ایک دن کے لیے جو تم غریب ہوجاؤ

غریبی جب بھی آتی ہے بڑا دکھ درد دیتی ہے
کبھی خود کو کبھی سب کو کبھی سارے زمانے کو
شاعر:ازخود
غریب دو وقت کی روٹی کیلئے چند سکے کمانے کی غرض سے دن رات مشغول ہے مشقت و مزدوری میں جبکہ امیر رات دِن روپیہ پیسے کی افزائشِ نسل میں لگا ہوا ہے ۔قصہ مختصر یہ کہ غریب پیسہ کمانے اور امیر پیسہ سنبھالنے میں مصروف ہے۔ سیاہی کی ایک دوات سینکڑوں صفحات کو روشنائی سے فیض یاب کر سکتی ہے۔ایک جگنو اندھیروں میں اجالا بانٹتا ہے ۔پھول بھی اپنی خوشبو لٹاتا رہتا ہے۔درخت بھی اپنا پھل دان کرنے میں در پیش ہیں ۔حقیقت یہی ہے کہ کچھ کر جاو کِسی کے کام آو۔نگہت پروین کا ایک شعر یاد آرہا ہے۔
غریب لوگوں کی عمر بھر کی غریبی مٹ جائے گی اے امیرو!
بس اِک دن کے لیے ذرا سا جو خود کو تم سب غریب کر لو
اور پاکستان کا یہ حال ہے کہ پاکستان میں غربت کی شرح میں دن بدن اضافہ دیکھنے میں آربا ہے، جب کہ پاکستان کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزاررہی ہے۔

غربت کی اِس بڑھتی ہوئی شرح کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ 18 کروڑ آبادی والے ملک کی 33 فیصد آبادی ایسی ہے ،جس کے5 کروڑ 87 لاکھ افراد خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

پاکستان کی غیر سرکاری تنظیم تھنک ٹینک، ’سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ‘ نے پاکستان میں بڑھنےوالی غربت پر تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے جِس کے مطابق پاکستان کی ایک تہائی آبادی انتہائی غربت اور مفلسی کا شکار ہے۔

صوبائی لحاظ سے غربت کی یہ شرح صوبہ ٴبلوچستان میں سب سے زیادہ 52 فیصد، صوبہ سندھ میں 33 فیصد، صوبہ خیبرپختونخواہ میں32 اورپنجاب میں سب سے کم ، یعنی صرف 19 فیصد ہے۔

موجودہ دور میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہےجس کی وجہ مہنگائی میں روز بروز اضافہ، دولت کی غیر مساویانہ تقسیم، وسائل میں کمی، بےروزگاری اور بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔

دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ شہری آبادی میں بھی غربت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تحقیقی اعداد و شمار کے مطابق غربت میں ہونیوالا مزید اضافہ جہاں ملک کیلئے تشویش کا باعث ہے وہیں غربت کے شکار افراد بھی کئی نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہیں۔ پاکستان سے غربت کا خاتمہ حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
جناب اک قصہ جو آپ لوگوں کے سامنے پیشِ خدمت ہےجو میں نے اپنی ان آنکھوں سے دیکھا اور میری ان آنکھوں سے بے شمار آنسو ٹپک پڑے کہ اک دن میں اپنی بھائی کو اسکول چھوڑ نے جا رہا تھا ۔ بھائی کو اسکول چھوڑ کر جب میں واپس گھر کی طرف لوٹ رہا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ دو معصوم بچے فٹ پاتھ پر ایک ٹھیلے والے سے چاول خرید کر نوش کر رہے تھے ۔
میں اک منظر دیکھ رہا تھا کہ اک طرف کئی سارے بچے کوئی اپنے ابو کہ ساتھ تو کوئی اسکول وین میں تو کوئی پیدل اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے تو دوسری طرف یہ دو معصوم بچے فٹ پاتھ پر ،کچرے کی بوری ساتھ رکھی ہُوئ ہے
بھوک والی کیفیت اُن کے چہروں سے عیاں تھی جیسے کہ کئی دنوں سے فاقہ کشی سے گذارے ہوں ۔ جن کی عمر اسکول جانے کی تھی اُس عمر میں یہ کچرے کی تلاش میں گھر سے نکلے ہوُئے . یہ منظر دیکھا تو دل کو دکھ ہُوا ۔
کافی دیر کہ بعد میں اُن دو معصوم بچوں کے قریب گیا اور کہا کہ تم اسکول کیوں نہیں جاتے بس یہ سوال تھا کہ دونوں یکساں و بوقت بولے جناب اسکول جائیں گے تو کھانہ کہاں سے ملے گا پہلے تو صرف دکھ ہوا تھا پر اب تو آنکھوں سے آنسو بھی جاری ہوگئے ۔

Facebook Comments

حمزہ حنیف مساعد
مکالمے پر یقین رکهنے والا ایک عام سا انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply