• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • عورت ،روایتی مذہبی فکر اور سید محمد حسین فضل اللہ۔۔شبیر

عورت ،روایتی مذہبی فکر اور سید محمد حسین فضل اللہ۔۔شبیر

ہماری روایتی  مذہبی فکر میں عورت مرد سے کمتر سمجھی جاتی ہے،  اسےمرد کے مقابلے میں  کم عقل،فتنہ  اور ناقص الدین قرار دیا جاتا ہے ،    اس فکرکے نتیجے میں   سامنے آنے والے تصور میں عورت کی حیثیت   مرد کی جنسی خواہشات کو پورا کرنے والی  خادمہ   اور کنیز کی ہوتی ہے   ۔  روایتی مذہبی فکر کے نمائندے  عورت کے حوالے سے  اپنے فہم کو ہی  اسلام سمجھتے ہیں، اور اس حوالے سے کسی بھی قسم کی تنقید کو  روا نہیں سمجھتے۔

یہی وہ رویہ ہے جس کی وجہ سے اسلامی دنیا  کی عورت مسلسل   ظلم و ستم کی چکی میں پِس رہی ہے۔   دلائل کی بِنا پر جب روایتی فکر کے  “فہم” کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ،تو   عورت کے حوالے سے اپنے فہم پر نظرثانی کرنے کی بجائے روایتی مذہبی فکر سے انحراف  کرنے والے شخص  کو اسلام دشمن ثابت کرنے کے لئے پوری توانائی خرچ کر دی جاتی ہے، لیکن اس کے با وجود  عالم اسلام  میں بہت سے علما نے  دلائل کی بنا پر   عورت کے متعلق  روایتی مذہبی فکر کو چیلنج کیا  ، لبنان سے تعلق رکھنے والےسید محمد حسین فضل اللہ بھی ایسے ہی ایک عالم دین تھے ،جنہوں نے عورت کے حوالے سے روایتی مذہبی فکر سے ہٹ کر نقطہ نظر اختیا ر کرتے ہوئے ایسے فتوے دیئے جو  روایتی مذہبی فکر کے خلاف ہیں ۔  انہوں نے وسیع مطالعہ اور قرآن و سنت پر غور وغوض کے بعد بغیر کسی  ہچکچاہٹ کے عورت پر ہونے والے  ظلم کو  اس طرح بیان کیا۔۔

“میں نے  قرآن و سنت کو سامنے رکھتے ہوئے  عورت کے متعلق  روایتی اسلامی فکر کا مطالعہ کیا، اس مطالعہ اور تحقیق کے  بعد       میرے سامنے یہ چیز کھل کر سامنے آئی کہ   روایتی  مذہبی لوگوں نے  بعض احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کے ظاہر کے خلاف تاویل کی  ،یعنی قرآن  کے ظاہر ی حکم سے پہلو تہی کرتے ہوئے ،اس حدیث سے استناد کیا جو سند اور  متن کے لحاظ سے قابل نقد تھی ۔     تاریخ میں عورت ہمیشہ ظلم کا شکار رہی ہے ، میرے نزدیک   عورت کی عقل اور توانائی مرد کے برابر ہے  لیکن اس کے باوجود عورت کو عملی میدان سے نکال باہر کرتے ہوئے اسے مرد کے لئے  جنسی کھلونا اور کنیز کے طور پر دیکھا گیا”۔

سید محمد حسین فضل اللہ   نے اپنی فقہی آراء میں عورت کے ایسے  حقوق  بیان کیے، جو روایتی مذہبی فکر کے  برعکس ہیں ۔انہوں نے عورت کو مرد کے برابر قرار دیتے ہوئے یہ نقطہ نظر اختیار کیا کہ جس طرح  بالغ و رشید مرد اپنے مالی امور میں خود مختار ہے اسی طرح  بالغہ اور رشیدہ عورت بھی اپنے مالی امور میں مرد کی طرح خود مختار ہے   اسی طرح شادی کے معاملے میں بالغہ اور رشیدہ عورت  باپ،دادا  اور بھائی  کی اجازت کی پابند نہیں ہے بلکہ  اس امر میں فیصلہ  کرنے میں خود مختار ہے     شادی کے لئے باپ سے اجازت لینا ضروری نہیں بلکہ  یہ ایک مستحب امر ہے۔

عورت پر شوہر کے ظلم کے حوالےسے سید محمد حسین فضل اللہ کی فقہی رائے  ہے  کہ عورت   اپنے شوہر کی طرف سے تشدد کرنے کی صورت میں اپنا دفاع کرتے ہوئے  اس کا جواب دے سکتی ہے یعنی  اگر مرد عورت پر سختی کرتے ہوئے اس کو نفقہ جیسے حقوق سے محروم کر  دے تو  عورت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مرد کو ان حقوق سے محروم کر دے  کہ جن کی بجا آوری نکاح کے بعد  ضروری ٹھہرتی ہے۔

اسی طرح سید محمد حسین فضل اللہ  عورتوں پر تشدد کے حوالے سے مردوں کی اس قبیح حرکت کو ناجائز قرار دیتے  ہوئے عورتوں سے کہتے ہیں کہ وہ   خود کو مضبوط اور قوی بنانے کے لئے ورزش کریں تا کہ اپنا دفاع کر سکیں۔

جہاں تک  عورت کے حوالے سے سید محمد حسین فضل اللہ کی آرا ء کے دلائل و  استنادات کا تعلق ہے تو  وہ روایتی   مذہبی فکر کے بر عکس قرآن کو اصل  مرجع و منبع قرار دیتے ہیں  اور اس حدیث کو دیوار پر مارنے کے قائل ہیں جو قرآن کے مخالف ہو۔

عورت اور مرد کی برابری کے حوالے سے  سید محمد حسین فضل اللہ کا کہنا ہے کہ  مجھے قرآن مجید میں کوئی  ایسی آیت نہیں ملی جس میں  مرد کی عورت پر  برتری کا ذکر ہو  اس چیز کے اثبات  کے لئے وہ قرآن مجید کی صریح آیات کو پیش کرتے ہیں مثلا  قرآن مجید میں عورت اور مرد یکساں طور پر مکلف قرار دیئے گئے ہیں(بقرہ36)اسی طرح اخلاقی اقدار میں بھی عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں (آل عمران 195)اچھے اور برے  کاموں کی جزا اور سزا میں بھی  مرد اور  عورت میں کسی فرق کو ملحوظ نہیں رکھا گیا (نور2)عورت کی جن منفی اخلاقی  اقدار کو قرآن ضرب المثل کے طور پر بیان کرتا ہے  اس کا مخاطب  مرد اور عورت دونوں ہیں (تحریم10)

الَّذِىْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّّخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا۔ جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا۔

زوجیت کا معنی یہ نہیں ہے کہ  دو چیزیں ایک دوسری سے ا لگ  ہوں  بلکہ  اس کا مطلب پیوستہ اور ایک دوسرے سے جڑی ہوئی دو چیزیں ہیں۔

سید محمد حسین فضل اللہ کے نزدیک  میراث میں عورت کے  مرد  سے کم حصہ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مرد کی شخصیت عورت سے برتر ہے   بلکہ  یہ عورت اور مرد کی مختلف  معاشی ذمہ داریوں  میں توازن کا قیام ہے۔

روایتی مذہبی فکر میں الرجال قوامون علی النسا   سے عام طور پر یہ مراد لی جاتی ہے کہ  عورتوں کے امور میں مرد  حاکم ہیں لیکن سید محمد حسین فضل اللہ کے نزدیک  یہ آیت   انسان کی ازدواجی زندگی کے متعلق ہے  جس میں مرد بیوی کے نفقہ کی ادائیگی کرتا ہے  ازدواجی  حدود کے باہر مرد کو عورت پر کسی قسم کی برتری حاصل نہیں ہے  ۔

روایتی مذہبی فکر میں عورت مرد کی اجازت کے بغیر گھر سے قدم باہر نہیں نکال سکتی  اس حوالے سے  سید محمد حسین فضل اللہ کی رائے یہ ہے کہ   شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلنے کا مسئلہ شوہر کے جنسی حق کی حفاظت کے لئے ہے اگر بیوی  اپنے شوہر کے جنسی حق کی حفاظت  کرتے ہوئے بغیر اجازت کے گھر سے باہر نکلتی ہے تو کوئی حرج نہیں ہے   یعنی  جب تک  عورت زوجیت میں ہے   تب تک وہ  اپنے شوہر کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے میں آزاد نہیں   دوسری طرف  عورت کا بھی مرد پر  جنسی حق ہے    اس صورت میں کہ جب عورت شدید جنسی  ضرورت کا احساس کرے تو اس کی ضرورت کو پورا کرنا مرد  پر لازم ہے۔

سید محمد حسین فضل اللہ عورت کی آدھی گواہی کو  عورت کی کم عقلی سے تعبیر نہیں کرتے بلکہ ان کے نزدیک  گواہی  کسی امانت کا پہنچا  دینا ہے اور اس کا تعلق عقل کی کمی یا زیادتی  سے  نہیں ہے   دو عورتوں کی ایک مرد کی گواہی  عورت کے مرتبے کی کمی کی وجہ سے نہیں ہے  بلکہ احتیاط کی وجہ سے ہے   ۔

سید محمد حسین فضل اللہ کا مغربی عورت کے متعلق خیال ہے کہ اس نے ہر میدان میں خود کو منوایا ہے لیکن مغربی عورت  مغربی مرد کی طرح  معنوی بحران کا شکار ہے   مغر ب میں عورت کوآزادی اور خود مختاری  نصیب ہے   لیکن یہ آزادی اور خود مختاری اس حد تک پیچیدہ ہے کہ  وہ اس احساس سے محروم ہے کہ مرد کا تکامل اس  کے بغیر اور اس کا تکامل مردکے بغیرممکن نہیں ہے ۔

مشرقی عورت کے متعلق ان کا خیال ہے کہ   یہاں عورت کو دوسرے درجے کا انسان سمجھا جاتا ہے  مشرقی باپ  اپنی بیٹی کی  شخصیت اور مرضی کا احترام نہیں کرتا  بیٹی کی مرضی پوچھے بغیر اپنی مرضی اس پر مسلط کرتے ہوئے  شادی کر دی جاتی ہے  ۔

مشرقی باپ کے ایسے رویے کو سید محمد حسین فضل اللہ  دور جہالت کی فکر قرار دیتے ہیں  جس میں بیٹی کو  حق حاصل نہیں ہوتا کہ  وہ کسی معاملے پر اپنے باپ سے بحث کر سکے   بیٹی کو  خاندان کی عزت کا سمبل سمجھا جاتا ہے اور اس  کے کسی انحراف کی صورت میں خاندان کی عزت مٹی میں مل جاتی ہے  جبکہ دور  جہالت کی اس فکر میں بیٹے کے زنا کا دفاع کیا جاتا ہے   لیکن اگر بیٹی کسی انحراف کا شکار ہو جائے تو  اسے قتل کر دیا جاتا ہے۔سید محمد حسین فضل اللہ  کہتے ہیں کہ  جب مشرقی عورت  رشتہ ازدواج سے منسلک ہوتی ہے تو  شوہر کے گھر میں بھی اسے مذکورہ جہالت کا سامنا کرنا پڑتا ہے   شوہر کی خواہش  اور ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ وہ ہر چیز میں آنکھیں بند کر کے  شوہر کی اطاعت کرے۔

اسلام اور عورت کی آزادی کے متعلق سید محمد حسین فضل اللہ کا کہنا ہے کہ   عورت کو اسلام میں کیا مقام و مرتبہ حاصل ہے اس حوالے سے  بہت کچھ لکھا گیا ہے  اسی طرح اس حوالے سے لمبی لمبی تقریریں کی گئی ہیں   لیکن  عورت کو حاصل مقام و مرتبہ کے حوالے سے  عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔

سید محمد حسین فضل اللہ کے نزدیک مشرقی عورت کوچاہیے کہ وہ فکری،سیاسی، اور اجتماعی امور میں  اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرے معاشرے  کی نسبت عورت کی بھی اتنی ہی ذمہ داری ہے جتنی مرد کی اس لئے عورت کو  اپنے ملک کے سیاسی مسائل کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے   عورت کے ساتھ امتیازی رویہ تب ختم ہو سکتا ہے جب ہم عورت کو  انسان سمجھیں اور اس کو  ایک جنس کے طور پر نہ دیکھیں اسلام  عورت کو  انسان ہونے کے ناطےمتحرک دیکھنا چاہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

روایتی مذہبی فکر کے بر عکس سید محمد حسین فضل اللہ کا قطعاً یہ دعوی نہیں تھا کہ ان کی آرا ء نا قابل  تردید ہیں،   انہوں نے ہمیشہ استدلال پر مبنی  تنقید کا استقبال  کیا۔   ان کا کہنا تھا کہ مجھ میں یہ جرات ہے کہ جب  اپنی کسی رائے کے غلط ہونے کو جان لوں تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے  اپنی رائے سے رجوع کر لوں لیکن    عوام  کی طرف سے نا سزا کہے جانے  کے خوف  سے میں اپنی آرا ء بیان کرنے سے   باز نہیں رہ  سکتا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply