بچیوں کے لئے جنسی تعلیم کی اہمیت

بچیوں کے لئے جنسی تعلیم کی اہمیت
عبید شیخ
کالج میں ایک پیارے سے دوست تھے۔ انتہائی شریف ۔ ان کا فرضی نام رکھ لیں “توفیق”۔ خیر تو کالج کے شروع ہفتوں میں ہی اندازہ ہوا کہ حضرت سیکس پر یقین نہیں رکھتے، یعنی اس کے وجود سے ہی انکاری تھے۔ اب یہ کیسے ممکن تھا کہ ہمارا یار زندگی کی اتنی لذیذ حقیقت کی طرف سی اندھیرے میں رہے سو ان کی کاونسلنگ کا فیصلہ ہوا۔ ان کے ساتھ کچھ سیشنز ہوئے، چند معلوماتی ویڈیوز’ دکھائی گئیں، دینی کتابوں کے اقتباسات بھی ان کی نظر سے گزارے۔ پہلے بپھرے، پھر بگڑے، آخر تھوڑے تذبذب کے ساتھ قائل ہوگئے۔ لیکں ایک دن تنہائی میں میرے گلے لگ گئے اور سسکیاں بھرتے کہنے لگے کہ یقین نہیں آتا میرے ماں باپ بھی ایسا کچھ کرسکتے ہیں۔
یکایک ملنے والی آگہی بعض اوقات انسان کے لئے مشکل پیدا کردیتی ہے۔محترمہ نجمہ سلطانہ کا مضمون پڑھا تو مندرجہ بالا واقعہ یاد آ گیا۔ انھوں نے ایک حساس معاملے پر قلم اٹھایا ہے ، میرا موضوع مگر کچھ اور ہے۔ ہمارے معاشرے میں سیکس پہلے بھی ایک ممنوعہ لفظ تھا اور آج بھی۔ لیکن آج کا ماحول پندرہ بیس سال پہلے کے ماحول سے بہت مختلف ہے۔ پہلے ذرائع معلومات محدود تھے اور میڈیا بھی اتنا بے باک نہ ہوا تھا۔ لڑکے تو خیر بڑی حد تک دوستوں اور اکا دکا “پرنٹ” فلموں سے کمی پوری کرلیتے تھے لیکن لڑکیوں کی جانکاری اس حوالے سے اکثر شادی کے بعد ہی مکمل ہوتی تھی خصوصا ًوہ لڑکیاں جن کی شادی کم عمری میں ہوتی۔ معاشرے کی نظر میں یہی لڑکیوں کی معصومیت کا معیار تھا ۔ لیکن اب یہ صورتحال نہیں۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون زندگی کا اہم حصہ بن چکے ہیں۔ اب نوعمر لڑکیاں بھی اسی ہیجان انگیز معلومات کے طوفان میں ہیں جس تک پہلے صرف لڑکوں تک رسائی تھی ۔ آپ آگہی نا دیں تو کوئی اور دے گا، اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ اس آگہی کا ذریعہ گھر کا محفوظ ماحول بنے یا کوئی غلط صحبت ۔ معاشرے میں، خصوصا ًلڑکیوں کے لئے، سیکس ایجوکیشن کی ضرورت جتنی آج ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔ لازم ہے کہ اہل افراد اس طرف توجہ دیں اور ضروری قدم اٹھائیں۔ اسکولوں میں اس کا سنجیدہ اہتمام کیا جائے اور اس حوالے سے والدین کی ذہن سازی بھی۔
اگر کسی کے ذہن میں سوال ہے کہ میں لڑکیوں کی بابت ہی کیوں پریشان ہوں تو سنیں۔ میں خود دو بچیوں کا باپ ہوں جو چند ہی سال میں سن بلوغت کو پہنچیں گی۔ میں یہ بات بھی جانتا ہوںکہ ہمارا معاشرہ لڑکیوں کےحوالے سے بہت زود حس ہے، جس کے یقینا ًکچھ اچھے پہلو بھی ہونگے،لیکن ایک برا پہلو یہ ہے کہ نادانی میں کی گئی غلطیاں جولڑکوں کے لئے نارمل تصورکی جاتی ہیں لڑکیوں کے مستقبل کے لئے سم قاتل ثابت ہوتی ہیں۔
میں اس بات سے بھی آگاہ ہوں کہ انفارمیشن کے اس طوفان میں بچیوں سے کچھ چھپایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی گھر سے باہر کی زندگی سے الگ تھلگ کیا جا سکتا ہے ۔ لہٰذا میں انھیں یہ مان بھی دینا چاہتا ہوں کہ اپنے مسائل، خواہ ان کا تعلق گھر سے ہو یا گھر سے باہر، پورے اعتماد اور احساس تحفظ کے ساتھ اپنے والدین کے ساتھ شئر کر سکیں۔لکھنا لکھانا میرا میدان نہیں۔ ایک سوچ ذہن میں ابھری تو سپرد قلم کردی۔ تحریر میں بے ربطگی کی معذرت ، اور ہاں، ہمارے دوست توفیق اب شادی شدہ ہیں اور تین بچوں کے والد ۔ آج کل حضرت کس کے گلے لگ کر روتے ہیں یہ بوجھنا کوئی مشکل کام نہیں۔

Facebook Comments

عبید شیخ
تعلیم انجنئیرنگ، پیشہ درزی ۔ باقی پھر سہی۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply