• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عید الاضحیٰ: عظمت وعزیمت کا جشن اور ابتلاء وآزمائش میں ثابت قدمی کی تلقین /عمیر کوٹی ندوی

عید الاضحیٰ: عظمت وعزیمت کا جشن اور ابتلاء وآزمائش میں ثابت قدمی کی تلقین /عمیر کوٹی ندوی

عیدالاضحیٰ سنت براہیمی کا احیاء،اعادہ اور خراج عقیدت ہے۔ یہ ” حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے”اوراس میں “(جانور کے) ہر بال کے بدلے ایک نیکی”ہے(مسند احمد، ترمذی ، ابن ماجہ)۔
حضرت ابراہیمؑ کی اس قربانی کو اللہ تعالیٰ نے بہت ہی عظیم قرار دیا ہے۔ اس قربانی کو جسے اللہ تعالیٰ نے سنت براہیمی کہا ہے مسلسل عیدالاضحیٰ کے دنوں میں دہرایاجانا، خوشی کے لمحات اور عید سعید کوان دنوں میں منایا جانا یہ سب عظیم قربانی کی وجہ سے ہی ہے۔یہ قربانی عظیم اس لئے ٹھہری کہ حضرت ابراہیمؑ نے حکم الٰہی کی تعمیل میں اپنے جگر گوشے کو پیش کردیا تھا۔اس عمل کو آنکھیں دیکھ نہ سکتی تھیں کیونکہ ان پر اس وجہ سے پٹّی باندھ لی گئی تھی تاکہ محبت پدری ہاتھوں کو لرزا نہ دے۔ دل حکم الٰہی کی تعمیل میں سجدہ ریز تھا، زبان ذکر میں مشغول تھی اور ہاتھ اطاعت وفرمابرداری میں مصروف تھا۔ چھری چلی، خون بہااور قربانی دیدی گئی ۔ آنکھوں پر پٹّی باندھے حضرت ابراہیمؑ کو کب معلوم تھا کہ ان کے ہاتھوں ذبح ہونے والی جان بیٹے کی نہیں دمبے کی ہے جسے اللہ نے بیٹے کی جگہ بدل دیا اور ان کی چھری بیٹے کے بجائے دمبے کی گردن پر چلی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے پورے ہوش وحواس اور عزم وارادے کے ساتھ اپنے بیٹے اسمٰعیل کو ذبح کیا تھا۔

یہی وہ ‘ کھلی آزمائش’ تھی جس میں حضرت ابراہیمؑ پورے اترے تھے۔ بڑے امتحان میں حاصل ہونے والی کامیابی بھی بڑی ہوتی ہے اور اس پر ملنے والاانعام بھی غیر معمولی ہوتا ہے۔ نبی ؑ کی فرمابرداری اور نبی زادہ کی سعادت مندی اللہ کے یہاں اس پائے کو پہنچی کہ قیامت تک کے لئے یاد گار بنا دی گئی اور امت محمدیہ میں اسے جاری کردیا گیا۔ عیدالا ضحیٰ اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ قربانی کےدنوں میں امت محمدیہ اللہ کے حضور عہد کرے کہ جب جب جس نوعیت اور جس سطح کی قربانی دینے کی ضرورت پیش آئے گی وہ کبھی بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹے گی اور ہمہ وقت ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے خود کو تیار رکھے گی ۔ امت اس بات کا بھی اظہار کرتی ہے کہ جس طرح وہ قربانی کے گوشت کو اعزاء واقرباء، دوست واحباب ، قرب وجوار اور غرباء ومساکین میں تقسیم کرکےعیدالاضحیٰ کی خوشیوں میں شریک ہوتی ہےاسی طرح اطاعت وفرمابرداری،جاں نثاری اور قربانی میں بھی پوری کی پوری امت شریک اور ایک دوسرے کی معاون ومدد گار ہے۔ وقت پڑنے پر قربانی دینے میں رخصت نہیں عزیمت سے کام لیا جائے گااور یہ امت کے چند لوگوں تک مخصوص نہیں ہوگا بلکہ تمام کے تمام لوگ اس کام میں حسب صلاحیت و ضرورت برابر کے شریک ہوں گے۔

عیدالاضحیٰ کے موقع پر امت محمدیہ پوری دنیا میں سنت براہیمی کوادا کرتی ہے اور انہیں ذبح عظیم پر خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ اسی کے ساتھ دنیا کےان تمام خطوں میں جہاں کہیں وہ رہتی اور آتی جاتی ہےاورسال کے بارہ مہینے قربانی کے عمل کو دہراتی رہتی ہے۔ جان ومال، علم وعمل، ذہن وفکر، فسلفہ ونظریہ غرض زندگی کے تمام شعبوں میں قربانی دینے میں عزیمت سے کام لینے کا عمل ایک دو دن کا نہیں ہے ۔ آغاز اسلام کی آزمائشوں سے لے کر دور حاضر کی پئے در پئے آنے والی آفات ومصائب، ابتلاء و آزمائش میں افراد امت ثابت قدم رہتے ہیں ۔ حسب موقع وصلاحیت ہر قسم کی قربانی دے کر اطاعت ، فرمابرداری اورجاں نثاری کا مظاہرہ کرتے ہیں جسے دیکھ کر دنیا انگشت بہ دنداں رہ جاتی ہے۔ اغیار کی طرف سے نازل ہونے والی آفات اور ڈھائے جانے والے قہر پر افراد امت یاس و قنوط کا شکار نہیں ہوتے۔ اسے وہ اپنے لئے ابتلاء وآزمائش او ر اپنی رگوں میں حرارت ایمانی کے پیدا ہونے کا موثر ذریعہ تصور کرتے ہیں ۔ اس امید ورجاء کے ساتھ قہر کے دریاؤں میں چھلانگ لگاتے اور ظلم کے انگاروں پر مسکراتے ہوئے چل پڑتے ہیں کہ انہیں پار کرتے ہی کامیابی ان کے قدم ضرور چومے گی۔

تاریخ شاہد ہے کہ ایک بار نہیں باربار کامیابی نے ان کے قدموں کو بوسہ دیا ہے اور ان کی قربانی کی عظمت کو زمانے نے سلام کیا ہے۔ عید الاضحیٰ دور حاضر میں امت مسلمہ کے لئے ایک خاص پیغام رکھتی ہے۔اس دور کو امت محمدیہ اپنے درون میں ضعف ایمانی کے دور سے تعبیر کرتی ہے۔امت محمدیہ سے ماورا دنیا امت محمدیہ کو بےقیمت وبےوزن گردانتی ہے اور بار بار اسے یہ باور کراتی ہے کہ اس دور میں وہ کمتر تنکے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ہے۔ ماورادنیا چاہتی ہے کہ امت مسلمہ ایک بار پھر ان ہی گمراہیوں اور برائیوں میں گم ہوجائے جسے اس نے ترک کرکے ہدایت ربانی کا دامن تھام لیا ہےاور نورہدایت سے دنیا کو منور کرنے کا بیڑا بھی اٹھالیا ہے۔ جب کہ یہ ماورا دنیا آج تک ان گمراہیوں اور برائیوں کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھی ہے اور وہ امت مسلمہ کو بھی اسی راہ پر لگانا چاہتی ہے۔ایسا ہونے پر ماورا دنیا اپنے عیش وعشرت کی خاطر ظلم وعدوان پر مبنی اس نظام کو قائم ودائم رکھ سکے گی جس نے انسانوں سے انسانیت، خواتین سے عفت وپاک دامنی، بچوں سے معصومیت، بچیوں سےردائے حیا، غریبوں سے روٹی اور پیاسوں سے پانی کو چھین کر بہیمیت سے بھی بدتر کلچر کو فروغ دیا ہے۔اسے اندیشہ ہی نہیں یقین ہے کہ اس وقت دنیا کو ایک بار پھر اگر کوئی اس کی اصل جگہ پر لاکر رکھ سکتا ہے تو وہ یہی امت مسلمہ ہے لہذا وہ اس کی دشمن بن بیٹھی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس صورت حال میں عیدالاضحیٰ امت مسلمہ کو احساس دلاتی ہے کہ وہ ‘ذبح عظیم ‘بڑی قربانی کی پاسدار ہے۔ اسے ان حالات سے نہ تو کبیدہ خاطر ہونا ہے اور نہ ہی بے راہ رو ہونا ہے۔ اشتعال انگیزی اور جذباتیت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اس کا حصہ تو”کھلی آزمائش” میں سرخ رو ہونےاور”اگر ان سب حالات میں تم صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلے کا کام ہے”(آل عمران: 186) میں ہے۔ وہ دین حنیف کی پاسباں ہی نہیں اس کی داعی بھی ہے۔ دنیا اسے الٹے پاؤں جاہلیت اور جہالت میں واپس لے جانے کے درپے کیوں نہ ہو اسے اپنے مقام سے سرمو نہ تو کھسکنا ہے اور نہ اپنے کردار سے دستبردار ہونا ہے۔ اسے تو ہر آن وہر جگہ یہی صدا بلند کرنی ہے کہ “پس ہم نے آپؐ کی تصدیق کی اور آپؐ پر ایمان لائے۔ ہم نے آپؐ کی پیروی کی ان تمام چیزوں میں جو آپؐ لائے”(منتظم في تاريخ الملوك والأمم،ج 2ص382)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply