آئیے اپنے شعور کا نوحہ پڑھتے ہیں..!!

گذشتہ دنوں پیش آنے والا سانحہ انتہائی افسوسناک تھا، جو کہ پوری قوم کو سوگوار کر گیا. جس میں ملک کی معروف مذہبی شخصیت جنید جمشید سمیت دیگر سینتالیس افراد لقمہ اجل بن گئے. حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کے بارے میں مختلف پیش گوئیاں کی جارہی مگر تاحال کوئی حتمی وجہ سامنے نہیں آسکی ہے. جسکے سبب کوئی بھی رائے قائم کرنا قبل ازوقت ہوگا.یہ حادثہ ملکی تاریخ کا ایک سیاہ باب تھا جو اڑتالیس قیمتی جانوں کے وجود کو صفحہ ہستی سے مٹا گیا. اس کی وجہ سے کئی دن تک پوری قوم غم میں ڈوبی رہی، اور قوم نے شوشل میڈیا سمیت مختلف طریقوں سے اپنے غم کا اظہار کیا.
شوشل میڈیا موجودہ دود میں باہمی تعلق کا تیز ترین ذریعہ ہے. مگر حالیہ دنوں میں شوشل میڈیا پر جس طرح طوفان بدتمیزی برپا ہوا وہ ہمارے مجموعی شعور پر سیاہ دھبہ ہے. ہماری تہذیبی روایات ہر سوالیہ نشان ہے. اور جس طرح فوت شدہ لوگوں کے تقدس کو پامال کیا گیا یہ ایک الگ داستان الم ہے. گذشتہ دنوں کے مشاہدے سے یہ بات ثابت ہوئی کہ درحقیقت ہماری فطری حس مرچکی ہے. ہم میں سے ہر ایک اپنی واہ واہ اور شہرت کے لئیے دوسروں کی عزت سے کھیل رہا ہے. فرقہ واریت کا ناسور ہمارے رگ وپے میں سرایت کر چکا ہے. جسکی وجہ سے ہر ایک جنت، جہنم کا ٹھیکیدار بن چکا ہے. مسلکی جنگ جیتنے کی خاطر ہم نے زندوں اور مردوں کے فرق بھلادیا ہے. خوشی ہو یا غمی ہر ایک موقع پر لوگوں کے جذبات مجروح کرنا ہماری عادت بن چکی ہے. مرنے والا کوئی مذھبی شخصیت ہو یا سماجی، سیاسی ہو یا غیر سیاسی، غرض ہر ایک پر تنقید کے نشتر چلانا ہمارے ہاں اب معمول کی بات بن چکی ہے۔
ہمارے سماج میں پھیلے کچھ ناسور زندوں تو درکنار اب مردوں کی حرمت کا لحاظ کرنے سے بھی عاری ہوچکے ہیں، اور مردہ لاشوں پر کفر و اسلام کا گھناونا کھیل کھیلنا ان کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے. جنید جمشید ہوں یا ملکی تاریخ کے عظیم سماجی کارکن عبدالستار ایدھی، مرحومہ قندیل بلوچ ہوں یا پھر بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرنے والے امجد صابری . ہر ایک کی لاش پر اپنی دکانداری چمکانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے. کسی کو گمراہ، کسی کو زندیق قرار دیا گیا تو کسی پر فاحشہ ہونے کی تہمت باندھی گئی. غرض یہ کہ ہر ایک اپنے زعم میں فیصل بن چکا ہے، اور اپنی عدالت لگا کر بیٹھا ہوا ہے. گویا اپنی سوچ اور اپنی فکر کے مطابق ہر کسی کو یہ اختیار حاصل ہوچکا ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو کافر یا مسلمان قرار دے دے۔کسی بھی شخص کے عقیدے کو باطل کہہ دے. کسی کی بھی عزت اور ناموس پر کیچڑ اچھال دے.
بے شک پچھلے دنوں ایدھی مرحوم پر جس طرح فتوے لگائے گئے اور بہتان طرازی کی گئی وہ ہمارے " تعلیم یافتہ " طبقے کے منہ پر طمانچہ ہے، اس پر جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے. سماجی خدمت میں پوری زندگی گزار دینے والے شخص کے بارے میں جس طرح فحش گوئی کی گئی اور بعد از وفات جس طرح انہیں گمراہ، زندیق، ایجنٹ وغیرہ کے خطابات دیے گئے اس سے ہماری فکری سطح کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے. اور جس طرح نعت خواں نبی کو گستاخ قرار دیا گیا اور شہادت کے بعد جس طرح انہیں تختہ مشق بنایا گیا، یہ ہمارے مجموعی رویے کا عکاس ہے. اور ہماری گراوٹ کو واضح کر رہا ہے. خصوصا ًحالیہ دنوں میں لگنے والے الزامات کے تیروں نے قلب و جگر کو چھلنی کر کے رکھ دیا ہے،اور دل اس پر خون کے آنسو رورہا ہے. چاہئے تو یہ تھا کہ ہماری ان رزیل حرکتوں پر خدا کی پکڑ آجاتی. مگر رحمت خداوندی کے بھی کیا کہیے. اس کی رحمت تاحال اس کے قہر پہ غالب ہے. مگر نجانے کیوں نہ چاہتے ہوئے بھی نہاں خانہ دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ خدا اس ناقدری قوم کو کبھی محسنین سے نہ نوازے کیونکہ ان کے جانے کے بعد بھی اس قوم نے انہیں گمراہ قرار دیکر واپس اپنی جہالت پر پلٹ جانا ہے..!!

Facebook Comments

شیخ محمد تنویر
نام: شیخ محمد تنویر بن محمد مشتاق رہائش: کراچی تعلیم: درس نظامی، ماسٹرز

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply