چلو آؤ کہ ہم ماتم کریں۔ ۔ ملک جان کےڈی

آج بلوچستان کا ہر فرد موت سے لڑ رہا ہے،  ساری کائنات کا آقا پیسہ ہے۔ مغل صاحب لکھتے ہیں ”ساٹھ برسوں سے غلام ابِن غلام  جو حقیر نیچ ،اچھوت ،رذیل ہیں۔ یہ سب اس  سے بھوک کروارہی ہے، بھوک جسم فروخت کروا رہی ہے، بھوک بندوق اٹھوارہی ہے، بھوک ڈاکے ڈلوارہی ہے، بھوک انسان مروارہی ہے، بھوک غلام پیدا کررہی ہے، یہاں حاکم بھی غلام ، رعایا  بھی غلام ،غلام بھی غلام،   ہرفرد غلام ،شہر غلام ،دیہات غلام ،صوبے غلام، ملک غلام۔”

دولت اور طاقت کی جے ہو، اٹھے ہوئے سروں کو اشرفیوں کے نیچے مسل دو، پیسے کا مطلب طاقت ، طاقت مطلب بندوق، مار دو ، چھین لو، قبضہ کرلو، آگ لگا دو، یہ سارے موجودہ بلوچستان کی  صورتِ حال ہے، جہاں   ہر روز  نئی واردات ہوتی ہے  ۔  کوئی شخص  اپنے گھر  میں محفوظ  نہیں ۔

بدقسمتی سے بلوچوں کے  زیادہ تر دشمن اپنے بلوچ بھائی ہی  ہیں ، کہتے ہیں کہ نقصان اکثر اپنے لوگ پہنچاتے  ہیں ۔ اب بلوچستان کا المیہ یہی ہے، جو لوگ تحریروں میں غیرت کی بات کرتے  ہیں ،وہی لوگ راتوں  کو اپنے گھروں میں  تشدد کرتے ہیں ، اب کس سے اچھائی کی امید کرسکتے ہیں  ۔

پہلے گھر میں آگ لگائے  نامعلوم افراد
پھر امن کے نغمے گائے  نامعلوم افراد

یہاں بھی یہی مسئلہ ہے ، راتوں میں گھروں کا  صفایہ کرو، ماں ، بہنوں کے  کانوں کو چیر کر  سونے ،چاندی کے  زیورات   لوٹ کر بھاگ جاؤ، صبح ہوتے ہی ریلی  میں نعرے لگاؤ،یہاں چور کی پشت پناہی کون کررہا ہے؟۔۔۔اس سوال کا جواب کون دے گا؟

عورت مار مہم کے پیچھے کس کے ہاتھ ہیں ؟ جو بے رحمی سے ہماری ماں بہنوں کو قتل کیا جارہا ہے ،  سانحہ ڈَنُک ہو یا تمپ کا ، میرے خیال سے یہ مسئلہ سارے بلوچستان کا ہے ، تماشا دیکھنے والا خود تماشا بن رہا   ہے    ، بلوچ مسئلہ غیرت ہے ، اور یہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ بلوچوں کا اجتماعی مسئلہ ہے،اور اس مسئلے کے حل کے لیے ہم سب کو متحد ہونا ہوگا۔

چلو آؤ کہ ہم ماتم کریں
اس پہلے زخم کا
کہ جو ناسور بن کر قوم کے سینے میں ہے پھیلا
ہر ایک رگِ جان سے لہو جس نے نچوڑا
مرغ بسمل کی طرح تڑپ کے چھوڑا

Advertisements
julia rana solicitors london

چلو آؤ کہ ہم ماتم کریں
اسی منحوس لمحے کا
کہ جو اک بد دعا بن کر
ہمارے بخت پر چھایا
کسی آسیب کا سایا
کہ جس نے گھر کے رکھوالوں سے
گھر والوں کو مر وایا
کہ جس نے خنجروں کی نوکوں پر
جمہوریت کا سر اچھالا
بدن ٹکڑے کئے اور عدل  کو توڑا
اور یوں قانون فطرت کو بدل ڈالا
کہ گلشن میں بہاریں بھی خزاں  لائیں
برس بیتے یہ دنیا چاند پر پہنچی
مگر ہم گولیوں کی زد میں بیٹھے
آج بھی لرزاں ہیں
اپنے گھر میں قیدی
سانس لینے سے گریزاں
موت سے لڑتے ہوئے
جیتے ہوئے مرتے ہوئے
اسی لمحے کا ماتم کررہے ہیں
کہ جو اک بد دعا بن کر
ہمارے بخت پر چھایا
کہ جس نے خون  بہایا، خون رُلایا
ہمارے واسطے جو زخم لایا
چلو آؤ کہ ہم ماتم کریں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply