• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • چینی صدر کا دورہِ سعودی عرب- روشنی ہی روشنی/نذر حافی

چینی صدر کا دورہِ سعودی عرب- روشنی ہی روشنی/نذر حافی

آپ کو مسٹر ٹرمپ کا دورہ ریاض تو یاد ہوگا۔ یہ مئی 2017ء کا واقعہ ہے۔ اس دورے پر سعودی عرب کے 68 ملین ڈالر خرچ ہوئے تھے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے یہ ایران کے خلاف کوئی فیصلہ کُن معرکہ ہے۔ ٹرمپ کی تقریر تو کئی دنوں تک ذرائع ابلاغ پر چھائی رہی۔ ذرائع ابلاغ نے ماحول ایسا بنا دیا تھا کہ بس ایران کو کچھ ہوا کہ ہوا۔ اب جو لوگ حالات حاضرہ پر نظر رکھتے ہیں، اُن سے پوچھ لیجئے۔ وہ اس بات کی تصدیق کریں گے کہ اس دورے کے بعد دنیا میں سعودی عرب اور امریکہ کے باہمی تعلقات میں شدید بحران نہیں بلکہ بھونچال آیا۔ توانائی و انرجی کے مسائل، علاقائی سیاست اور انسانی حقوق کے حوالے سے ان کے درمیان خلیج بڑھتی ہی گئی۔ کئی موقعوں پر ٹرمپ نے سعودی عرب کا خوب مذاق اڑایا، باقی ساری دنیا کے سامنے بھی ان کی ساکھ انتہائی خراب ہوئی، حتی کہ سعودی شہزادے نے یہ انکشاف کیا کہ ہم نے سرد جنگ میں امریکہ و مغرب کی درخواست پر وہابیت پھیلانے کے لیے فنڈز دیئے تھے، اسی طرح سعودی صحافی جمال خاشقجی کے زندہ ٹکڑے کئے جانے پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور ترکی کے دباو کے باعث، امریکہ نے سعودی عرب کو آڑے ہاتھوں لیا، جبکہ اس کے برعکس ایران سائنس و ٹیکنالوجی اور سیاسی و سفارتی محاذوں پر مزید محبوب، کامیاب اور مضبوط ہوا۔

بعد ازاں فروری 2019ء کا ایک واقعہ بھی بہت اہم ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اُس دورے کے کیا کہنے۔ محمد بن سلمان کا جہاز جیسے ہی پاکستانی فضائی حدود میں داخل ہوا تو پاک فضائیہ کے ایف 16 اور جے ایف تھنڈرز شیردل اسکواڈ نے اُسے اپنے حصار میں لے کر فضا میں سلامی پیش کی۔ طیارہ نور خان ائیربیس پر اترا تو انہیں 21 توپوں کی سلامی دی گئی۔ شاہزادے کا استقبال وزیراعظم پاکستان، وفاقی کابینہ کے اراکین اور آرمی چیف آف اسٹاف نے کیا۔ ساتھ ہی پریس کانفرنس میں سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے ایران کےخلاف بیان بازی کرکے رنگ میں بھنگ ڈالا۔ بس یوں لگ رہا تھا کہ اب تو سعودی عرب اور پاکستان تو یک جان دو قالب ہیں، لیکن بعد ازاں پاکستان و سعودی عرب کے درمیان جوتیوں میں دال بٹتی سب نے دیکھی۔ خصوصاً پاکستانی فوجیوں کو یمن جنگ میں نہ دھکیلنے کے فیصلے کے بعد وہ تماشا لگا کہ خدا کی امان۔

مذکورہ دونوں مثالیں آپ کے ذہن میں رہنی چاہیئے۔ یہ مثالیں واضح کرتی ہیں کہ یہ زمانہ معلومات کی جنگ کا ہے۔ خبریں اور معلومات وہی ہوتی ہیں لیکن رنگ، آواز اور تصویر کی ترکیب سے انہیں پیش کرنے کا سلیقہ اور ہنر سارے منظر کو تبدیل کر دیتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کا فن یہی ہے کہ کسی ماہر شعبدہ باز کی مانند لوگوں کے سامنے اپنی مرضی کے مطابق منظر کشی کی جائے۔ میڈیا پر بے انتہاء اخراجات کرنے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ لوگ وہی کچھ دیکھیں، وہی سوچیں اور اُسی پر اعتبار کریں، جو انہیں دکھایا اور بتایا جائے۔ اب تیسری مثال بھی سعودی عرب کے متعلق ہی مناسب رہے گی۔ ذرا چینی صدر شی جن پنگ کے حالیہ دورہ سعودی عرب کو ملاحظہ کیجئے۔ اس دورے کے حوالے سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ “اب ایران کا کیا بنے گا۔” واویلا کیا جا رہا ہے کہ چین بھی سعودی عرب کی گود میں چلا گیا ہے۔ ہم اس واویلے پر یہی مختصر تبصرہ کریں گے کہ چین کی مضبوط داخلہ و خارجہ پالیسی اور اس کا مقاومتی تفکر شاہد ہے کہ چین کسی کی گود میں جانا والا نہیں بلکہ دوسروں کو اپنی گود میں لینے والا ملک ہے۔

