پنجاب کےلیےموٹر سائیکل ایمبولینس کی منظوری

طاہر یاسین طاہر
حکومتِ پنجاب نے ریسکیو 1122 کی پہنچ گنجان آباد علاقوں میں یقینی بنانے کے لیے پانچ شہروں میں موٹر سائیکل ایمبولینسیں چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ تجربہ دنیا کے کئی دیگر ممالک میں کیا جاچکا ہے۔گوجرانوالا، فیصل آباد، لاہور ، ملتان اور راولپنڈی میں پچاس پچاس موٹر سائیکل ایمبولینسز دی جائیں گی۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے ریسکیو1122 کی سمری منظور کر لی ہے۔اس منصوبے کا مقصد یہ ہے کہ جن تنگ گلیوں اور علاقوں تک ایمبولینسز نہیں پہنچ سکتیں وہاں موٹر سائیکل ایمبولینسیں کام آئیں گی اور مریضوں کو ابتدائی طبی امداد کے بعد بیک اپ پر موجود ایمبولینس تک پہنچائیں گی۔
دو تربیت یافتہ ریسکیو اہلکار ہر موٹر سائیکل ایمبولینس پر ابتدائی طبی امداد کے لئے موجود رہیں گے۔ موٹر سائیکل ایمبولینسوں کے اس منصوبے کا آئیڈیا برطانیہ، ترکی اور جاپان میں کامیابی سے چلتی موٹر سائیکل ایمبولینسوں کے ماڈلز سے لیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ایسےمنصوبے جو پر کشش ہونے کے ساتھ ساتھ توجہ اپنی طرف کھینچتے ہوں ،انھیں لانچ کرنے میں شہرت رکھتے ہیں۔یہ دلیل اپنی جگہ بڑی توجہ طلب ہے کہ موٹر سائیکل ایمبولینس منصوبے کی منظوری اس لیے دی گئی کہ جن علاقوں،یا گنجان آباد گلیوں میں 1122ایمبولینس کی بڑی گاڑیاں داخل نہیں ہو سکتیں وہاں موٹر سائیکل ایمبولینس جائے گی۔جہاں مریض کو ابتدائی طبی امداد دے کر بیک اپ میں موجود ایمبولینس تک لایا جائے گا اور ہسپتال ایمبولینس میں شفٹ کیا جائے گا۔ اگر تو ایسا کیا جائے تو حرج نہیں بلکہ خوش آئند بات ہے۔ کیونکہ برطانیہ میں ’’بائیک ڈاکٹر ‘‘ ان جگہوں پر ایمبولینس کی نسبت جلد پہنچ جاتا ہے ،جہاں ٹریفک بہت زیادہ ہوتی ہے اور ایمبولینس کو پہنچنے میں قدرے دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر اطلاعات یہی ہیں کہ وہ بائیک ڈاکٹر بھی مریض کو شفٹ نہیں کر سکتا بلکہ ابتدائی طبی امداد دے کے ایمبولینس کا انتظار کرتا ہے۔ہمیں البتہ یہ خدشہ ہے کہ ہمارے ہاں موٹر بائیک ایمبولینس کو مریضوں کو شفٹ کرنے لیے بھی استعمال کیا جائے گا اور یہ کام خدا نخواستہ انتظامیہ کی مرضی سے ہوا کرے گا۔یہی ہمارا قومی مزاج ہے۔جہاں تک مختلف سکیموں کاذکر ہے تو کئی ایک سکیمیں عوامی فلاح کے نام پر منظور ہوئیں، بجٹ منظور ہوئے اور پھر سکیمیں اپنے تپتےتندوروں سمیت ہوا میں تحلیل ہو گئیں۔جن معاشروں میں احتساب کا کڑا نظام موجود نہ ہو وہاں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔مذکورہ موٹر بائیک ایمبولینس سکیم کے لیے بے شک خطیر بجٹ رکھا گیا ہو گا اور 1122کا عملہ اس سروس کو فعال کرنے میں معاونت بھی کرے گا۔
مگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ معاشرے کی ریاستی سطح پہ کوئی خدمت نہیں ہے۔جن علاقوں میں ایمبولینس دشواری سے پہنچتی ہےکیا وہاں کے باسیوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ انھیں بھی صحت کی سہولیات حاصل ہوں؟ چاہیے تو یہ کہ وہاں بھی کشادہ گلیوں اور کھلی سڑکوں کی تعمیر کو یقینی بنایا جائے ۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہر گھر تک ایمبولینس کی گاڑی آسانی سے پہنچ سکے۔ اگرچہ یہ دشوار ہے مگر ریاست کی ذمہ داری بھی یہی ہے کہ جن شہریوں سے ٹیکس لیا جا رہا ہے بدلے میں ان کے لیے سہولتیں بھی دے۔ہر تحصیل اور ہر یونین کونسل میں کم از کم ایک معیاری سرکاری ہسپتال ہو۔ترقی کا معیار ہی دیکھنا ہے تو ہر تحصیل میں کم از کم ایک ٹیچنگ ہسپتال ضرور ہو۔ پنجاب میں جہاں حکومت عمل کے بجائے اشتہارات کو ترجیح دیتی ہے۔ یہاں کے ہسپتالوں کا حال یہ ہے کہ ہسپتال ہیں تو عملہ نہیں ہے۔ ڈاکٹرز موجود نہیں،اگر موجود ہیں تو مریضوں کے ساتھ سرکاری ہسپتال کے عملے کا رویہ انتہائی نا مناسب ہے۔اگرچہ خادم اعلیٰ صاحب کسی بھی سرکاری ہسپتال کے دورے پر ایم ایس سمیت ای دو ڈاکٹرز کو معطل ضرور کرتے ہیں مگر یہ گڈگورنس نہیں بلکہ ہیجان ہے۔
موٹر بائیک ایمبولینس سروس پہ تحفظات موجود ہیں ۔ قاف لیگ کی حکومت نے 1122،اور ٹریفک وارڈن کا ادارہ بنا کر صحیح معنوں میں عوامی نمائندگی کا حق ادا کر دیا تھا۔ پنجاب حکومت نے تو 1122سروس کے لیے بجٹ کی قلت کا رونا بھی رویا تھا۔اب اس کے مقابل نہ سہی اسی کی ’’ذیلی‘‘ شاخ موٹر بائیک ایمبولینس کی منظوری ایک سیاسی چال زیادہ نظر آتی ہے ۔یہ امر درست ہے کہ پنجاب سمیت پورے ملک میں صحت و تعلیم کی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔اس پر تکلیف دہ بات یہ بھی ہے کہ حکمران طبقے کی ترجیح کبھی بھی تعلیم اور صحت نہیں رہی۔ ان کے اپنے بچے بیرون ملک یا انتہائی مہنگے سکولوں میں پڑھتےہیں ،جبکہ علاج کے لیے حکمران طبقہ اور ان کا خاندان برطانیہ،دبئی اور امریکہ کو ترجیح دیتا ہے۔ایسی صورتحال میں موٹر بائیک ایمبولیس سروس کی منظوری انتخابی مقاصد کے سوا کچھ نہیں۔ہمارا نہیں خیال کہ یہ سروس زیادہ فعال اور بہتر ثابت ہو سکے گی 1122کی نسبت۔ہم سمجھتے ہیں کہ محکمہ صحت میں اصلاحات کی ضرورت ہے نہ کہ سائیکل و موٹر سائیکل ایمبولینسز سکیموں کے ذریعے مریضوں سے دل لگی کرنے کی۔بے شک اس سکیم کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں مگر ہمیں وہ نتائج بھی ذہن میں رکھنے چاہیں جو ایسی سکیموں کے اعلان کے بعد سامنے آتے ہیں۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply