عدم برداشت اور اسکا حل

بروز ہفتہ سوٹ بوٹ کس کر الحمرا ہال پہنچا دیکھا کہ دیکھنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔ انتظار کے بعد لالہ، قبلہ مبشر زیدی و دیگر تشریف لائے۔ سوچا لالہ کے وعدے کے مطابق ٹھنڈے ہال میں گرم مجرا دیکھ کر بے حال ہونے کا وقت آیا چاہتا ہے پر کتھوں۔۔۔ گرمی میں پولیس کے ساتھ گرم سرد ہونے کا موڈ بنتا جارہا تھا، لالہ بھی تیار تھا کیونکہ بے چارے نے تین دن سے گھر نہیں گیا تھا، عین وقت پر قیصر محمود صاحب نے کانفرنس کا عنوان دکھا کر ارمانوں پر پانی ڈال کر ٹھنڈا کر دیا۔۔ وجہ سائلنٹ حسین تھا بہر کیف مذاکرات ہوئے پچھلے گیٹ سے اندر داخل ہوئے سب مقررین نے اظہارِ رائے کیا مگر میرا ذاتی خیال ہے امیر حمزہ صاحب نے سیاسی اور مذہبی عدم برداشت اور اس کے حل پر مدلل گفتگو کی۔۔ سوچا جو سن نہیں سکے پڑھ لیں گے۔
انالحمد للہ!
الصلوٰت والسلام!
اما بعد۔۔
میرے لئے باعثِ مسرت اور اعزاز کی بات ہے کہ مجھے سالانہ میڈیا کانفرنس میں مدعو کیا گیا، پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ نام ہی بڑا پیارا ہے،جنہوں نے محققین، ریسرچر تھنک ٹینک کو ایک ادارہ دیا اکٹھا بیٹھایا اور گفتگو کے مواقع فراہم کیئے،مجھے آج سیاسی اور مذہبی عدم برداشت اور اس کو معتدل بنانے پر گفتگو کرنا ہے، میں سمجھتا ہوں عقیدہ نظریہ پیش کرکے ہم یہ کام کر سکتے ہیں، اللہ ساری کائنات کا مالک، خالق اور رازق ہے وہ کن کہتا ہے (کن لمحے کا کھرب ہا حصہ ہے) کائنات بن جاتی ہے اب تو نظریہ یہ ہے کہ کائنات ایک نہیں ہے بلکہ بے شمار ہیں اتنی بڑی ذات کا برداشت اور حوصلہ یہ ہے کہ اس نے شیطان کو بھی برداشت کیا شیطان نے گستاخی کی اور کہا اللہ تو نے مجھے راندہ درگاہ کیا ہے اب اگر کر ہی دیا ہے تو مجھے وقت بھی دیں تاکہ میں آپ کے بندوں سے دو ہاتھ کر لوں۔۔ اللہ نے کہا ٹھیک ہے میں تمہیں مہلت دیتا ہوں جو تو نے کرنا ہے کرلے میں اپنے بندوں کی اصلاح کے لئے انبیاء بھیجوں گا یعنی اللہ تعالیٰ کی ایک صفت حلیم ہے اللہ پاک نے اپنی صفتِ حلیم کا اظہار فرمایا اور شیطان کو بھی موقع فراہم کیا۔ حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حلم عطا کیا گیا
حضور کریمﷺ نے مسلمانوں کو اس بات سے منع فرمایا کہ وہ شیطان کو گالی دیں، برداشت کی انتہاء ہے کہ شیطان کو بھی گالی نہیں دینی، گالی بندہ اس وقت دیتا ہے جب وہ برداشت کھو دیتا ہے۔ کچھ یہودی آپ کے پاس آئے اور السلام عليكم کی بجائے اسام علیکم کہا (اسام کا معنی موت ہے) اماں عائشہ صدیقہ رضی عنہا نے فرمایا تم پر موت بھی ہو اور لعنت بھی ،حضرت محمدﷺ نے اماں عائشہ کو ٹوکا اور فرمایا لعنت کا جملہ کیوں بولا ہے اگر جواب دینا ہی تھا تو برابر کا جواب اسام علیکم کافی تھا ، یہ ہے آپ کا حلم حوصلہ اور برداشت۔۔۔ برداشت پیدا کرنے کی ذمہ داری علماء کی ہے ۔ تین چیزوں سے علماء کو خود توبہ کرنا ہوگی۔۔
1)کسی کو مشرک نا کہیں۔
2)کسی کو گستاخ رسولﷺ نا کہا جائے۔
3)کسی کو کافر نا کہا جائے۔
منبرومحراب سے علماء کو کردار ادا کرنا چاہیے۔ اسی طرح صحافی بھائیوں کو بھی کردار ادا کرنا چاہیے، سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنان کو بھی روش بدلنا ہوگی۔
تجاویز!
چیک اینڈ بیلنس کرنا ہوگا ہر ادارہ اپنے اندر کالی بھیڑوں کو نکالے، آج کل اینکر پرسن وہی مشہور ہوتا ہے جو دوسروں کو لڑاتا ہے اسی کا چینل اور ریٹنگ بڑھتی ہے اس کی بھی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے، دہشتگردی کو قابو کرنے کے لیئے دہشتگردوں کو سرِ عام لٹکایا جائے۔اسی طرح علماء کی بھی ذمہ داری ہے اعتدال کو فروغ دیں فرقوں فتوؤں سے باہر آئیں، حجتہ الوداع کے موقع پر حضرت فضل بن عباس آپ کے ساتھ تشریف فرما تھے عورت مسئلہ پوچھنے آئی۔۔ حضرت فضل بن عباس کی نگاہ ان پر پڑ گئی، آپﷺ نے صحابی کے چہرے کو پیار سے دوسری طرف پھیر دیا۔ ہمیں انداز بھی حضور نبی کریمﷺ والا اپنانا ہوگا۔ سوچنے کی بات ہے عدم برداشت جیسے روئیے کہاں سے پھیلے ہیں، یہ ہمارے ہی منبر مسجد پارلیمنٹ سے پھیلے ہیں اور اس میں بڑا ہاتھ صحافیوں، سیاست دانوں کا ہے۔ انصاف کی فراہمی مشکل ترین بنا دی گئی ہے ،معاشرتی مساوات قائم کرنے کے لیئے عدلیہ کو بھی ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ایک فیصلہ پچاس برس بعد آتا ہے تب تک وہ قبر میں پہنچ چکا ہوتا ہے پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ کی بے گناہی کا فیصلہ25برس بعد آیا ہے،اس تاخیر کی آخر کیا وجہ تھی ؟ ۔
دنیا میں بہت سے مواقع پر بےگناہی ثابت کرنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے،انسان اپنی صفائی دیتا ہے جسے قبول نہیں کیا جاتا،لیکن اللہ کی عدالت انوکھی ہے۔۔قیامت کا دن ہوگا، ایک شخص کے99رجسٹر نیکیوں سے بھرے ہونگے اس کے پاس صرف ایک نیکی ہوگی اللہ اس ایک نیکی کے بدلے اسے جنت میں داخل کردیں گے۔دوسروں پر اپنے فیصلے مسلط کرنے کی کوشش نہ کیجئے،بلاشہ فتویٰ دینا علما ء کا ہی کام ہے لیکن علماء کو میانہ روی اپنانا ہوگی،بات بے بات فتوے مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل کی جڑ ہیں اور اس مسئلے کو جڑ سے ہی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

وثیق چیمہ
خاک ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply