ہر طرح سے شور مچانا منع ہے۔۔۔سلیم مرزا

لگ بھگ دوسو دن پرانے زمانے کی بات  ہے۔ایک مزاح نگار کے ساتھ سفر کرنے کا اتفاق ہوا ۔وہ مجھے لفٹ دینے پہ مجبور تھے اور میں لفٹ لینے پہ مسرور،
مجبور نے مسرور سے تعلیمی قابلیت کا پوچھا تو میں نے بتایا کہ میں میٹرک سائنس میں کرنا چاہتا تھا مگر آرٹس میں فیل ہوگیا ۔
“تو پھر میٹرک کا کیا بنا “؟
اب میں اتنا بھی مسرور نہیں تھا کہ بتادیتا کہ
” محبت میں بھی میٹرک کی وجہ سے فیل ہوگیا تھا؟”
بندہ سیانہ تھا سمجھ گیا کہ مرزا دونوں میں ناکام ہے ۔
سمجھدار بندے کے پاس ہائیبریڈ گاڑی بھی تھی ۔چنانچہ اس نے نصیحت کی ۔کہنے لگا
” کبھی بھی بیت الخلائی موضوعات کو اپنے مضمون میں مت باندھیو۔ایسے الفاظ وقتی مزاح تو پیدا کرسکتے ہیں ۔مگر ان کے بدبودار اثرات دیر تک قاری پہ رہتے ہیں ”
میں نے کہا
” ایسی ہی ایک نصیحت ۔۔عزیز بھائی فیصل بھائی کندیاں والے حال مقیم شہر زوجین بھی کرچکے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ زیر ناف تذکروں سے مزاح نہیں فحاشی تخلیق ہوتی ہے ۔میں نے ان کی بات ابھی تک ازار بند کے ساتھ گرہ میں باندھی ہوئی ہے کہ
“زیر ناف مزاح نگار تو تخلیق ہوسکتا  ہے، مزاح نہیں ۔”
ویسے جو معاملات روزمرہ کا حصہ ہوں ان کو نظر انداز کرکے آپ خود کو کنوارا یا کم ازکم رنڈوا تو ثابت کر سکتے ہیں مگر تلخ حقیقت گھر پہنچتے ہی آپ کے کھنے بھی سینک سکتی  ہے۔
بری عادتیں معشوقوں کی طرح ہوتی ہیں ۔
بھلائے نہیں بھولتیں، ابھی کچھ روز پہلے اونچے کندھوں والی ایک دیپکا کہہ رہی تھی کہ
“اونچے سے اونچا بندہ، ٹوائلٹ میں بیٹھے ننگا “اور ایسا کہتے وہ خود بھی تقریبا ننگی تھی ۔۔۔۔
میں عزیز بھائی کے ڈر سے صرف اس کی تنی دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ ملیں گے تو پوچھوں گا کہ ایسی صورتحال میں اوپر کی طرف غور ہی کرنا ہے ناں؟
اس گانے میں ٹوائلٹ کے ساتھ ساتھ دم مارو دم کا بھی مشورہ تھا کہ ساتھ سگریٹ بھی پئیں ۔۔۔۔
تاکہ صحن جاں میں صرف خوشبوئیں ہی خوشبوئیں رہ جائیں ۔میں ٹوائلٹ پہ بالکل نہیں لکھنا چاہتا کیونکہ حکومت ترجیحی بنیادوں پہ صاف ستھرے ٹوائلٹ کیلئے مہم چلا رہی ہے ”
اور وہ ویسے ہی چل رہی ہے جیسے میرا تازہ معاشقہ
” اسے خبر نہیں اور مجھ میں ہمت نہیں ”
ویسے بھی جس قماش کے دعوے بیٹ الخلاؤں میں لکھے ملتے ہیں لگتے وہ بھی حکومتی بیان ہی ہیں ۔
وہاں لکھے حسیناؤں کے نمبر ہمیشہ معاشی اعداد وشمار کی طرح غلط ہی ہوتے ہیں ۔ہر زور لگانے والا خود کو حفیظ شیخ سمجھ کر لکھتا ہے ۔
کچھ لوگ تو اتنے ویہلے ہوتے ہیں کہ اس عوامی جگہ پہ بھی آرٹ کا شوق پورا کرتے ہیں ۔بالکل ایسے ہی جیسے اقبال پارک میں اقبال کو جھاڑیوں کی اوٹ میں بٹھایا گیا ہے ۔
نیچے لکھ دیتے
” کھلے ماحول کے شوقین اس طرف ”
مان لیا کہ اس دوران سوچیں اچھی آتی ہیں مگر شاعر مشرق کو کھیتوں میں بٹھانے کی ضرورت کیا تھی ۔؟
مجھے اس مجسمے سے اقبال کی توہین کا دکھ نہیں ہوا ۔۔
آرٹ کی توہین کا ہوا ہے ۔ سچ ہے کہ ہم ابھی فنون لطیفہ میں جگتوں تک ہی  پہنچے  ہیں ۔ورنہ نیشنل چینلز لائیو کال والے مذاق کو براہ راست نہ دکھاتے ۔
گوبر سے بسیں چلانے والے آئیڈئے سے حساب لگا لیں کہ ہمارے ذہنوں میں کیا بھرا ہے ۔۔؟۔
اور نئے پاکستان کے معمار کہاں بیٹھ کر سوچتے ہیں؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply