اردو کے نفاذ میں تاخیر کیوں؟۔۔۔۔۔عنایت اللہ کامران

قائد اعظم محمد علی جناح رح نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا تھا، آئین پاکستان میں بھی اردو کے نفاذ کے حوالے سے دفعہ موجود ہے، سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ بھی نفاذ اردو کے حق میں ہوچکا ہے۔
“سپریم کورٹ میں نفاذ اردو کے لیے آئینی درخواست جمع کروائی گئی، جو کئی سال کے لمبے روایتی چکروں کے بعد منظور کر لی گئی۔ تاہم تاریخ پر تاریخ کی روایتی تاریخ برقرار رہی۔ بالآخر 8 ستمبر 2015ء کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے قومی زبان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے حکومت کو 90 دن کی مہلت دے دی۔ اور حکم دیا کہ نوے دن کے اندر اندر حکمران آئین کے آرٹیکل 251 پر عمل درآمد کرتے ہوئے قومی زبان کے نفاذ کا حکم نامہ جاری کریں “(وکیپیڈیا اردو )۔
لیکن بدقسمتی سے عملاً نفاذ ِاردو کے خلاف سازشیں جاری ہیں۔ جب بھی نفاذ اردو کی منزل قریب آنے لگتی ہے سازشی ٹولہ کوئی ایسا چکر چلاتا ہے کہ بات وہیں پر آکے کھڑی ہو جاتی ہے جہاں سے شروع ہوئی تھی۔

مصنف:عنائیت اللہ کامران

دنیا کی جتنی بھی اقوام نے ترقی کی ہے دیگر وجوہات میں سب سے بڑی وجہ ان کا نظام تعلیم اور ذریعہ تعلیم اپنی زبان میں ہونا ہے۔ ان اقوام نے غیر ملکی زبان کو اپنی قوم پر مسلط نہیں کیا اور نہ ہی ہونے دیا، نتیجتاً صرف یہی نہیں کہ ان کی آنے والی نسلوں کے لیے ترقی کے نئے دروازے کُھلے بلکہ یہ اقوام غیر ملکی ثقافت سے بھی کافی حد تک محفوظ رہیں۔ جاپان کے بارے میں میری نظر سے ایک تحریر گزری ہے جس کے مطابق جنگ عظیم دوئم میں جب جاپان پر ایٹمی حملہ ہوا اور وہ شکست کھا گیا، اور یہ شکست محض شکست نہیں تھی وہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا اور امریکہ نے اس پر قبضہ کر لیا تھا، اس پر بے شمار پابندیاں عائد کر دی گئیں اور اس کے نظام کو تبدیل کرکے نیا نظام مسلط کیا جانے لگا تو اس وقت جاپان نے قابض قوت سے درخواست کی کہ آپ جو چیز چاہیں  تبدیل کر دیں لیکن ہمارے نظام تعلیم کو باقی رہنے دیں۔۔۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔۔ چین کے ماؤزے تنگ اور چو این لائی سمیت کئی قائدین کی مثالیں سامنے ہیں کہ انہوں نے بڑے بڑے بین الاقوامی اجلاسوں میں چینی زبان میں بات کر کے چین کی نمائندگی کی۔۔۔ یہ عمل اصل میں اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ یہ ملک اور اس کے عوام و قیادت ذہناً ،عقلاً اور عملاً آزاد و خود مختار ہیں۔پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔۔۔مقتدر طبقے نے اول روز سے یہاں بدیسی زبان کو مسلط کر کے نہ صرف سابقہ آقاؤں سے اپنے اٹوٹ تعلق اور محبت کو ثابت کیا ہے بلکہ اس عمل کو اس لیے بھی جاری رکھا ہے کہ یہاں کی اپنی زبان کو نافذ کر دیا گیا تو ان کا اقتدار ختم ہو جائے گا جبکہ بین الاقوامی طاقتوں کے لیے بھی یہی بہتر ہے کہ یہاں کے عوام پر غیر ملکی زبان مسلط رہے تاکہ عام افراد پر آگے بڑھنے کے راستے بند رہیں اور صرف مخصوص طبقہ ہی اس ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا رہے۔اور یہ طبقہ ان کے مفادات کا بہترین محافظ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london
نفاذ اردو کے لئے پاکستان قومی زبان تحریک کوشاں

سطور بالا میں، میں نے فرمان قائد، آئین پاکستان اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے حوالے دیے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان سب کے باوجود اگر پھر بھی اردو زبان کے نفاذ میں تساہل برتا جا رہا ہے تو کیا یہ جرم نہیں ہے؟ کیا یہ فرمان قائد سے روگردانی اور غداری نہیں ہے؟ کیا یہ آئین پاکستان سے بغاوت نہیں ہے؟ کیا نفاذاردو نہ کر کے سپریم کورٹ کے احکامات کی دھجیاں نہیں اڑائی جا رہیں اور کیا یہ توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتا؟
اس ملک کے مقتدر طبقے وضاحت کریں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ 99 فیصد عوام کی زبان کو نظر انداز کر کے صرف ایک فیصد استحصالی ٹولے کو خوش کیا جا رہا ہے آخر کیوں؟ اس ملک کے اصل مالک یہ 99 فیصد عوام ہیں نہ کہ وہ ایک فیصد یا شاید اس سے بھی کم طبقہ ہے جو کل بھی غیر ملکی آقاؤں کی غلامی میں تھا اور آج بھی اس کی وراثت اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہماری قومی زبان اردو ہے، ہم انگریزی زبان کے خلاف ہرگز نہیں لیکن چاہتے ہیں ایک آزاد اور خودمختار ملک کے عوام کو اس کی شناخت دی جائے، یہاں اردو زبان مکمل طور پر نافذ کی جائے۔ یاد رکھیں کسی بھی ملک کی آزادی اور خودمختاری اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک کہ وہاں کی قومی زبان کو ہر سطح اور ہر شعبہ زندگی میں نافذ نہ کیا جائے۔ محض موٹرویز کے جال، میٹرو اور اورنج ٹرینوں کے آغاز، سی پیک اور دیگر بڑے منصوبوں سے قومیں نہ تو بڑی بنتی ہیں اور نہ ہی حقیقی ترقی کرتی ہیں۔ قومی کی عزت و وقار میں ان کی قومی زبان کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔
نفاذ اردو کے حوالے سے دیگر سیاسی یا مذہبی جماعتوں کی طرف سے معلوم نہیں آواز اٹھائی جاتی رہی ہے یا نہیں البتہ جماعت اسلامی کی طرف سے یہ مطالبہ ضرور ہوتا رہا ہے اور جماعت اسلامی نے اسے اپنے منشور کا حصہ بھی بنایا ہے، اس حوالے سے پارلیمنٹ میں بھی آواز اٹھائی گئی ہے تاہم نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔۔۔۔ پارلیمنٹ میں پیشتر لوگ وہ ہیں جن کو اس بات سے کچھ غرض ہی نہیں ہے کہ قومی زبان اردو کا نفاذ ہو یا نہ ہو۔
نفاذ اردو کے حوالے سے پاکستان قومی زبان تحریک اپنے قیام کے اول روز سے ہی مسلسل کوشاں ہے۔ اس حوالے سے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس تحریک نے ہی نفاذ اردو کی جدوجہد کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ نفاذ اردو کے مخالفین کو مدلل جواب کے ساتھ ساتھ ہر فورم پر اس اہم مطالبہ کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس تحریک سے وابستہ افراد نے اپنی بساط سے بڑھ کر نفاذ اردو کے لیے کام کیا ہے جو قابل ِتحسین اور آنے والی نسلوں پر احسان ہے۔ محترم عزیز ظفر آزاد صاحب مرکزی صدر پاکستان قومی زبان تحریک ، پروفیسر محمد سلیم ہاشمی صاحب اور محترمہ فاطمہ قمر صاحبہ صدر پاکستان قومی زبان تحریک شعبہ خواتین نفاذ اردو کا علم تھامے ہوئے ہیں۔ پاکستان قومی زبان تحریک کا دائرہ کار رفتہ رفتہ پورے ملک میں پھیل رہا ہے اور لوگ اس تحریک سے جُڑ رہے ہیں جس سے اس تحریک کے مؤقف کو تقویت مل رہی ہے اور نفاذ اردو کا مطالبہ عوامی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس تحریک کو بے شمار کامیابیاں ملی ہیں جن میں سب سے اہم سپریم کورٹ کی طرف سے نفاذ اردو کے احکامات ہیں، گو ابھی تک ان پر عملدرآمد نہیں ہوا لیکن اس کے اثرات سرکاری و غیر سرکاری حلقوں میں نمایاں ہو رہے ہیں۔
مقتدر طبقہ کے لیے اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ نفاذ اردو کے مطالبے کو نہ چاہنے کے باوجود تسلیم کرے اور اسے عملی جامہ پہنائے اگر اب وہ اس مطالبے کو تسلیم نہیں کرتا اور حقائق سے آنکھیں چراتا ہے تو اسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جلد یا بدیر عوامی دباؤ پر بادل نخواستہ اسے بہر صورت یہ مطالبہ تسلیم کرنا پڑے گا۔

Facebook Comments

عنایت اللہ کامران
صحافی، کالم نگار، تجزیہ نگار، سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ سیاسی و سماجی کارکن. مختلف اخبارات میں لکھتے رہے ہیں. گذشتہ 28 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک، کئی تجزیے درست ثابت ہوچکے ہیں. حالات حاضرہ باالخصوص عالم اسلام ان کا خاص موضوع ہے. اس موضوع پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں. طنزیہ و فکاہیہ انداز میں بھی لکھتے ہیں. انتہائی سادہ انداز میں ان کی لکھی گئی تحریر دل میں اترجاتی ہے.آپ ان کی دیگر تحریریں بھی مکالمہ پر ملاحظہ کرسکتے ہیں. گوگل پر "عنایت اللہ کامران" لکھ کربھی آپ ان کی متفرق تحریریں پڑھ سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply