میں آپ کو ووٹ کیوں دوں؟۔۔۔نجم ولی خان

خان صاحب! آپ میرے شہر میں آئے، بہت سارے مقامات پر آپ کی پارٹی نے ممبر سازی کے لئے کیمپ لگائے جہاں آپ نے خطاب کیا اور ایک ، مقام پر آپ کے خطاب کو سننے کے لئے میں بھی گیا۔ میرا خیال تھا کہ آپ مجھ پیدائشی لاہورئیے کو بتائیں گے کہ آپ نے نیا پاکستان کانعرہ لگاتے ہوئے ان پانچ برسوں میں ایک نیا خیبرپختونخوا بنا لیا ہے جہاں زندگی لاہور سے بھی بہتر ہے مگر آپ کی تقریروں میں وہی گھسے پٹے الزامات تھے جو قیام پاکستان سے لے کر اب تک سیاستدان ایک دوسرے پر لگا رہے ہیں۔آپ کے ممبر سازی کے کیمپوں میں حاضرین کی تعداد وہی تھی جو اس سے پہلے این اے ایک سو بیس کے انتخابات میں آپ کے جیل روڈ کے جلسے اور مال روڈ کی ریلی میں رہی، میرا خیال ہے کہ لاہور نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔

خان صاحب! میرا خیال تھا کہ آپ خیبرپختونخوا پولیس میں بہتری کی نئی متاثر کن کہانیاں سنائیں گے مگر مجھے ان پرانے سوالوں کے جواب بھی نہیں ملے کہ میری گاڑی جب لاہور سے چوری ہوتی ہے تو قیمت کا ایک چوتھائی سے نصف دے کر وہ پشاور اور کوہاٹ سے کیسے واپس ملتی ہے۔ جب بھی میرے صوبے سے ناجائز اسلحے کی کوئی کھیپ پکڑی جاتی ہے تو اس کے بارے یہ کیوں کہاجاتا ہے کہ وہ آپ کی حکومت والے صوبے سے آئی ہے اور یہی صورتحال منشیات اور سمگلنگ کے سامان کے بارے ہے۔ آپ اپنی پولیس کی تعریفیں کرتے اور پنجاب پولیس کو گالیاں دیتے رہیں مگر آپ کا صوبہ ابھی تک منشیات فروشوں، سمگلر وں، ناجائز اسلحے کے ڈیلر وں اور اغوا برائے تاوان میں ملوث لوگوں کی جنت کیوں ہے۔ میں جانتا ہوں کہ خیبرپختونخوا کے عوام ان سے بہت تنگ ہیں مگر ،افسوس، ہر دور میںیہ جرائم پیشہ مضبوط سے مضبوط تر ہوئے ہیں۔

خان صاحب! میرا خیال تھا کہ آپ مجھے بتائیں گے کہ آپ نے خیبرپختونخوا میں غریب عوام کے لئے کتنے نئے سرکاری ہسپتال قائم کئے ہیں کہ میں جب بھی اپنے شہر کے ہسپتالوں میں جاتا ہوں تو وہاں اپنے پختون بھائیوں کی بڑی تعداد دیکھتا ہوں۔ مجھے ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ اگر وسطی پنجاب کے ہسپتالوں سے خیبرپختونخواہ اور جنوبی پنجاب کے ہسپتالوں سے سندھ کے مریضوں کا بوجھ ختم ہوجائے تو یہ ہسپتال پنجاب کی آبادی کے لئے کافی ہیں ۔ میں نے سنا کہ آپ پشاور میں شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر مکمل ہونے پر خوشی کا اظہار کر رہے تھے، میں شوکت خانم ہسپتال میں کینسر کے مریضوں کے داخلے اور ٹیسٹوں وغیرہ کے اخراجات پر بات نہیں کرنا چاہتا کہ آپ نے اسے مقدس بنا رکھا ہے مگر یہ ضرور کہوں گا کہ ایک حکومتی پارٹی اپنے عوام سے فنڈز جمع کرتے ہوئے ایک ایسا ہسپتال بنا لیتی ہے جو اس کے رہنما کی ملکیت ہے مگر دوسری طرف برس ہا برس تک ایک ہسپتال کی ایمرجنسی مکمل نہیں ہوپاتی تو اس گورننس کو کیا نام دیا جائے۔میرا خیال تھا کہ آپ مجھے بتائیں گے کہ آپ نے خیبرپختونخوا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں کوئی انقلاب برپا کیا ہے مگرآپ نے نہیں بتایا اور میر ے پاس یہ خبر ہے کہ آپ کا صوبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بنیادی کام کرنے کے لئے پنجاب کے انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ سے مدد مانگ رہا ہے یعنی پنجاب جس میدان میں دوڑ رہا ہے آپ نے ابھی وہاں چلنے کا آغاز کرنا ہے۔

خا ن صاحب! میرے شہر کی سڑکیں اگر کھلی نہ کی جاتیں تو اس وقت ہر سڑک پر ٹریفک بلاک ہوتی ۔ میٹرو اور سپیڈو کی صورت پبلک ٹرانسپورٹ کا آئیڈیل نظام بھی میرے ہی شہر میں ہے جبکہ آپ نے چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ مل کر میری اس میٹرو کے خلاف باتیں کیں جو ہر روز سواسے ڈیڑھ لاکھ لاہوریوں کو سفر کی سہولت فراہم کرتی ہے، مہینے میں یہ تعداد پینتالیس لاکھ اور سال بھر میں یہ تعداد لاہور شہر کی آبادی سے بھی چار سے پانچ گنا ہوجاتی ہے۔ جس میٹرو کو آپ نے برا بھلا کہا اب وہی میٹرو آپ پشاور میں بنا رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں جب کوئی بڑا سانحہ ہوتا ہے تو اس کی فرانزک رپورٹ آپ کو لاہور ہی کی لیبارٹری سے ملتی ہے کیونکہ آپ نے پانچ برسوں میں ایسا کوئی منصوبہ نہیں بنایا، ہاں، جب آپ خیبرپختونخواپولیس کے روئیے اورمیرٹ کی بات کرتے ہیں تو میں سوچتا ہوں کہ یہ خوبی تحریک انصاف کی حکومت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس پختون ثقافت کی وجہ سے ہے جس میں کوئی پٹھان کسی دوسرے کا ظلم برداشت نہیں کرتا۔ وہ تھپڑ مارنے والے کو جواب میں گولی مار دیتا ہے لہذا خیبرپختونخوا کے کسی انسپکٹر میں یہ جرات نہیں کہ وہ پختون سے وہ سلوک اور رویہ رکھ سکے جو پنجاب اور سندھ کے ایس ایچ او بالترتیب پنجابیوں اور سندھیوں سے روارکھتے ہیں۔

خان صاحب! پرائمری اورمڈل تعلیم کے حوالے سے’ الف اعلان‘ نام کی این جی او کی رینکنگ میں خیبرپختونخوا کے بہترین اضلاع بھی پنجاب کے بہت سارے اضلاع کے بہت بعد میں آتے ہیں اور جہاں تک اعلیٰ تعلیم کی بات ہے پنجاب سے کوئی بھی خیبرپختونخوامیں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے نہیں جاتا، اس کے لئے سب لاہور اور پنجاب کا ہی رخ کرتے ہیں۔ممبر سازی مہم کے دوران مجھے کسی نے کہا کہ میرے خان کو دیکھو، اس نے فیکٹریاں اور کارخانے نہیں لگائے، اس نے کاروبار نہیں کئے بلکہ عوام کے لئے یونیورسٹی اور ہسپتال بنائے۔ میں نے اس کی شکل کی طرف غور سے دیکھا اوربتایا کہ اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار صحت اور تعلیم کے ہی ہیں جن میں ایک بار سرمایہ کاری ہوجائے تو زندگی بھر کی روٹیاں لگ جاتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خان صاحب ! آپ نے کہا کہ لاہور میں آپ کو سیمنٹ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور میںآپ کوبتاتا ہوں کہ لاہور میں پارک اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی نے جتنا زیادہ اور بہترین کام کیا ہے اس کی مثال ہمیں کراچی اور پشاور سمیت ملک بھر سے نہیں مل سکتی اور سب سے بڑھ کے میں آپ کوبتانا چاہتا ہوں کہ ان برسوں میں پنجاب حکومت نے ڈاکٹر امجد ثاقب کی معاونت سے تعلیم کے میدان میں انڈوومنٹ فنڈ اورروزگار کی فراہمی کے لئے چھوٹے قرضوں کے ذریعے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں خاندانوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا ہے جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے بالکل جدا تصور ہے ۔ جان لیجئے کہ تبدیلی کا نعرہ سیاسی مقاصد کے لئے آپ لگاتے ہیں مگر کسی خاندان میں حقیقی تبدیلی اسی وقت رونما ہوتی ہے جب اس کو کاروبار کرنے کے لئے موقع اور سرمایہ مل جائے یا اس کا بیٹا یا بیٹی اعلیٰ تعلیم حاصل کر لے۔ یہ حقیقی تبدیلی اوریہ پرامن انقلاب پنجاب میں برپا ہو چکا ہے۔مجھے یہ کہنے دیجئے کہ ہم لاہوریوں نے آج سے پانچ برس پہلے جب آپ کا طوطی بولتا تھا تب بھی تحریک انصاف کے سات لاکھ تہتر ہزار سات سو چھہتر ووٹوں کے مقابلے میں مسلم لیگ نون کوتیرہ لاکھ اناسی ہزار چھ سو ایک ووٹ دئیے تھے اور اب تو وہ پرانی صورتحال بھی نہیں ہے۔ ہم لاہوریوں کے پاس اس وقت ’ ووٹ کوعزت دو‘ کا ایک مضبوط سیاسی نعرہ بھی ہے مگر دوسری طرف آپ کے پاس وہی تنقید اور وہی الزامات ہیں جو آپ سات برس سے دہراتے چلے آ رہے ہیں اور اب ان میں اضافہ یہ ہوا ہے کہ آپ ہم لاہوریوں کی ترقی اور سہولت کو لاہور میں ہی کھڑے ہو کے گالی بھی دیتے ہیں۔ مجھے بتائیں کہ میں آپ کو ووٹ کیوں دوں؟

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply