تصویر بناتا ہوں ۔۔۔عزیز خان

ہر دور میں تصویر کی اپنی اہمیت رہی ہے، ویڈیو کیمرہ اور جدید ٹیکنالوجی آنے کے بعد اس کی اہمیت اور افادیت اور بھی بڑھ گئی ہے،کیونکہ اخبار اور سوشل میڈیا پر بھی یہی تصاویر لگتی ہیں اور انہیں تصاویر سے کسی بھی سیاستدان اور حکمران کا قد ناپا جاتا ہے کہ وہ کتنا مقبول لیڈر ہے۔جیل جاتے وقت تصویر ،جیل سے باہر آتے وقت تصویر، وکٹری کا نشان بناتے تصویر ، ملزم چاہے اربوں کی کرپشن اور منشیات کے کیس میں ہی کیوں نہ اندر ہو ،تصویر تو بنتی ہے میرے دوست۔۔وہ بھی فتح کے نشان کے ساتھ۔

سابق صدر ممنون حسین کی ایک تصویر بنائی گئی  جس پر ایک فوٹو گرافر نے 15 لاکھ سرکاری خزانہ سے وصول کیے، حالانکہ ایسی تصویر کوئی بھی گلی کا فوٹو گرافر دو سو روپے میں بنا سکتا تھا۔

ہمارے نئے صدر علوی صاحب بھی ائیرپورٹ پر سوتے ہوئے ،دانتوں کی حفاظت کے مشورے دیتے ہوئے،بارش میں لائف جیکٹ پہنے کشتی چلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

کراچی میں آج کل کچرے کے ڈھیروں پر کھڑے ہو کر تصاویر بنوا کر سیاست ہو رہی ہے۔

سابقہ حکمرانوں نے اپنی ذاتی تشہیر پر کروڑوں روپے خرچ کیے اور چینلز پر دن رات شیر کی دھاڑ سُنائی دیتی تھی اور کبھی تیر کی سُنسناہٹ،اب کبھی کبھی بلے کے چھکے چوکے کی آواز بھی چینلز پر آتی ہے کیونکہ یہی تو چینلز کے لیے آکسیجن  ہے، یہ نہ ہوں تو چینلز کی سانسیں رُکنے لگتی ہیں۔

ایک ہی ترقیاتی منصوبوں کی چار چار دفعہ تختی لگا کر تصویریں بنوائی گئیں، صرف تصاویر بنوانے کے لیے عوام کے کروڑوں روپے فضول خرچ ہوئے۔وزیر اعلی وزیر اعظم یا وزرا کے پیچھے کھڑے ہو کر بھی تصاویر بنوائی جاتی ہیں   اور پھر دکھائی جاتی ہیں، کہ  ہم لیڈر کے کتنے قریب ہیں اور جس کی زیادہ تصاویر ہوں گی وہ اُتنا ہی قریب ہو گا۔ہماری ایک خاتون لیڈر نے تو کمال ہی کر دیا اپنی شرٹ پر نعرہ اور تصویر لگا کر سب کو حیران کر دیا۔

پچھلے دنوں کراچی پولیس کے ایک فنکشن میں شہید Asi کی والدہ کو زمین پر بیٹھا کر کھانا کھلاتے ہوئےایک تصویر وائرل ہوئی تو آئی جی سندھ کو خیال آہی گیا اور فوری طور پر لیڈی ایس پی کو ان سے معذرت کرنے کیلئے بھجوایا اور ساتھ میں یہ ہدایت بھی کی گئی کہ تصویر ضرور بنوانی ہے اور پھر ایک تصویر پھر لگی، تصویر میں لیڈی ایس پی صاحبہ کے چہرے کے تاثرات اور شہید کی ماں کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر مجھے بڑا عجیب لگا ااور دُکھ بھی ہوا۔شہید کی ماں کو زمین پر بیٹھ کر شاید اتنی تکلیف نہ ہوئی ہو گی، جو ایک لیڈی ایس پی کے زیر حراست   رہ کر تصویر بنانے پر ہوئی ہوگی۔۔

یوم شہدا  پولیس پر سندھ کے ایک SP نے تو کمال کردیا شہید کی فیملی کے ساتھ پانی میں باوردی کھڑے ہو کر فصل مونجی کاشت فرما دی اور اپنی تصاویر بنوا کر میڈیا اور سوشل میڈیا پر لگوائیں۔

پتہ نہیں یہ حکمران اور افسران کیا سمجھتے ہیں کہ اُن کے علاوہ تمام لوگ کیڑے مکوڑے ہیں، حقیر ہیں یا اِن کو شعور نہیں ہے ؟

ہر ایونٹ پر تصویر بنائی جاتی ہے، کُچھ بھی ہو ایک فوٹو گرافر صاحب کے ساتھ ہوتا ہے جو اُن کی تصویر بنا رہا ہوتا ہے،امداد کرتے ہوئے ،بات کرتے ہوئے، شادی پر، فوتیدگی پر، غرض ہر موقع پر تصاویر بنوائی جاتی ہیں۔

بہاول پور میں ہمارے ایک ssp ہوا کرتے تھے جو اب Dig ہیں کو بھی تصویریں بنوانے کا بڑا شوق تھا کیونکہ صاحب کی تصویریں اتنی اچھی نہیں آتی تھیں تو ایک پروفیشنل کیمرہ سرکاری خرچہ پر صاحب کو خوبصورت بنانے کے لیے لیا گیا۔جو 200000   کا تھا جس پر سرکاری فوٹو گرافر سارا دن ssp کی تصویریں بناتا تھا اور شام کو ssp صاحب سے تصویریں سلیکٹ کروا کے فوٹو شاپ پر خوبصورت بنا کر جناب Dpo کی خدمت میں پیش کرتا تھا اور وہ خوش ہوتے تھے۔

ایک ضلع کے DPO نے اپنےایک کانسٹیبل کو (ہارپک ) باتھ روم صاف کرنے والا لیکویڈ عید پر تحفہ دیا اور اپنی تصویر بنوائی ان کی تصویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اُن کے  چہر ے  پر ایک فاتحانہ مُسکراہٹ تھی جیسے اس ہارپک سے وہ سارا محکمہ پولیس صاف کرنا چاہتے ہیں۔

تصویریں صرف افسران ہی  نہیں بنواتے بلکہ تمام سیاستدان حکمران مخیر حضرات بھی شوق سے بنواتے ہیں۔غریبوں کو گھی کا ڈبہ دیتے ہوئے ،ایک کلو چینی، آٹے  کا تھیلہ دیتے ہوئے بھی تصویر بنوائی جاتی ہے۔ان کے چہرے پر عجیب سی فرعونیت ہوتی ہے اور امداد لینے والا بس مر ہی نہیں جاتا باقی جس اذیت سے وہ گزر رہا ہوتا ہے وہ جانتا ہے یا اُس کا خدا ۔۔

جبکہ ہمارے نبیٌ کا فرمان ہے کہ ضرورت مند کی مدد اس طرح کی جائے کہ ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے۔نئے دور میں سوشل میڈیا   اور کیمرہ والے موبائل فون نے تو کمال ہی کر دیا، سیلفی کی خواہش نے کئی افراد کی جان بھی لے لی۔بے حسی کا یہ عالم ہے کہ کوئی ایکسیڈنٹ میں مر رہا ہو تو لوگ اُس کی مدد کرنے کی بجائے کیمرہ سے ویڈیو بنا رہے ہوتے ہیں یہاں ایک اور طبقہ بھی ہے جو بڑے بڑے افسران اور وزرا کے ساتھ تصاویر بنوا کر عوام کو دکھا کر لوٹتا ہے۔
پتہ نہیں جب یہ کیمرے نہیں ہوتے تھے تو کیا لوگ انسانیت کی خدمت نہیں کرتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کیا سیاست نہیں ہوتی تھی، اس  تمام بحث سے یہ بات تو ثابت ہو گئی  کہ سیاست عبادت اور خدمت نہیں بلکہ صرف شہرت کے لیے یا مال پانی بنانے کے لیے ہے جو لوگ سیاست کو عبادت اور خدمت کہتے ہیں وہ غلط ہے اور جو لوگ کسی غریب کی مدد کیمروں کے سامنے آکر کر رہے ہوتے ہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں اور اللہ کو دکھاوا بالکل پسند نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply