔قدم قدم پر اپوزیشن کے تعاون کی ضرورت ہو گی۔ قائمہ کمیٹیوں کے معاملے پر اتنا عرصہ تعطل رہا ، سارے معاملاے ٹھپ رہے ، کیا کسی نے سوچا نقصان کس کا ہوا؟ حکومتی رویے سمجھ سے باہر ہیں۔ٹھہرائو ، متانت اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ہیجان ، نفرت اور غصے کے جذبات غالب ہیں۔ ہر وزیر با تدبیر سمجھتا ہے کہ حزب اختلاف کی تضحیک اور توہین ہی بلندی درجات کا واحد ذریعہ ہے۔فواد چودھری صاحب کا تو شاید خیال یہ ہے کہ وزیر اطلاعات کے پاس چیئر مین نیب کے اضافی اختیارات بھی ہوتے ہیں۔ارشاد فرمایا شریف اور زرداری خاندان کے پاس دو ہی آپشن ہیں ، یا تو لوٹی ہوئی رقم واپس کر دیں یا جیل میں پڑے رہیں۔ سوال یہ ہے ایک ملزم کے بارے میں فیصلہ اب عدالت نے کرنا ہے یا وزیر اطلاعات نے؟ پلی بارگین کا فیصلہ چیئر مین نیب نے کرنا ہے یا وفاقی کابینہ نے؟ کیا کوئی رہنمائی فرما سکتا ہے کہ نیب کے معاملات پر وزیر اطلاعات کس حیثیت سے حکم سنا رہے ہوتے ہیں؟احتساب اور انتقام میں ایک باریک سی لکیر ہوتی ہے۔ یہ لکیر صرف تاثر کی حد تک بھی پامال ہو جائے تو المیہ جنم لیتا ہے۔ لیکن وزراء روز اس لکیر کو روند کر غزل سرا ہوتے ہیں۔ ملزمان کے خلاف مقدمات قائم کر دیے گئے، یہ عزم اب کافی ہے کہ حکومت این آر او نہیں دے گی اور ہر ملزم کے ساتھ صرف قانون کے تحت معاملہ ہو گا۔ اب کیا ضروری ہے کہ روز اس پر مشاعرہ ہو اور ہر وزیر تازہ غزل کہے؟ محمود الرشید صاحب نے تو کما ل کر دیا، لازم ہے کہ انہیں ملک الشعراء قرار دیا جائے۔فرمایا: احتساب چھوڑ کر گورننس پر نہیں لگ سکتے۔یہ ارشاد بتا رہا ہے کہ اہل اقتدار کی نفسیاتی گرہ کتنی شدید ہے۔ ہیجان کے عالم میں وہ بھول گئے کہ احتساب ان کا کام نہیں وہ متعلقہ اداروں کا کام ہے۔ طرز حکمرانی کا یہاں تماشا بنا ہوا ہے۔ہر تازہ واردات پر اقوال زریں پر مشتمل ایک پرانا ٹویٹ منہ چڑانے آ جاتا ہے۔لیکن احباب کو پرواہ ہی نہیں۔ خیر چھوڑیں ان باتوں کو، بارش ہونے والی ہے ، آسمان سے نوکریاں گریں گی۔کیا آپ نے اپنا سی وی تیار کر لیا ہے؟

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply