عید کی خوشیاں اور خواتین کی مصروفیات

بڑی عید، بکرا عید، عید قربان اور عید الاضحیٰ ،   یہ سبھی  نام اس بابرکت اور عظیم عمل سے وابستہ ہیں جو حضرت ابراہیم ؑ سے منسوب ہے اور جو تب سے اب تک کسی نہ کسی شکل میں تاریخِ نوع انسانی کے یادگاری ایام میں سے ایک روشن و فروزاں دن ہے۔ کتنی ہی خوشیاں اس دن سے وابستہ ہیں ۔ عید الفطر کے بعد یہ دوسرا اسلامی تہوار ہے جو ہر مسلمان، خواہ بچہ ہو یا بڑا،کہ سینوں میں راحتوں،مسرتوں ا ور روحانی سرشاری کے دیے روشن کر دیتا ہے۔
عید الفطرمہندی،چوڑیوں،زرق برق پہناووں ا ور سویوّں کا جبکہ عید الاضحی قربانی کے گوشت کی تقسیم کے ساتھ ساتھ نت نئے لباسوں ، اعلی پکوانوں اور میل ملاپ کا دن ہے ۔ خواتین کی ذمہ داریاں اس روز کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ انہیں اپنی،گھر،باورچی خانے،بچوں، اعزہ و اقارب اور مہمانوں کی فکر لاحق ہوتی ہے اور اسی ادھیڑ بن میں ان کا بیشتر حصہ گذر جاتا ہے۔ شام گئے انہیں تیار ہونے کی ذراسی فرصت نصیب ہوتی ہے اور پھر بچوں اور بڑوں سے ملتے جلتے اور انہیں بھگتاتے رات تمام ہو جاتی ہے۔


عید الاضحیٰ  کا دن بڑا مبارک دن ہے۔ اس دن کے استقبال کی تیاریاں خواتین چھوٹی عید کے فوری بعد شروع کردیتی ہیں۔ سب سے پہلے گھر کی صفائی ستھرائی اور سجاوٹ کی طرف دھیان دینا پڑتا ہے۔ اہل ثروت کے تکلفات ہی جدا ہوتے ہیں۔ گزشتہ عید پر ڈرائنگ روم میں کیا گیا پینٹ اس عید پر پرانا اور نا مناسب دکھائی دیتا ہے۔ قالین تبدیل کرنا اور فرنیچر بدلنا بھی ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ سجاوٹ کے لئے نئی چیزیں خریدی جاتی ہیں اور ان کی نمائش کے لئے موزوں جگہ بنائی جاتی ہے۔ پھر عید کے قریب، قربانی کے جانوروں کی خرید سے پہلے ،نئے کپڑے اور زیورات کا خیال زور پکڑتا ہے۔ عید سے پہلے ہی قربانی کے جانور خرید لئے جاتے ہیں جن کی دیکھ بھال اور نمائش میں بچے مصروف ہو جاتے ہیں۔ متوسط طبقے کے لوگ اپنی استطاعت کے مطابق عید کی تیاریاں کرتے ہیں اور اپنی جیب کے لحاظ سے جانور خریدتے ہیں۔ غریب لوگ ان گھروں کی طرف آس بھری نظروں سے دیکھتے ہیں جہاں قربانی کے جانور بندھے ہوتے ہیں تاہم اپنی حیثیت کے مطابق اپنی خوشیوں کا اہتمام وہ بھی کرتے ہیں۔عید قربان سے پہلے بازاروں میں گہما گہمی شروع ہو جاتی ہے۔ بچوں اور عورتوں کے چہروں پر خوشی دیدنی ہوتی ہے ۔ اس مبارک دن کی اپنی برکت ہوتی ہے جو ہر گھر کو منور کرتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عید کا شوروغوغا، عید کی نماز کے فوری بعد شروع ہو جاتا ہے۔ جس گھر میں قصاب جلد وارد ہو جائیں اس گھر کے مکین اپنی ذمہ داریوں سے فوری سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ گوشت بن جاتا ہے تو اس کی تقسیم کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ خواتین اپنے حساب سے گوشت کے پیکٹ تیار کرتی ہیں اور اعزہ و اقارب اور میل ملاپ والے گھروں میں بھیجتی ہیں جبکہ گوشت لینے والے خود ہی دروازے پر صدا لگاتے ہیں۔ زمانوں پر پھیلا یہ سلسلہ تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ جاری و ساری ہے۔لڑکیاں بالیاں اپنے کپڑوں اور میک اپ پر توجہ دیتی ہیں۔ قربانی کے جانوروں کے ساتھ اپنی تصویریں بنواتی ہیں۔ برانڈڈ کپڑوں کے علاوہ آج کل کی خواتین اپنی ذہنی اُپج سے خود ہی نئے نئے ڈیزائن تیار کرلیتی ہیں۔ ایسے ہی تہوار ہوتے ہیں جن میں ان کی خفتہ صلاحیتیں نکھر کر سامنے آتی ہیں۔خواتین عید کے روز گھر آئے مہمانوں کی خاطر مدارت کرتی ہیں۔ وقت ملے تو قریبی رشتہ داروں کے ہاں ملاقات کے لئے نکل پڑتی ہیں۔ بچے ہر حال میں ان کا دم چھلہ بنے رہتے ہیں اور اپنے شوروغل اور شرارتوں سے سمے کی رونق بڑھاتے ہیں۔

گھر میں موجود خواتین کے لئے باورچی خانہ سب سے زیادہ اہم قرار پاتا ہے۔ کہیں قربانی کے جانوروں کا گوشت بھونا جارہا ہے اور کہیں پلاؤ اوربریانی کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ٹی وی چینلوں پر کھانے پکانے کے پروگراموں نے خواتین کے تجربوں میں خوب اضافہ کیا ہے۔ نئے نئے پکوان تیار کئے جاتے ہیں جو دیکھنے میں بھلے لگیں اور لذت میں ایسے کہ کھانے والے انگلیاں چاٹتے رہ جائیں۔عید الاضحی کا دن مبارک اور پر سعید ہوتا ہے۔ یہ دن یک جہتی ،بھائی چارے اور قربانی کی فضیلت سے ہمیں آگاہ کرتا ہے۔ یہ دن ہمیں بتاتا ہے کہ غذا کہ دو نوالوں میں سے اگر ایک پر آپ کا حق ہے تو دوسرا آپ نے کسے دینا ہے۔ اس خیال کے تحت جو لوگ ادراک اور احساس رکھتے ہیں وہ عاقبت میں اپنی کامیابی محفوظ بنا لیتے ہیں اور جن لوگوں کے اذہان سے یہ خیال پرے رہتا ہے وہ اگلی زندگی میں ملنے والی نعمتوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔بہر حال میں ذکر کر رہی تھی عید کی خوشیوں اور خواتین کی مصروفیات کا ۔ خواتین کے لئے دونوں عیدیں،عید الفطر اور عید الاضحی، بھرپور خوشیاں اور ڈھیر ساری مصروفیات لے کرآتی ہیں۔ خواتین ہی کی بدولت عید کی رونقیں دوبالا ہو جاتی ہیں۔ گھر ہو یا بازار، خواتین کا وجود زندگی کے رنگوں کی چمک دمک میں تندی لاتا ہے۔ عید الاضحی کے دن یہ حقیقت مزید نمایاں ہوتی ہے جب طرح طرح کے پکوان میز کی زینت بنتے ہیں اور اہل خانہ اور مہمانوں کو نت نئے ذائقوں سے روشناس کراتے ہیں۔میں ہر وقت دعا گو رہتی ہوں کہ رب العزت ہمارے ملک کے سیاسی و معاشرتی حالات سدھار دے تاکہ ہمارے لوگ عیدین کی حقیقی راحتوں سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہو سکیں۔
بشکریہ روزنامہ پاکستان!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply