عید میلاد النبیﷺ،اتحاد و اخوت کا ذریعہ

عید میلاد النبیﷺ،اتحاد و اخوت کا ذریعہ
طاہر یاسین طاہر
سرکار دو عالم،امام الانبیاؑ اور رحمتِ دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰ صلیٰ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش کا دن دو جہانوں کے لیے باعث مسرت و رحمت اور شادمانی ہے۔ یہ امر واقعی ہے کہ آپؑ کی دنیا میں تشریف آوری سے جہاں جاہلانہ رسومات کا خاتمہ ہوا وہاں انسانیت نے بھی سر اٹھا کر وقار سے جینا سیکھا۔آپؑ سے پہلےعرب معاشرہ جہالت کی گہرائیوں میں پڑا ہوا تھا۔لڑکیوں کو زندہ در گور کر دیا جاتا،معمولی باتوں اور رنجشوں پر سالوں قبائل کے درمیان لڑائیاں جاری رہتیں اور قتل و غارت گری کا بازار گرم رہتا۔ بتوں کی پوجا کی جاتی اور لوٹ مار کو بہادری کی علامت سمجھا جاتا۔غلاموں سے انسانیت سوز سلوک کیے جاتے ۔حتیٰ کہ شراب پی کر خانہ کعبہ کے گرد برہنہ طواف کیے جانے کی روایات بھی ملتی ہیں۔
رسول اکرم صلی علیہ و آلہ وسلم دنیا میں تشریف لائے تو آپ کی آمد کے ساتھ ہی دنیا میں کئی ایک معجزات رونما ہوئے۔ جیسے قیصر و کسریٰ میں لرزش آنا۔دراصل کسی قوم یا قبیلے کی طرف اللہ کی جانب سے کسی نبی کو بھیجنا اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ اللہ اس قوم یا قبیلے کی ہدایت چاہتا ہے اور اللہ نے ان کی ہدایت کا سامان کر دیا ہے ۔یہ امر واقعی ہے کہ دنیا میں جتنے بھی انبیا اور رسول آئے وہ سب کسی مخصوس قوم یا قبیلے کے لیے تھے۔جیسے حضرت موسیٰ ؑ بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے مبعوث ہوئے تو حضرت لوط ؑ،حضرت شعیبؑ اورحضرت صالح ؑ بھی خاص قبائل اور اقوام کی ہدایت کے لیے تشریف لائے،مگر حضرت محمد مصطفیٰ صلی علیہ و آلہ وسلم نہ صرف جزیرہ نمائے عرب بلکہ دنیا بھر کے انسانوں کی ہدایت کے لیے آفاقی پیغام لے کر دنیا میں تشریف لائے۔اگرچہ دین اسلام جزیرہ نمائے عرب،اور ایک مختصر سے قبیلے سے شروع ہوا تھا اور پیغمبر اکرم ﷺ بھی اسی عرب قوم سے تعلق رکھتے تھے لیکن اسلام ایک علاقے یا عربوں سے مخصوص دین نہیں تھا جس پر قرآن مجید کی بہت سی آیات دلیل اور شاہد ہیں،جن میں عربوں یا قریش سے خطاب نہیں کیا گیا بلکہ قرآن کے مخاطب ناس (تمام لوگ) ہیں۔البتہ یاد رہے کہ جن مواقع پر اسلام کے ماننے والوں سے کوئی پیغام مخصوص ہے یا انھیں کچھ شرعی احکامات بتائے گئے ہیں وہاں قرآن مجید کے مخاطب،صرف مومنین یا مسلمان ہیں۔خیال رہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ نے بھی اپنی بعثت کی ابتدا سے ہی مکہ میں اپنے دین کو عالمی عنوان سے پیش کیا۔چنانچہ قرآن مجید کی متعدد آیات میں اسلام کے اس عالمی پیغام کی طرف واضح اشارہ موجود ہے۔مثلاً سورہ اعراف میں ارشاد ہے کہ” اے پیغمبر،آپ کہہ دیجیے،اے لوگو،بے شک میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں”،اسی طرح سورہ سبا میں ارشاد ربانی ہے کہ “اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا ہے مگر تمام انسانوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر” اسی طرح سورہ توبہ میں ارشاد خداوندی ہے کہ”پروردگار وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجاتا کہ اس دین کو تمام ادیان پر کامیاب اور کامران کر دے”اسی طرح ایک اور جگہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ”اور ہم نے آپ کو عالمین کے لیے سوائے رحمت کے اور کچھ نہیں بنا کر بھیجا ہے۔”
یہ سارے فرامین الہٰی اس بات پر شاہد ہیں کہ اسلام ہی عالمی دین ہے اور پیغمبر ِاسلام ہی تمام عالم کے انسانوں کے ہادی ہیں۔ ایسا مگر کیوں ہوا کہ وہ دین جسے اللہ نے پسند فرمایا ہے، اور جس کے بارے اللہ چاہتا ہو کہ اسےتمام ادیان پر غالب کر دے، اس دین کی نصرت کرنے والے فرقہ پرستیوں کا شکار ہو گئے؟ ایسا کیوں ہوا کہ عالمین کے لیے رحمت بن کر آنے والے نبی کے امتی ایک دوسرے کے لیے زحمت بن گئے۔آج کا دن ہمیں اس بات کی فکر کرنے کی دعوت بھی دیتا ہے کہ ہم سوچیں ،ہم کیوں اسلام کی آفاقی تعلیمات کو بھلا کر مسلکی روایات کے پیروکار بن گئے ہیں؟اسلام سرا سر سلامتی،محبت اور اخوت کا دین ہے۔ایسے آفاقی دین میں فتوے گری کے پیوند بڑے بد نما لگتے ہیں۔آئیے ولادت حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے اس پر مسرت موقع پر عہد کریں کہ ہم بحثیت آپ ؑ کے امتی ہونے کے دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث نہیں بنیں گے۔ ہم انفرادی سطح پر ہی اگر یہ عہد کر لیں کہ ہم اپنے پیارے نبی ﷺ کی سماجی تعلیمات کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا کر معاشرے میں آسودگی اور بھلائی کے فروغ کا ذریعہ بنیں گے تو یقین جانیے کہ ہماری عبادات بھی ثمر بار ہوں گی اور ہمارے آقاﷺ کی ذات اقدس بھی ہم سے خوش ہو گی۔ہمیں یہ عہد کرنا ہو گا کہ ہم ہر کلمہ گو اور ہر انسان کا حق زندگی تسلیم کرتے ہیں،تو بے شک آج کے رحمتوں والے دن کے صدقے ہمارے مصائب کم ہو سکتے ہیں مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ آقاﷺ کی تعلیمات کی درست تفہیم کرتے ہوئے ان پر عمل کیا جائے۔ اسلام ظواہر پرستی کے بجائے اخلاقیات پر زور دیتا ہے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply