بولیویا کے شہر لاپاز (La Paz) میں بولیویا کی سب سے بڑی اور اپنی نوعیت کی منفرد جیل سین پیڈرو (San Pedro) واقع ہیں جہاں پر مختلف جرائم میں ملوث کم از کم 1500 افراد اپپنی فیملی کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس جیل کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں قید سارے مجرم بہت ساری آزادیوں کے ساتھ سوسائٹی کے دیگر افراد کی طرز پر زندگی بسرکررہے ہیں۔ جیل میں قید لوگ باقاعدہ طور پر چھوٹے موٹے کاروبار کرتے ہیں، سوسائٹی کو چلانے کیلئے وہاں پر الیکشن ہوتے ہیں جس میں جیل کا ہر قیدی حصہ لے سکتا ہے، یہاں پر رہنے کیلئے سیلز (cells) کو بھی ایلیٹ اور غریب طبقوں میں تقسیم کیا گیا ہیں۔ اِنڈور سپورٹس میں ویڈیو گیمز، شطرنج، بیلیارڈز جبکہ آوٹ ڈور سپورٹس میں فٹبال زیادہ مقبول ہیں ،جس کیلئے ایک خاص فٹبال گراؤنڈ بھی موجود ہے۔ جیل کےہر سیکشن میں خوبصورت ہوٹل بھی ہیں اور عبادت کیلئے کئی گرجا گھر (چرچ) بھی۔ جیل کو آٹھ کمیونیٹی میں تقسیم کیاگیا ہے اور ہر کمیونیٹی سے ایک فرد کو منتخب کیا جاتا ہے کہ جیل کے اندر کی صفائی ستھرائی، امن و امان، اور رات کے اوقات میں پہرہ دے سکیں۔ اس جیل کی دو بڑی خوبیاں یہ ہیں کہ یہاں پر عورتوں اور بچوں کے خلاف تشدد کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے اور جیل کے بااثر افراد جیل کیانتظامیہ کو رشوت دیکر سیاحوں کے داخلے بھی کراسکتے ہیں جو سوسائٹی کی آمدن کا ایک خاص ذریعے ہے۔ سیاحوں کے رہن سہن کیلئے جیل میں خوبصورت ہوٹلز بھی ہیں جو خود قیدی چلاتے ہیں۔
اب آتے ہیں دنیا کے دو سب سے بڑے جیل ہزارہ ٹاون اور مری آباد کی طرف، جو اسلامی قلعہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں واقع ہیں۔ سنہ ۲۰۰۰ سے لیکر اب تک یہاں کے باسیوں کو بدترین ریاستی قتل عام کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اس قتل عام میں اب تک ۱۵۰۰ سے لیکر ۱۸۰۰ تک لوگ شہید ہوچکے ہیں۔ بوڑھے، بچے، عورتیں، طالب علم، بزنس مین، ڈاکٹرز، مریض، پولیس، سرکاری نوکری کرنے والے، ٹیکسی ڈرائیورز، نمازی، ماتمی جلوسوں، وکیل، سیاسی لوگ، عام مقامات، امام بارگاہیں اور غرض ہر جگہ یہاں کے باسیوں کو دیکھتے ہی ماردیاجاتاتھا۔ جب اس سے بھی دل نہ بھرا تو انتظامیہ نے اسے ۲۰۱۳ میں جیل بنادیا۔ اس جیل میں ۵ سے ۶ لاکھ کے لگ بھگ قیدی سوسائٹی کی طرز پر اپنے فیملی کے ساتھ رہ رہے ہیں اور سوسائٹی کے اندر چھوٹے موٹے کاروبار بھی کرتے ہیں۔
یہ جیلیں انتظامیہ کی لاپرواہی کے باوجود نہایت ہی خوبصورت اور پرُامن ہیں۔ یہاں کی ہر کالونی میں خوبصورت مارکیٹس، ہوٹلیں، لینگوئج کورسز، سنوکر کلبز،فوٹسال گراؤنڈز، بینکس، اور سرکاری اور نجی سکولز ہیں۔ یہاں پر منتخب کونسلرز اور ناظم بھی ہیں جن کو کئی سالوں میں تھوڑی رقم فنڈز کی صورت میں ملتی ہے۔ان میں مقید زیادہ تر قیدی پڑھے لکھے اور محب وطن ہیں۔ اس جیل کی سیکیورٹی انتہائی سخت ہے اور انکے آس پاس بہت ساری ایف سی کی چیک پوسٹس لگائی گئی ہیں۔ حتیٰ کہ باہر سے آنے والے ہر شخص کو اپنا شناخی کارڈ جمع کرنے کے ساتھ ساتھ جیل میں مقید کسی شخص کو جاننا بھی ہوگا۔ اس جیل کی سب سے حیران کن بات یہ ہیں کہ اس میں قید سارے قیدی ایک ہی قوم سے تعلق رکھتے ہیں جو ہزارہ قوم ہے اور ان کے جُرم بھی ہزارہ اور شیعہ ہونا ہیں اور ان سب کو عمر بھر کی قید دی گئی ہے۔ یہاں کے ہر قیدی کو سالانہ مختلف طریقوں سے ٹیکس بھی ادا کرنا ہوگا، یوٹیلیٹی بلز کی مد میں یہاں سے کروڑوں روپے حکومت کو ملتےہیں لیکن پھر بھی گرمیوں میں بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ اور سردیوں میں گیس کی عدم موجودگی ،یہاں کے قیدیوں کو برداشت کرنے ہوتے ہیں۔ یہاں پر ہر گھر کو پانی ٹینکر مافیا سے خریدنا ہوتا ہے کیونکہ یہاں کے زیرزمین پانی کو نکال کر شہر کے دور دراز علاقوں تک پہنچایا جارہا ہے اور بہت ہی کم مقدار پانی یہاں کے باسیوں کو ملتا ہے۔
یہاں جیل ہونے کے باوجود بھی لینڈ مافیا سرگرم ہےجوکہ چھوٹے چھوٹے پلاٹس کو لاکھوں روپوں میں فروخت کرتے ہیں۔ یہ جیل بولیویا کے جیل سے بہت مختلف ہے، یہاں پر کسی بھی شخص کو حتیٰ کہ سیاح کو بھی اندر آنے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن یہاں کی زیادہ تر آمدنی اس جیل سے بھاگے ہوئے قیدی جو اب دوسرے ملکوں میں سیٹل ہوچکے ہیں اُن پر منحصر ہےجوکہ ماہانہ کروڑوں روپے یہاں بھیجتے ہیں جو کہ مُلکی زرمبادلہ کو بڑھانے میں مدد دیتی ہے۔ اس کے باوجود یہاں پر ترقیاتی کام ،صرف اور صرف الیکشن کمپین کے دوران ہی ہوتے ہیں جو سڑک بنانے سے شروع ہوتےہیں اور نالی بنانے تک ختم ہوجاتےہیں۔ یہاں پر دو بڑی سیاسی جماعتوں کے مابین سوسائیٹی کو چلانے کیلئے الیکشن ہوتے ہیں جس میں ایک پارٹی کو انتظامیہ کی طرف سے غیر مستقیم حمایت حاصل ہے۔ یہاں پر نہ کوئی کاروبار کرسکتا ہے نہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتا ہے، اگر کوئی قیدی کسی بھی طریقے سے باہر پڑھنے یا کاروبار کرنے کی غرض سے جائے تو راستے میں ماردیا جاتا ہے، خواہ، وہ عورت ہو،، بچہ ہو، یا کوئی بوڑھا شخص۔ ۵ لاکھ آبادی ہونے کے باوجود یہاں کے باسیوں کیلئے نہ کوئی پبلک مقامات ہیں اور نہ ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے کوئی جامعہ۔ یہاں پر قید بہت سارے قیدی کسی طریقے سے پولیس اور فوج میں شمولیت لےچکے ہیں اور اپنے فرائض کو بخوبی اور دیانتداری سے انجام دے رہیں ہے۔ عسکری حلقوں میں یہاں کے باسیوں کو چنگیزی کہہ کر یاد کیا جاتا ہے اور سول حلقوں میں بھی ان کی دیانتداری کی داد دی جاتی ہیں۔
سننے میں یہ آیا ہےکہ جیسے جیسے ،۱۴ اگست نزدیک آتا جارہا ہے سوسائٹی کے اندر سارے قیدی جشن آزادی کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے کیلئے بہت بے قرار بھی ہیں۔
Facebook Comments
آپ کی تحریر قابل داد ہے لیکن اگر حکومت کو جو چاہے بے بس، نا اہل ، ناکام یا بے حس کہے پھر بھی کم ہوگی کیونکہ اک خودمختار ہونے کے باوجود یہ دہشتگرد کتوں کے تلے چاٹتے ہیں
Wow well written Raza sahb
behtarin batoor sahb kam say kam ulfaz may behtaren Manzar kushai
Great raza jan well written
bahtaren mashallah.