اس وقت ہمیں یہ تصویر دکھائی جا رہی ہے کہ چین اور سعودی عرب کے تعلقات یعنی ایران کی تنہائی۔ یہ انتہائی بچگانہ سوچ ہے۔ ممالک کے باہمی سفارتی دورے، تجارتی معاہدے اور اقتصادی قراردادیں خیر سگالی اور فلاح و بہبود سے ہٹ کر کچھ نہیں ہوتیں۔ اس دورے سے پہلے ہی چین عرب ممالک کا سب سے بڑا تجارتی شریک ہے۔ چین کی عربوں کے ساتھ غیر ملکی تجارت کا حجم 2021ء میں تقریباً 330 بلین ڈالر تک پہنچ گیا تھا، جس میں 2020ء کے مقابلے میں 37 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ صرف چین اور سعودی عرب کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حصہ 80 ارب ڈالر ہے۔ جو لوگ ممالک کے درمیان ایسے دورہ جات اور تعلقات سے گھبراتے ہیں، انہیں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ان دوروں کی بنیاد پر پالیسیاں تبدیل نہیں ہوتیں بلکہ ایسے دورے پالیسیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ہمیں ذرائع ابلاغ صرف ایک ہی تصویر دکھا رہے ہیں کہ دشمن کا دوست بھی دشمن ہوتا ہے، پس سعودی عرب کی دوستی کی وجہ سے اب آئندہ چین بھی ایران کے مخالف ہوگا۔ حالانکہ اس دورے کی ایک دوسری تصویر بھی ہے، اور وہ یہ ہے کہ دوست کا دوست بھی دوست ہوتا ہے۔ اگر چین اور سعودی عرب آپس میں قریب ہوتے ہیں تو اس سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان بھی قربت بڑھے گی۔

آپ غیر جانبداری کے ساتھ چین کے صدر کے اس دورے کا جائزہ لیں، اس دورے میں ایران کے بجائے امریکہ و یورپ کیلئے واضح خطرات موجود ہیں۔ چونتیس قراردادوں پر مشتمل یہ دورہ چین کے ساتھ عرب ریاستوں کے نئے روابط کا سنگِ میل ہے۔ یہ دستخط شدہ قراردادیں امریکی و یورپی معیشت کیلئے کسی بڑے ہچکولے سے کم نہیں۔ آپ صرف یہی دیکھ لیں کہ اب چین، سعودی عرب کے مختلف شہروں میں ہائی ٹیک کمپلیکس لگائے گا اور Huawei اب خطے کے بیشتر ممالک میں 5G انٹرنیٹ، نیٹ ورک فراہم کرے گا۔ اگر سنجیدگی سے چین کے خلیجی ریاستوں کے ساتھ اقتصادی روابط آگے بڑھنے میں کامیاب ہوگئے تو اس کا منفی اثر امریکہ و یورپ پر پڑے گا جبکہ یقینی فائدہ ایران کو پہنچے گا۔ یعنی چینی صدر کا یہ دورہ مجموعی طور پر ایران کیلئے مثبت پیغامات اور امریکہ و یورپ کیلئے منفی اشارات رکھتا ہے، لیکن ذرائع ابلاغ ہمیں اس کے برعکس دکھا رہے ہیں۔

اب آئیے اس بیانیے کے متن کی طرف جسے بنیاد بنا کر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ اس دورے کی وجہ سے چین اور ایران کے تعلقات خراب ہو جائیں گے۔ جو لوگ سفارتی زبان اور پیراڈاکس کے بارے میں جانتے ہیں اُن کیلئے ہم چند نکات عرض کئے دیتے ہیں، باقی تجزیہ وہ خود کر لیں۔ پہلی بات تو اس دورے کے بارے میں یہ واضح ہونی چاہیئے کہ یہ دورہ کسی قسم کی دشمن تراشی یا سیاسی تناو کے بجائے صرف مندرجہ ذیل چار نکات کے گرد گھومتا ہے:۱۔امن، ۲۔سلامتی، ۳۔استحکام، ۴۔ خوشحالی۔ چنانچہ اس دورے کے مشترکہ بیانیے میں ایک نکتہ ایران کے جوہری پروگرام کے پُرامن ہونے اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی کی ایجنسی کے ساتھ تعاون کی تاکید پر مشتمل ہے۔ یاد رہے کہ یہی تاکید ہمیشہ ایران بھی کرتا ہے کہ ہم کوئی ایٹم بم نہیں بنا رہے، ہمارا پروگرام پرامن ہے، اسی طرح بین الاقوامی ایٹمی توانائی کی ایجنسی کے ساتھ ایران کی طرف سے بھرپور تعاون بھی کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے اس ایجنسی کے ذریعے کبھی کبھار ایران میں جاسوس بھیجنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے تو اُس وقت ایران سختی بھی کرتا ہے۔ پس اس نکتے میں سفارتی طور پر ایران کے موقف کی ہی حمایت کی گئی ہے اور یہ سعودی حکومت کی طرف سے، ایران کیلئے بذریعہ چین ایک پازیٹو ڈپلومیٹک سگنل ہے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اس بیانیے میں خلیج فارس کے ممالک اور چین کے رہنماؤں نے ایران اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تین جزائر کے مسئلے کے پرامن حل پر زور دیا ہے۔ توجہ فرمائیں! ہمیشہ ایران نے بھی ان جزائر کے پُرامن حل کی بات کی ہے۔ یہ بھی ایران کیلئے ایک جوابی مثبت پیغام ہے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اس بیانیے میں فلسطین، شام، عراق، یمن، افغانستان اور یوکرین کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ صرف ذکر ہی نہیں ہوا بلکہ یروشلم کے حوالے سے اسرائیل کے یکطرفہ اقدامات کو مسترد کیا گیا ہے، جو کہ انتہائی خوش آئند امر ہے۔ اسی طرح فریقین نے یوکرین، شام، لیبیا اور یمن کے بحران کا سیاسی حل تلاش کرنے کی بات کی ہے، جبکہ اس سے پہلے خلیجی ریاستیں ان ممالک کے حوالے سے سیاسی حل کے بجائے عسکری حل کی قائل تھیں۔ مذکورہ ممالک کے حوالے سے سیاسی حل ڈھونڈنے کا نعرہ ہمیشہ سے ایران کا تھا۔ اس بیان سے بھی ایران کو مثبت سفارتی پیغام دیا گیا ہے۔

ہمارے ہاں تحقیقی، مقاومتی اور مزاحمتی صحافت کا رُجحان نہیں رہا۔ استعماری میڈیا سے کاپی پیسٹ کرکے ویب سائٹس، اخبارات اور ٹی وی چینلز کا پیٹ بھرا جاتا ہے۔ یہ ہمارے ہاں کا المیہ ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ابلاغِ عامہ کے اس دور میں ہمارے ذرائع ابلاغ خود منبع نہیں اور ہمارے صحافی خود محقق بھی نہیں۔ حالاتِ حاضرہ پر خود سے مواد و محتویٰ اور تجزیہ و تحلیل کا تولید کرنا تو دور کی بات ہے، یہاں معیاری اردو زبان میں لکھا ہوا دیکھ کر پڑھنا بھی بعض کیلئے مشکل ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا اور یو ٹیوب چینلز نے تو رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ بہت زیادہ تعداد میں قلم اور کیمرہ ایسے لوگوں نے سنبھال لیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ الفاظ کی املا بھی درست نہیں لکھ پاتے بلکہ ان میں سے اکثر کو تو دیکھ کر بھی درست تلفظ کے ساتھ پڑھنا نہیں آتا۔ پس یہاں صحافت یعنی بغیر سوچے سمجھے دوسروں کی خبروں، تجزیات اور نظریات کی جگالی کرتے رہنا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چنانچہ استعمار نے بغیر کسی خرچے کے ہمارے ہی ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہمیں ہی احساسِ کمتری اور مایوسی میں مبتلا کر دیا ہے۔ جب ہمارا صحافی ہی محقق نہیں رہا تو پھر استعمار کا مقابلہ کس نے کرنا تھا۔ چنانچہ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی بغیر کسی روک ٹوک کے تاریکی ہی تاریکی پھیلانے کا چلن عام ہوگیا۔ جدید استعمار کسی کو مارنے کے بجائے اُسے مایوسی کی تاریکی اور احساسِ کمتری میں مبتلا کرتا ہے۔ چونکہ جسے مار دیا جائے، اُس سے صرف ایک مرتبہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، لیکن جسے مایوسی اور احساسِ کمتری میں مبتلا کر دیا جائے، اُس سے بار بار استفادہ ممکن ہے۔ قارئینِ کرام! مذکورہ بالا گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ آپ چینل نہیں میڈیا بدلیں۔ اس دکھائی جانے والی مصنوعی تاریکی سے آپ نے گھبرانا نہیں! ہمیں گھبرانے کے بجائے اپنے ذرائع ابلاغ اور معلومات و خبروں کے منابع (Sources) کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ آپ استعماری ذرائع ابلاغ کی تاریک عینک اتار کر تو دیکھیں، آپ کو اپنے اِرد گِرد روشنی ہی روشنی نظر آئے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply