کشمیر، کرپشن اور 8شہروں کی تقسیم۔۔۔۔حسن نثار

اصل موضوع پر آنے سے پہلے ایک انتہائی ضروری بات ’’چشم گزار‘‘ کرنا چاہتا ہوں کہ میڈیا کے کچھ لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر کرپشن اور کشمیر کی صورتحال کو آپس میں گڈمڈ اور کنفیوژ کر رہے ہیں جو کم از کم میرے لئے حیران کن ہے۔دونوں یکسر علیحدہ ایشوز ہیں اور اگر ان میں کوئی تعلق ہے تو صرف اتنا کہ اگر کچھ لوگوں نے کرپشن کی قینچی سے ملکی معیشت کے پر نہ کاٹے ہوتے تو آج شاید مودی جیسے موذی کو بھی اس حد تک جانے کی جرأت نہ ہوتی جس حد تک وہ کشمیر میں جا چکا ہے ۔ہمسایہ سائیز میں بڑا اور بدترین دشمن ہونے کے ساتھ ساتھ اس سے کشمیر جیسا تنازعہ بھی ہو تو کامن سینس اور حب الوطنی کا بنیادی تقاضا تھا کہ پاکستان کے حکمران ملک کو معاشی طور پر ناقابل تسخیر بنانے کیلئے تن من دھن کی بازی لگا دیتے لیکن جس قسم کے ناقابل تردید ہولناک حقائق سامنے آ رہے ہیں، محسوس یہ ہوتا ہے کہ اگر ہمارے روایتی حکمرانوں کو مزید چند سال مل جاتے تو یہ کشکول بھی بیچ کھاتے اور پھر مادر وطن کے سر کی چادر بچھا کر مال سمیٹنے لگتے۔سچ جھوٹ تو اللہ جانے یا پھر عدالتیں لیکن جو بات انسان کے اعصاب تباہ کئے دیتی ہے ان میں سرفہرست یہ ہے کہ ان میں سے کسی کے پاس کسی سوال کا کوئی جواب ہی نہیں۔’’نیب‘‘ کو برا بھلا کہنے اور اس میں کیڑے ڈالنے کا فیشن کچھ حلقوں میں بہت مقبول ہے تو یہ شغل جاری رکھیں لیکن خدارا اتنا تو سوچیں کہ اگر سو سوالوں میں سے ایک کا جواب بھی ان میں سے کسی کے پاس نہیں تو آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ملوں پہ ملیں بنتی رہیں، ان کا سرمایہ پوری دنیا میں سیاحت کرتا رہا، سعودیوں سے قطریوں تک بظاہر ان کے ’’تھامو‘‘ رہے لیکن حیرت ہے ہر کسی کے پاس ہر سوال کا صرف ایک ہی جواب ہے ۔’’پتا نہیں‘‘سوائے ’’مرحومین‘‘ کے کوئی جانتا ہی نہیں کہ ان کی دولت کیسے ضربیں کھاتی اور انڈے بچے دیتی رہی اور میں صرف یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر آج یہ ملک اقتصادی طورپر مفلوج ہونے کی بجائے مضبوط ترین ہوتا تو کیا مودی جیسا ذہنی مریض اسی طرح TEMPTہو کر ایسے ہی دولتیاں جھاڑ رہا ہوتا ؟سو کرپشن اور کشمیر میں کوئی رشتہ ہے تو صرف اتنا کہ کرپشن نے ہمیں اتنا کھوکھلا کر دیا کہ بھارت سب کچھ بالائے طاق رکھ کر کشمیر اور کشمیریوں پر اندھا دھند چڑھ دوڑا۔یہ علیحدہ بات کہ نتائج انشااللہ اس کی خواہش کے برعکس ہی نکلیں گے۔مختصراً یہ کہ کشمیر اور کرپشن، دونوں ایشوز تو ہمارے ہی ہیں لیکن علیحدہ علیحدہ اور انہیں الگ الگ ہی ٹریٹ بھی کیا جانا چاہئے۔حکومت اپنا کام کرے، ادارے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں اور اگر ’’ایمرجنسی‘‘ کا تقاضا یہ ہے کہ مجرموں کو گودیوں اور کندھوں پر بٹھا کر ہی ’’قومی یک جہتی‘‘ کا اظہار ممکن ہے تو کھولو جیلیں، سب مجرموں کی سزائیں معاف کرکے انہیں بھی ’’قومی دھارے‘‘ میں لاتے ہوئے کہو سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرکے بین الاقوامی برادری کا خراٹے مارتا ہوا ضمیر بیدار کرنے کی کوشش کریں….باقی جو مزاج یار میں آئے ۔معاف کیجئے پون کالم تو کرپشن ہی کھا گئی لیکن خیر ہے اصل موضوع کے ساتھ بھی پورا نہ سہی تھوڑا بہت انصاف کرنے کی کوشش تو ضرور کروں گا۔کسی گزشتہ کالم میں ،میں نے اس خدشہ کا اظہار کیاتھا کہ مستقبل قریب میں ہماری انگلش میڈیم نسلوں میں پنجابی بولنے والے کم کم ہی دکھائی دیں گے جو کسی المیہ سے کم نہ ہو گا۔اس پر قارئین کا ردعمل انتہائی مثبت تھا۔ کام تو یہ حکومتی سطح پر ہونے والا ہے لیکن ہم بھی اس سلسلے میں ہاتھ پائوں مارنے کا سوچ رہے ہیں۔ ہم سے میری مراد کچھ ہم خیال ہیں کہ مل جل کر مختلف طریقوں سے اپنی نئ نسل کو مادری زبان کی طرف متوجہ کریں یا کرنے کی کوشش کریں ۔آج عاجزانہ سا آغاز ہے اس بات سے کہ پنجابی زبان میں دن رات کے 8پہروں کو کس باریکی سے تقسیم کیا گیا ہے ۔سچی بات تو یہ کہ دوپہروں کے عنوان تو خود میرے لئے بھی اجنبی اور نئے تھے ۔1۔سرگی ویلہ ……….. صبح 3سے 6بجے تک2۔دھمی ویلہ ……….. صبح 6سے 9بجے تک3۔پیشی ویلہ ……….. صبح 9سے 12بجے تک4۔دوپہر ویلہ ……….. دوپہر 12سے 3بجے تک5۔دیگر ویلہ ……….. سہ پہر 3سے 6بجے تک6۔نماشاں ویلہ ……….. شام 6بجے سے 9بجے تک7۔کفتاں ویلہ ……….. رات 9بجے سے 12بجے تک8۔ادھ رات ویلہ ……….. رات 12سے 3بجے صبح تک چند ہفتے قبل کسی ٹی وی چینل نے 10،12قسطوں پر مشتمل مجھ سے انٹرویو کیا ۔ٹیلی کاسٹ ہونے پر اسے خاصی پذیرائی ملی۔ہر انٹرویو میں چار لڑکے لڑکیاں مجھ سے مختلف سوالات کرتے جن کا تعلق مختلف تعلیمی اداروں کے ساتھ ہوتا ۔انٹرویو کارسپانس تو اپنی جگہ لیکن ملاقات کیلئے آنے والے طلباء کی تعداد میں بہت اضافہ ہو گیا۔میں نے ان بچوں سے کہا کہ اپنے پنجابی صوفی شعراء کے انگریزی ترجمے پڑھو جو مارکیٹ میں دستیاب ہیں اور اگر تمہیں ان میں دم نظر آئے تو پھر پنجابی میں پڑھنے کی کوشش کرو۔ شروع شروع میں تھوڑی دقت ہو گی، آہستہ آہستہ عادی ہو جائو گے اور ’’لت‘‘ لگ جائے گی یہی درخواست نوجوان قارئین سے بھی ہے کہ یہ نسخہ آزما کر دیکھیں، دانش کے دریا بہتے دکھائی دیں گے، خصوصاً انگلش میڈیم طلباء اور یہ بات دھیان میں رہے کہ میں ہرگز ہرگز انگلش میڈیم کے خلاف نہیں لیکن ہم پر تھوڑا بہت حق تو ہماری مادری زبان کا بھی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply