ہم سایہ ۔۔۔۔مرزا مدثر نواز/دوسری،آخری قسط

دین اسلام میں ہر تعلق‘ رشتے اور انسان سے وابستہ ہر فرد کی اہمیت‘ احترام اور مقام کی بہت وضاحت کے ساتھ تفصیل بیان کی گئی ہے‘ بلا شبہ دین اسلام وہ دین ہے کہ جس میں غیر مسلموں کو بھی ان کے بنیادی حقوق سے نوازا گیا ہے‘ یہ وہ آفاقی مذہب ہے کہ جس میں گھر کے افراد کے ساتھ ساتھ غلام اور لونڈی کے حقوق کے تحفظ کا حکم دیا گیا اور یہ ہی وہ دین حق ہے کہ جس میں جانوروں تک کے بنیادی حقوق بڑی ہی وضاحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔اسلام میں جہاں رشتہ داری کی اہمیت بیان کی گئی ہے وہیں ان افراد کو جن کے ساتھ میل جول رکھا جاتا ہے‘ نہیں بھولا گیا ہے بلکہ ہمسایہ کی اہمیت تو اس کے غیر مسلم ہونے کے باوجود مسلمہ ہے‘ اس حوالے سے ہمسائیوں کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے‘ پہلا وہ جو غیر مسلم ہو اس کا حق ایک درجہ ہے‘ دوسرا جو مسلمان ہو مگر رشتہ دار نہ ہو اس کا حق دو درجے ہے‘ تیسرا جو مسلمان بھی ہو اور رشتہ دار بھی تو اس کا حق تین درجے ہے۔

امام غزالیؒ نے احیاء العلوم میں ایک عجیب و غریب واقعہ ذکر کیا ہے کہ کسی کے گھر میں چوہوں کی کثرت ہو گئی تو کسی نے بلی پالنے کا مشورہ دیا کہ اس طرح چوہے تمہارے گھر سے فرار ہو جائیں گے تو گھر والے نے کہاکہ مجھے اس بات کا خطرہ ہے کہ بلی کی آواز سن کر چوہے میرے گھر سے نکل کر میرے پڑوس کے گھر میں چلے جائیں گے اور میں جو چیز اپنے لیے پسند نہیں کرتا وہی چیز اپنے پڑوسی کے لیے پسند کرنے لگوں؟یہ مومن کی شان کے خلاف ہے۔ عبداللہ بن مبارکؒ کے پڑوس میں ایک یہودی رہتا تھا جس نے اپنا مکان فروخت کرنا چاہا تو ایک آدمی نے قیمت پوچھی‘ کہنے لگا کہ دو ہزار دینار میں فروخت کروں گا‘ خریدار نے کہا کہ اس علاقے میں اس قسم کے مکان کی قیمت زیادہ سے زیادہ ایک ہزار دینار ہوتی ہے‘ یہودی کہنے لگا کہ ہاں ایک ہزار دینار تو میرے مکان کی قیمت ہے اور ایک ہزار دینار عبداللہ بن مبارک کے پڑوس کی قیمت ہے۔ ایک وقت تھا کہ مسلمانوں کے پڑوس میں جو مکان ہوتے تھے ان کی قیمتیں مسلمانوں کے اخلاق و کردار کی خوبیوں کی وجہ سے بڑھ جایا کرتی تھیں اور آج یہ وقت آ چکا ہے کہ غیر مسلم ممالک کے بعض علاقوں میں کوئی مسلمانوں کو مکان کرایہ پر دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتا۔ ابوحمزہ ”سکری“ حدیث کے معروف راوی ہیں جو ”سکری“ کے لقب سے مشہور ہوئے ”سکر“ عربی زبان میں چینی کو کہتے ہیں ان کے تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ انھیں سکری اس وجہ سے کہا جاتا تھا کہ ان کی باتیں بڑی شیریں اور ان کا لہجہ اور ان کا انداز گفتگو بڑا ہی دلکش دلنشیں تھا جب وہ بات کرتے تو سننے والا ان کی باتوں میں محو ہوجاتا وہ شہر بغداد کے ایک محلے میں رہتے تھے کچھ عرصہ بعد انھوں نے اپنا مکان فروخت کرکے کسی دوسرے محلے میں سکونت اختیار کرنے کا ارادہ کیا اور مکان خریدنے والے سے معاملہ بھی تقریباً طے ہوگیا تھا جب ان کے پڑوسیوں کو معلوم ہوا کہ وہ اس محلے سے منتقل ہوکر کہیں اور قیام کا ارادہ کرچکے ہیں تو محلے والے ایک وفد لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے منت وسماجت کی کہ وہ یہ محلہ نہ چھوڑیں حضرت ابوحمزہ سکری نے اپنا عذر بیان کیا تو محلہ والوں نے متفقہ طور پر انھیں یہ پیش کش کی کہ ان کے مکان کی جو قیمت لگی ہے ہم وہ قیمت آپ کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کرتے ہیں لیکن آپ ہمیں اپنے پڑوس سے محروم نہ کیجیے جب انھوں نے محلہ والوں کے اس قدر خلوص کا مظاہر کیا تو اس محلے کے چھوڑنے کا ارادہ ملتوی کردیا۔

برائی‘ برائی ہے جہاں بھی ہو اور گناہ گناہ ہے جہاں بھی سر زد ہو لیکن اگر وہ اس جگہ ہو جہاں لازمی طور سے نیکی ہونی چاہیے تھی تو ظاہر ہے کہ اس گناہ اور برائی کا درجہ عام گناہوں اور برائیوں سے بدرجہا زیادہ ہے‘ بد قسمت انسان چوری ہر جگہ کر سکتا ہے مگر ظاہر ہے کہ پڑوس کے مکان میں چوری کرنا کتنا برا ہے‘ بدکاری ہر جگہ اس سے ممکن ہے مگر پڑوس کے گھر میں جہاں سے دن رات کی آمدورفت ہے اور جہاں کے مرد پڑوس کے شریف مردوں پر بھروسہ کر کے باہر جاتے ہیں‘ اخلاقی خیانت کس قدر شرمناک ہے‘ اسی لیے تورات میں یہ حکم تھا ”تو اپنے پڑوسی پر جھوٹی گواہی مت دے‘ تو اپنے پڑوسی کے گھر کا لالچ مت کر‘ تو اپنے پڑوسی کی جورو اور اس کے غلام اور اس کی لونڈی اور اس کے بیل اور اس کے گدھے اور کسی چیز کا جو تیرے پڑوسی کی ہے‘ لالچ نہ کر“۔”تو اپنے پڑوسی سے دغا بازی نہ کر‘ نہ اس سے کچھ چھین لے“۔اسلام نے اپنے پیغمبرﷺ کی زبانِ حکمت سے اس اگلی تعلیم کی تکمیل ان الفاظ میں فرمائی‘ جن میں تورات کی طرح صرف ممانعت پر بس نہیں کی ہے بلکہ اس کو دس گنا زیادہ برا کر کے دکھایا‘ ایک سوال کے جواب میں فرمایا ”زنا حرام ہے‘ اللہ و رسول نے اس کو حرام کیا ہے لیکن دس بد کاریوں سے بڑھ کر بد کاری یہ ہے کہ کوئی اپنے پڑوسی کی بیوی سے بدکاری کرے‘ چوری حرام ہے‘ اللہ و رسول نے اس کو حرام کیا ہے‘ لیکن دس گھروں میں چوری کرنے سے بڑھ کر یہ ہے کہ کوئی اپنے پڑوسی کے گھر سے کچھ چرا لے“۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی تعلیم کی غرض سے ان سے فرمایا کہ ”جبریل نے مجھے پڑوسی کے حقوق کی اتنی تاکید کی کہ میں سمجھا کہ کہیں ان کو وراثت کا حق نہ دلا دیں“۔ اپنے ایک توکل پیشہ صحابی ابوذرؓ کو نصیحت فرمائی کہ ”اے ابو ذر! جب شوربا پکاؤ تو پانی بڑھا دو اور اس سے اپنے ہمسایوں کی خبر گیری کرتے رہو“۔

مختلف مواقع پرارشاد فرمایا ”مومن وہ نہیں جو خود سیر ہو اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہے“۔ ”اللہ کے نزدیک ساتھیوں میں بہتر وہ ہے جو اپنے ساتھی کے لیے بہتر ہو اور پڑوسیوں میں بہتر وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے بہتر ہو“۔ ”تم میں کوئی مومن نہ ہو گا جب تک اپنے پڑوسی کی جان کے لیے وہی پیار نہ رکھے جو خود اپنی جان کے لیے پیار رکھتا ہے“۔ ”جس کو یہ پسند ہو کہ اللہ اور اس کا رسول اس کو پیار کرے یا جس کو اللہ اور اس کے رسول کی محبت کا دعوٰی ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کا حق ادا کرے“۔ ”قیامت کے دن بارگاہ الہٰی میں سب سے پہلے وہ دو مدعی اور مدعا علیہ پیش ہوں گے جو پڑوسی ہوں گے“۔ ”جب اپنے پڑوسی کو تم اپنی نسبت اچھا کہتے سنو تو سمجھو کہ اچھا کر رہے ہو اور جب برا کہتے سنو تو سمجھو کہ برا کر رہے ہو“۔
بُرا کہے جسے عاَلم، اسے بُرا سمجھو
زبانِ خلق کو نقارہ خدا سمجھو
دو صحابیہ تھیں جن میں سے ایک رات بھر نمازیں پڑھا کرتیں‘ دن کو روزے رکھتیں‘ صدقہ و خیرات بھی بہت کرتیں مگر زبان کی تیز تھیں‘ زبان سے پڑوسیوں کو ستاتی تھیں‘ لوگوں نے ان کا حال آپ سے عرض کیا تو فرمایا ان میں کوئی نیکی نہیں‘ ان کو دوزخ کی سزا ملے گی‘ پھر صحابہ نے دوسری بیوی کا حال سنایا جو صرف فرض نماز پڑھ لیتیں اور معمولی صدقہ دے دیتیں‘ مگر کسی کو ستاتی نہ تھیں‘ فرمایا یہ بیوی جنتی ہو گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر مندرجہ بالا احادیث کو پڑھ یا سن کر حیات انسانی کے ان تشنہ شعبوں کو درست کرنے کی فکر دامن گیر ہو جائے تو ضرور وہ خوشگوارو پر سکون معاشرہ تشکیل پائے گا‘ دنیا کو جس معاشرے کی تلاش ہے ورنہ‘
لُطف  تو جب ہے کہ کردار بھی کروٹ بدلے
ورنہ جذبے تو لیا کرتے ہیں انگڑائی بہت۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply