کوئٹے کی ریل گاڑی۔۔سلمان رشید/مترجم:عتیق بزدار

(Translation of “Railroad to Quetta” by Salman Rashid)
آج کوئٹہ جانے والی جدید ریل گاڑیاں درہ بولان کی ڈھلانوں پہ دوڑتی پھرتی ہیں مگر شاید ہی کوئی مسافر جانتا ہو کہ شہر کوئٹہ پہچنے والی ریل کو اپنا پہلا سفر اتنا آسان ہرگز نہ تھا. مارچ 1887 میں کوئٹہ کے لیے عازمِ سفر پہلی ریل گاڑی جب یہاں پہنچی تھی تو راستے میں سبی کے مقام پر شمال کی طرف مڑ کر گہرائی میں اتری , نشیب میں اُس نے دریائے ناڑی کی مانگ میں پہلے پہل سیندور بھرا ، پھر ہرنائی کی خُنک بار رفعتوں کو چوم کر مشہورِ زمانہ “چھپر رِفٹ” (Chappar Rift) کو پھلانگتی ہوئی مغرب میں خنائی کی طرف مڑی اور آخر کار بوستان سے گزرتی ہوئی کوئٹہ جا پہنچی تھی.

چھپر ہِل (Chappar Hill) کی ہئیت سوئس رول کے جیسی ہے. مغربی کنارہ نیم مدور دکھائی دیتا ہے اور شرقی سرا سنگلاخ چٹانوں پر محیط ہے. ان چٹانوں کے نین نقش بارشوں کے پانی نے صدیوں کی صناع کاری سے سنوارے ہیں. مدت مدید پہلے ایک زلزلے نے پہاڑی کے غربی سرے کو کاٹ کر ایک گہری کھائی بنا دی. اس شگاف میں ایک ندی بہتی ہے. جو ساون رُت میں ایک پُر شور پہاڑی نالے کا روپ دھار لیتی ہے اور بعد ازاں سکڑ کر کیچڑ گارے کا ننھا سا تالاب بن جاتی ہے. شگاف کے جنوبی سرے پر ایک مانیٹرنگ پوسٹ کے کھنڈرات گئے دنوں کی یاد دلاتے ہیں جب سرکار ندی میں بہتے پانی کی مقدار پر گہری نظر رکھتی تھی.

شگاف کے کنارے تقریباً عمودی ہیں. یوں گماں ہوتا ہے جیسے کسی جراح نے انہیں چیر کر علیحدہ کیا ہو. غربی سمت تھوڑا سا پرے ایک کشادہ نالہ ہے جو بلندی سے گہرائی کی طرف شمالاً جنوباً اترتا ہے. برٹش سرکار کو اس پُراسرار پہاڑی پر ریل کی پٹڑی بچھانے کا خیال آنے سے صدیوں قبل بھی تجارتی قافلے اور خانہ بدوش اس نالے کے نشیب و فراز سے گزرتے تھے. بارشیں نہ ہوتیں تو یہ نالہ پایاب ہوا کرتا تھا اور راہرو اس درے سے سے پیادہ پا چھینٹے اڑاتے ہوئے گزر جاتے تھے

آخر کار 1880 میں کوئٹہ کو تیزی سے پھیلتے ہوئے ریلوے کے نظام سے منسلک کرنے کا وقت آ پہنچا. سروئیر حضرات اپنی تھیوڈلائٹس اور مساحتی میزیں اٹھائے چھپر رفٹ کی قریبی پہاڑیوں پر چڑھتے اترتے نظر آئے. انہیں پٹڑی بچھانے کے لیے موزوں ترین رستے کا انتخاب کرنا تھا. چونکہ یہاں پانی کا اتار چڑھاؤ بھی خاصا متغیر رہتا تھا سو چھپر رِفٹ کی گہرائی میں پٹڑی بچھانا ہرگز معقول نہ تھا. غربی درز کی ڈھلان اتنی آڑھی ترچھی تھی کے اس پر پٹری گزاری جاتی تو ریل کا چڑھائی چڑھنا محال ہو جاتا. فقط چھپر رِفٹ کے جنوبی سرے پر شگاف کے بالائی اور زیریں کنارے کے مابین ڈھلانی زاویہ قدرے موزوں تھا کہ جہاں پٹڑی بچھانا معقول نظر آتا تھا. یہاں پہاڑی کے خم و پیچ کے گردا گرد ایک بل کھاتی ہوئی پٹڑی بچھائی جا سکتی تھی. چند مقامات پر جہاں پٹڑی نشیب سے گزرتی تھی انہیں انجینئرز نے “گیلری” کا نام دیا

یہ گیلری کچھ ایسی تھی کہ ایک طرف پورا پہاڑ اور دوسری طرف فقط ایک شکستہ چٹان. دو سے تین میٹر چوڑی اس چٹان میں تھوڑے تھوڑے وقفے پر کئی شگاف تھے جن سے روشنی اندر آتی تھی اور دھواں باہر جاتا تھا. یہاں سے پٹری دھیرے دھیرے اوپر چڑھتی تھی اور گیلری سے نکل کر وادی سے قدرے اوپر ایک سپاٹ میدان میں آنکلتی تھی. “گوگل ارتھ” پر آج بھی اس پل کے باقیات دیکھے جا سکتے ہیں (North 30º-20, East 67º-29) جسے کبھی “لوئی مارگریٹ برج” کہا جاتا تھا ریلوے لائن کے اس حصے کے خدوخال کی سب سے بہتر وضاحت مشہور کتاب
” Couplings to the Khyber : Story of North Western Railway”
کے مصنف پی ایس بیرج ( P.S Berridge ) نے کچھ یوں کی ہے
” یہاں لائن چھپر رِفٹ کی ایک عمودی دیوار میں بنی سرنگ سے نمودار ہوتی تھی ، پھر چالیس فٹ چوڑے سات پلیٹ گارڈر اور ایک سو پچپن فٹ چوڑے ٹرس سے بنے پل کو عبور کرتے ہوئے رفٹ کی دوسری دیوار میں بنی سرنگ میں گم ہو جاتی تھی. اور پھر دھیرے دھیرے بل کھاتی یہ سرنگ ٹریک کو رفٹ کے متوازی لے آتی تھی.

بلندی سے جا کر دیکھیے تو اس شخص کے طباعی پہ رشک آتا ہے جس کے جدت طرازی نے اس منصوبے کو جنم دیا. جس نے پٹڑی کو چھپر رِفٹ کے جنوبی سرے پر واقع “درگی” گاؤں کے قریب 1460 میٹر کی اونچائی سے کھائی کے اُس پار پُل کے ذریعے 1525 میٹر بلندی تک پہنچانے کی ٹھانی. اور پھر پہاڑ کی دوسری طرف 1630 میٹر کی بلندی تک پہنچایا

چھپر رِفٹ اس ریلوے لائن کا دشوار ترین مگر سب سے دلفریب حصہ تھی. یوں گماں ہوتا تھا کہ چھپر رِفٹ کی جغرافیائی دراڑ کو کسی مشاق جراح نے ایک نفیس ٹانکے سے ایسے جوڑا کہ نارتھ ویسٹرن ریلوے کے سہرے میں ایک تابدار نگینہ جڑ دیا. اس پُل کی تکمیل کے فوراً بعد محترمہ ڈچِس آف کوناٹ (Duchess of Connaught) معائنے کے لیے تشریف لائیں اور پھر پُل کو اُن کے نامِ نامی سے معنون کر دیا گیا.

پچپن سال تک بھاپ انجن میں جُتی ریل گاڑیاں خوست جاتی رہیں. یہ رِفٹ ٹاپ کر کوئٹہ سے شمال مغرب کو مڑتی رہیں. تصور کے جھروکے سے مجھے آج بھی وہ کھنکارتے ہوئے بھاپ کے دہکتے انجن اس لائن پہ دوڑتے نظر آتے ہیں. گیلری سے گزرتے انجنوں کی دنادن سنائی دیتی ہے. میں آج بھی دوڑتی پھرتی ریل گاڑیوں تلے تھرکتے پُل کا ارتعاش محسوس کرتا ہوں. ریل کی کھڑکھڑاہٹ، پھر گھاٹی کی دیواروں سے لوٹتی بازگشت میرے دل کے تار ہلاتی ہے. کاش میں اس دور میں جیا ہوتا . یہ دلکش منظر یہ جمالیاتی تجربہ فقط ایک بار بھی میسر آ جاتا تو آنکھوں کی طراوت کو کافی تھا

شروع دن سے ہی پٹڑی بچھانے میں کئی رکاوٹیں حائل تھیں. گھاٹی کا سٹیشن مٹی کے ایک ٹیلے کے عین تلے واقع تھا. جب بھی کبھی مینہ برستا تو گارے کیچڑ کا ایک سیلاب ٹیلے سے بہتا ہوا آتا اور لائن کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا. یہ گارا جلد ہی خشک ہو کر سخت ہو جاتا اور پھر اسے کھود کر ہٹانا پڑتا تھا. آئے روز کی اس بلائے ناگہانی کے باعث کسی ستم ظریف نے اس سٹیشن کا نام ہی ” Mud Gorge” (گارا کھائی ) رکھ دیا. اب یہ تو اس لائن کی مرمت پر معمور لوگوں کی خوش قسمتی تھی کہ اُن دنوں اس لائن پر کوئٹہ کے لیے ہفتے میں فقط ایک “اَپ” اور ایک “ڈاؤن” ٹرین سروس چلا کرتی تھی

رِفٹ کی بالائی ڈھلوانیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں. آئے روز اوپر سے پتھر لُڑھک کر لائن پر آ گرتے تھے. ریلوے کی ایک ٹیم روز صبح سویرے لائن کا معائنہ کرتی تھی. گیارہ جولائی انیس سو بیالیس کی رات موسلا دھار بارش ہوئی اور پانی کا منہ زور ریلا ڈھلوانوں سے نیچے اترا. اگلی صبح جب ریلوے کا عملہ لائن کے معائنے کو پہچنچا تو بیرج کے الفاظ میں ” انہیں لائن گھاٹی کے ایک سِرے پر کسی خمدار گُچھے کی طرح جھولتی ہوئی نظر آئی.

اُن دنوں محکمہ ریل کے انجینئر درہ بولان میں کوئٹہ کے لیے ایک ڈائریکٹ لائن بچھانے میں مصروف تھے. ( یہ بھی ایک معرکے کا کام تھا جو شمال مغربی ریلوے کی داستانوں میں سے ایک داستان ہے) درہ بولان کی ریلوے لائن انیس سو بیالیس کے گرمیوں میں فعال ہو چکی تھی اور کوئٹہ ، برٹش انڈیا کے ریلوے نظام سے منسلک ہو چکا تھا. سو چھپر رِفٹ کا پُل ٹوٹنے سے کسی کو کوئی دقت نہ پیش آئی. ریلوے کا عملہ تو اس سیکشن پر معمور رہا مگر مرمت کی کوشش نہیں کی گئ. مئی انیس سو تینتالیس (1943) میں سرکار انگلیشیہ نے زردالو ( خوست کے نزدیک) خنائی (وادئ ژوب ریلوے پر) سیکشن بند کرنے کا فیصلہ کر لیا. دوسری جنگ عظیم زوروں پر تھی اور برطانوی سرکار کو سٹیل کی اشد ضرورت تھی. اور یوں ابھی اس ریلوے سیکشن کو بند ہوئے سال بھی نہ ہوا تھا کی سرکار نے پٹڑی اکھاڑنے کا حکم نامہ جاری کر دیا.

میں کئی بار چھپر رِفٹ جا چکا ہوں. اور جب بھی وہاں جاتا ہوں ، گھاٹی کے کنارے ایستادہ ، پُل کے آخری ستون سے ٹیک لگا کر اس پُرکیف منظر میں گم ہو جاتا ہوں. سوچتا ہوں کیسی عظیم انسانی کاوش کو قدرت نے ملیا میٹ کر ڈالا. اور ایک نمی سی میری آنکھ میں اتر آتی ہے.

انیس سو ترانوے میں خوست میں ایک آزمودہ کار ریٹائرڈ ریلوے ملازم گل محمد سے ملاقات ہوئی. باتوں باتوں میں اُس پیر مرد نے بتایا کہ جب لوئی مارگیرٹ پل کو اکھاڑنے کا حکمنامہ موصول ہوا تو ریلوے کے لائق فائق انجینرز اس کارے دارد کے لیے کوئی لائحہ عمل طے کرنے سے قاصر نظر آئے. پھر ایک سِکھ نے یہ کارنامہ کچھ یوں سرانجام دیا کہ پُل کا ایک سِرا پتھروں سے لدی گاڑیوں سے باندھا اور اُن گاڑیوں کو “گیلری” سے نیچے لُڑھکا دیا. چند یار لوگوں نے زیبِ داستاں کے لیے یہ بھی مشہور کر دیا کہ گورا سرکار نے اُس سکھ کے ہاتھ کٹوا دیے مبادا کہ یہ شخص ایسے کارنامےکسی اور کے لیے کرتا پھرے

بیرج (Berridge) نے بھی اپنی کتاب میں پٹڑی اکھاڑنے کا تذکرہ کیا. مگر بیرج نے گل محمد سے کچھ زیادہ تیکنیکی تفصیل مہیا کی ہے. بہرطور ہمارے گل محمد کو “سینہ گزٹ” سے یہ تفصیل تو درست ہی پہنچی ہے کہ یہ نارتھ ویسٹرن ریلوے برج ڈیپارٹمنٹ کا انسپکٹر ہرنام سنگھ ہی تھا جس نے پُل اکھاڑنے کا دشوار کام اسسٹنٹ برج انجینئر جان انگلینڈ کے ساتھ مل کر سر انجام دیا.

جب انیس سو ترانوے میں مجھے پہلی بار چھپر رِفٹ نامی کی دید میسر آئی تو اس وقت لائن کو اکھاڑے گئے پورے انچاس برس بیت چکے تھے. میں بوستان سے یہاں پہنچا تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ آج بھی لائن بیڈ (Line Bed)، اور پُلوں کے ستون سلامت ہیں. منگی ، مڈ گورج اور کچ کے سٹیشن بھی قائم دائم ہیں

اب یہ اسٹیشن ویران پڑے بھائیں بھائیں کرتے ہیں. آج بھی آپ اسی لائن بیڈ پر کوئٹہ زیارت روڈ کے متوازی چلتے چلتے خنائی سے “کچ” پہنچ سکتے ہیں. کچ ریلوے اسٹیشن بوگن ویلیا کی بیلوں سے لدا ہوا تھا اور اب کسی سرکاری محکمے کے زیر استعمال تھا.

میں نے اس لائن بیڈ کی راہ لی. اور اپنے آپ کو برج انسپیکٹر ظاہر کیا. سرِ راہ میں ہر اکھاڑے ہوئے پُل پر رُکا. ان تمام پُلوں کے ستون ابھی تک سلامت تھے. شاید منتظر کھڑے تھے کہ کوئی آئے، ان پر گارڈر بچھائے اور اس ٹریک کو ایک بار پھر رواں کر دے. میں 1.1 کلومیٹر کے اس ٹریک پر چلتا رہا جو ڈھلان کے گردا گرد نیچے سے اوپر کی طرف بچھایا گیا تھا. یہ ٹریک بھی گوگل ارتھ پر دیکھا جا سکتا ہے (North 36º-26’, East 67º-14)

رِفٹ کے زیریں سرے پر کچھ نوجوان گھومتے پھرتے نظر آئے. یقینناً ان جوانوں نے اس رِفٹ کو پھلانگتی دوڑتی پھرتی ٹرینوں کے قصے سُن رکھے تھے. نوجوان میری طرف بڑھے اور پوچھا کیا آپ اس لائن کی بحالی کے لیے معائنہ کرنے آئے ہیں. اُن میں سے ایک نے تو یہ دردمندانہ اپیل بھی کر ڈالی ” یارا جی! ہمیں ہماری ریلوے لوٹا دیجیے” . اُس نے سکائی لائن پر نمایاں پُل کی ستونوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹرین سروس دوبارہ چلانے میں کچھ خاص محنت درکار نہیں. میں نے اُسے بتایا صاحب! میں فقط ایک لکھاری ہوں. مجھے اُس کی امید توڑنے کا بہت افسوس ہوا.

انیس سو پچانوے میں میرے دوسرے دورے سے کچھ مدت بعد مقامی لیویز فورس نے ” مڈ گورج” ریلوے اسٹیشن کا کنٹرول سنبھال لیا. انیس سو ننانوے میں یہاں ایک بورڈ بھی آویزاں کر دیا گیا. اس بورڈ پر تحریر کچھ یوں تھی ” لیویز پوسٹ مڈ گارڈ” . چونکہ یہاں مروجہ پشتو تلفظ “مڈ گاج” تھا. “گاج” دراصل “گورج” کا متبادل علاقائی نام تھا. یوں رفتہ رفتہ “مڈ گورج” “مڈگارڈ” بن گئی. کسی بزعم خود بابو نے لیویز والوں کو بتایا بھی کہ یہ نام فقط اُن کی بے وقوفی کی وجہ سے پڑا ہے. یہ ایک انتہائی خوش منظر ریلوے اسٹیشن تھا. گئے دنوں کے تمام روایتی اسٹیشنوں کی طرح یہ بھی ڈھلانی چھت اور ستونوں پہ استوار برآمدے سے آراستہ تھا.
اب یہ لائن لاریوں اور بسوں کے لئے بطور سڑک کا کام دیتی ہے مگر پلیٹ فارم کا خم دار پھیلاو آج بھی پرانے ریلوے کا احساس لئے ہوئے ہے. تھوڑا پرے مڈ گورج سرنگ کا دہانہ نظر آ رہا تھا جس سے اب موٹر گاڑیاں گزرتی ہیں

کئی برس بیت گئے. مگر میں 2010 سے پہلے چھپر رِفٹ کی طرف لوٹ کر نہ آ سکا. اس بار میں نے اس اداس ویران مڈ گورج اسٹیشن کی ڈیجیٹل تصاویر بنانے کا سوچ رکھا تھا. اس سے قبل میرےپاس اس اسٹیشن کی فقط ایک تصویر محفوظ تھی جو میری کتاب ( Prisoner on the Bus : Travels through Pakistan) میں محفوظ ہے. مگر اب کی بار اسٹیشن یہاں موجود نہ تھا. اسے منہدم کر دیا گیا تھا. اور وہ بھی بغیر کسی وجہ کے. سرنگ اب بھی موجود تھی مگر وہ بھی ویران پڑی تھی کیونکہ ٹریفک کے لیے سرنگ کے گرد ایک کچا رستہ استعمال ہو رہا تھا

کوئی اور ملک ہوتا تو شاید چھپر رِفٹ ریلوے لائن ایک سیاحتی مقام ہوتی. مڈ گورج اسٹیشن اِک کاروان سرائے ہوتا، زردالو اور خوست ریلوے اسٹیشن چائے خانے یا میوزیم بنا دئیے جاتے. . اور ان اسٹیشنوں کے باہر اگلے وقتوں کی یادگار بھاپ کے انجن ایستادہ نظر آتے.
مگر افسوس ہم پاکستان میں رہتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

(Translation of “Railroad to Quetta” by Salman Rashid)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply