محبت کُھرک ہے ،سے اقتباس۔۔۔۔سلیم مرزا

ان دنوں داتا صاحب سے یادگار کی طرف آئیں تو میٹرو سٹیشن سے لے کر ہیرا منڈی کے موڑ تک گورا قبرستان کی دیوار کے ساتھ ساتھ
مردہ انگریزوں کے کپڑوں اور جوتوں کی ریڑھیوں کا سمندر نظر آتا ہے ۔جہاں خواتین اکثر غوطہ زن ہوکر وہ سائز بھی ڈھونڈ لیتی ہیں جو صرف ونسیلٹ کو پورا آتا تھا ۔
یہ سامان مرنےسے پہلے انگریز قبرستان کے باہر چھوڑ گئے۔یا انہیں مار کر چھینا گیا۔یہ امپورٹ کرنے والے جانیں یا لنڈا بازار والے۔۔
لنڈا بازار اور ہیرا منڈی اب علامتی طور پہ باقی ہیں ۔جیسے ہی لاہور بڑا ہوتا گیا، دونوں صنعتیں پھیلتی ہی گئیں، اب اکثر حال روڈ پہ بھی پٹھان کندھے پہ جرسیاں، سویٹر لٹکائے نظر آتے ہیں ، اور لبرٹی میں جینز، شارٹس اور سلیو لیس اترے اترے دکھائی دیتے ہیں،
سوچیں جیسے جیسے “وائیڈ “ہو رہی ہیں ،گلے ڈیپ ہوتے جا رہے ہیں،
فیشن کی یہ لکیر جہاں ختم  ہوتی ہے ،لاہوریوں کی سوچ وہاں سے شروع ہوتی ہے ۔
بات ہو رہی تھی گورا قبرستان کی، جب کی میں بات کر رہا ہوں ان دنوں دیوار کے ساتھ ساتھ چالاک نجومی، ہشیار حکیم، بےدرد ڈینٹسٹ، اور سانڈے کے تیل سے بڑھاپے کو جوان نہیں سیدھا شیطان بنانے والے بیٹھے ہوتے تھے ۔
قبرستان کی دیوار پہ جگہ جگہ “پیشاپ کرنا منع ہے “لکھا ہوتا، اکثر ہی لکھے کے نیچے کسی موتنے والے کی ٹانگوں کے بیچ سے پچھلی طرف ایک تازہ دھار بہتی واپس آتی دکھائی دیتی ۔
انگریزوں کی بنی دیوار جتنی زرخیزی جذب کرسکتی تھی کرچکی تھی۔
تانگوں میں جتے گھوڑے بھی سڑک کی گرمی دور کرتے اکثر مقابلہ بازی پہ اتر آتے تو ماحول میں ہر سو یورک ایسڈ کی سی تازگی رچی بسی نظر آتی۔
تعفن ہمارے معاشرے کا چوتھا ستون ہے۔
تب میں شاید اکیس برس کا تھا، گورا قبرستان کے فٹ پاتھ پہ چلتا تو اکثر یوں محسوس ہوتا جیسے “شٹاپو “کھیل رہا ہوں۔
کبھی سانڈے کو چھلانگنا توکبھی کسی تازہ پانی کی لکیر کو پھلانگنا پڑتا۔
پٹیالہ گراؤنڈ سے یادگار چوک تک ویگن بھی آتی تھی، مگر مجھے پیدل آنا اچھا لگتا تھا، زندگی سے بھرپور یہ راستہ کامونکی کے ماحول سے ہزار گنا رنگین تھا، داتا صاحب سے میری دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی، ایسا کوئی گناہ ثواب میرے پاس نہیں تھا جسے کسی ولی کے آستانے لے جاکر ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہوتی۔۔
بس ایک محبت تھی، جو ہر وقت پاؤں سے بلیاں باندھے رکھتی تھی، بے وجہ ناچنے کو جی چاہتا، سامنے پڑی چیزوں سے ٹکرا جانا، اور دور رہتے ہوئے کو سوچنا اچھا تو تھا مگر یہ خود کلامی کبھی بس میں ساتھ بیٹھے، راہ میں پاس سے گزرتے لوگوں کو عجیب لگتی
کوئی چونک کر دیکھتا ۔۔۔۔۔
تومجھے اندازہ ہوتا خود سے باتیں کرتا پاگل لگ رہا ہوں۔۔
اس بات پہ میں کھلکھلا کر ہنس دیتا۔۔۔
اور چونکنے والے کو یقین ہو جاتا ۔۔ہِلا ہُوا ہے ۔
اب خود کو بھی یقین آگیا ہے کہ پاگل ہی تو تھے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply