رَنڈی اِن مَنڈی، ٹرینڈ۔۔۔۔۔رمشا تبسم

نوٹ:چند روز پہلے ٹویٹر پر مریم نواز کے منڈی بہاؤ الدین  جلسے کو لے کر ایک ٹرینڈ بنا یا گیا “رنڈی اِن منڈی”۔رمشا تبسم نے آج اِسی حوالے سے قلم اٹھایا ہے۔اگرچہ یہ  لفظ قابلِ مذمت ہے،لیکن اس سے بھی زیادہ قابلِ مذمت یہ بات ہے کہ ٹویٹر پر ابھی تک یہ ٹرینڈ چل رہا ہے۔مکالمہ  پر یہ تحریر  اُسی عنوان کے ساتھ آزادیء اظہارِ رائے کے تحت شائع کی جارہی ہے،قارئین کے پاس  تنقید کا حق محفوظ ہے،کوئی قاری جوابی تحریر لکھنا چاہے تو مکالمہ کے صفحات حاظر ہیں !

عام تاثر یہی ہے کہ مرد جب کمزور پڑ جاتا ہے تو وہ گالیوں کا سہارا لیتا ہے۔مگر اس بات کی آج تک سمجھ نہیں آئی کہ  “مرد” آخر کمزور پڑ کیسے جاتا ہے؟۔مرد اپنے ساتھ مردانگی کا اظہار کر کے خود کو بہت بہادر اور جانباز ثابت کرتا ہے۔۔اور ذرا ذرا سی بات پر مردانگی مُردہ ہو جاتی ہے اور مرد عورتوں سے منسوب بے ہودہ الفاظ یا گالیاں دے کر خود کو تسکین پہنچا لیتا ہے۔پھر کیا ایسے مرد در حقیقت مرد کہلانے کے لائق ہیں؟ یا انکی مردانگی کو برقرار رکھنے کے لیے  عورتوں کو گالی دینا اشد ضروری ہے؟

معاشرے میں تو اوّل سے آخر تک نہ صرف ساری گالیاں عورتوں سے منسوب ہیں، بلکہ بیشتر محاورے بھی عورت کی تذلیل کرنے کے لیے موجود ہیں ، تاکہ مرد کہلانے والی مخلوق کی مردانگی بخوبی واضح ہو سکے، جیسا کہ عورت پیر کی جوتی ہے، عورت کا تو دماغ ہی چھوٹا ہے، عورت کم عقل ہے, عورت جاہل گوار ہے, عورت مکّار ہوتی ہے، عورت کے پیٹ میں بات ہی نہیں ٹھہرتی،عورت اعتبار کے قابل نہیں, عورت کمزور ہوتی ہے، عورت لگائی بجھائی کرتی ہے، عورت سب سے زیادہ زیور, پیسے اور عیش و عشرت سے پیار کرتی ہے، عورت ہوتی ہی بے وفا ہے، عورت بد زبان  اور بد چلن ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔

دینِ اسلام جہاں محبت و اخوت، بھائی چارہ و برداشت، احسان و قربانی، حسن ِ اخلاق, دوسروں کی عزتوں کی حفاظت, سچائی و ایمانداری سکھا تا ہے وہیں یہ پیارا دینِ اسلام ہم کو دوسروں کی عزت و اکرام کرنا بھی سکھاتا ہے ۔بے شک وہ کافر اور مشرک ہی کیوں نہ ہوں، کسی کے ساتھ بھی بداخلاقی, گالی گلوچ اور زیادتی کی اجازت نہیں دیتا۔۔اور تقریباً پوری کائنات میں ان حرکات کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ہر معاشرہ مشرق تا مغرب اخلاقیات کے دائرے رکھتا ہے۔ مگر افسوس  کہ  ہم لوگ اسلام کے ہی سبق کو بھول گئے ہیں اور بداخلاقی کی ایسی ایسی مثالیں پیش کر رہے ہیں کہ جو مشرکین مکہ نے بھی پیش نہیں کی تھیں۔ سوشل میڈیا پر ہر فرقہ,تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے دوسرے فرقے  اور سیاسی حریفوں کے لیے  نت نئی گالیاں, اور بے ہودہ “ٹرینڈ” قائم کرنے میں مگن ہیں۔

اس تحریر کا مقصد کسی سیاسی جماعت کی حمایت یا کسی کی مخالفت نہیں۔۔بلکہ اُس سوچ پر غور و فکر کرنا ہے  جو معاشرے میں نفرت کو اس نہج پر پہنچا رہی ہے کہ  جہاں بہن ,بیٹی,ماں,بیوی اور معاشرے کی کوئی عورت اور کوئی مرد بھی محفوظ نہیں رہے گا۔
کچھ دن قبل محترمہ مریم نواز کا جلسہ منڈی بہاؤدین میں ہونا تھا۔سیاسی حریف کافی حد تک خوفزدہ تھے۔لہذا ٹی۔وی پر آکر فردوس عاشق صاحبہ نے ایک  طوفانِ بدتمیزی برپا کر دیا۔جس کے نتیجے میں اس سیاسی جماعت کے پیروکاروں نے سوشل میڈیا پر ہر طرح کی بے ہودگی شروع کردی۔حتٰی کہ ٹویٹر پر ایک ٹرینڈ “رنڈی اِن منڈی” کے نام سے چلا دیا گیا۔ مجھے اس لفظ کے مطلب سے شناسائی نہ تھی۔لہذا مجھے گوگل کرنا پڑا اور تب جا کر مجھے معلوم ہوا کہ  یہ “رنڈی” ایک لفظ نہیں بلکہ معاشرے, اخلاقیات, اقدار,تہذیب و تمدن اور حسن ِاخلاق کی موت ہے۔لہذا بے ساختہ میرے منہ سے “انا للہ وانا علیہ راجعون” کے الفاظ ادا ہو گئے۔

بہت سوچا , سمجھنے کی کوشش کی کہ ایسی کیا نوبت آن پڑی کہ  اتنا بے ہودہ ٹرینڈ چلا دیا گیا جو کہ پوری دنیا نے دیکھا اور ہمارے لیے  باعثِ شرمندگی بھی بنا۔۔
کچھ لوگوں سے میں نے اس سلسلے میں بات کی جو مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستگی رکھتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ  اس ٹرینڈ کا مقصد صرف اور صرف اپنا غصہ دکھانا,اپنی مخالفت پر سیاسی نفرت کا اظہار کرنا تھا۔۔یہاں لفظ”رنڈی” کو ایک نئی سمت ملی۔ایک نئی  تعریف اور ایک نئی پہچان بھی۔
“مخالفت” یعنی اگر کوئی عورت کسی بھی صورت میں آپ کی مخالف ہے, آپ کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتی, آپ کی مخالفت کرتی ہے,آپ کی پسند کو نا پسند کرتی ہے, آپ کی بات سے انکار کرتی ہے تو وہ “رنڈی” کہلائے گی۔۔
محترمہ مریم صفدر چونکہ حکومت کے خلاف ہیں اور انکا جلسہ حکومت کے خلاف تھا لہذا حکومتی وابستگی اور وفاداری ظاہر کرنے کے لیے  کچھ مردانگی رکھنے والے مرد حضرات نے اس قسم کا ٹرینڈ جاری کر کے مریم صفدر سے نفرت کا اظہار کیا۔

اگر اس لفظ کا استعمال اپنی مخالفت کرنے والوں پر کرنا ہے،تو اس معاشرے کے مرد حضرات یوں تو پھر ٹرینڈ چلانے, اس ٹرینڈ کو پروموٹ کرنے, اور اس کو پسند کر کے محظوظ ہونے والوں کے گھروں  میں بھی بہت سی مخالفت کرنے والی خواتین موجود ہوتی ہیں۔کبھی آپ کی ماں آپ کی بات سے انکار کرتی ہے, کبھی آپ کی بیٹی آپ کے مخالف جا کر کوئی قدم اٹھاتی ہے, کبھی آپ کی بہن آپ سے اختلاف کر کے اپنی مرضی کرتی ہے , کبھی آپ کی بیوی آپ کی پسند کے خلاف جا کر کوئی قدم اٹھاتی ہے تو کیا انکی مخالفت پر ان کو بھی اسی لفظ  سے مخاطب کیا جائے گا؟مخالفت کا نہ تو رنگ ہوتا ہے, نہ نسل, نہ مذہب, نہ فرقہ, نہ جماعت, نہ ہی کوئی خاص جنس۔۔مخالفت تو مخالفت ہے جو آپ کی سوچ, آپ کی بات, آپ کے فیصلے سے انکاری ہو, آپ کی مخالفت کرے, آپ کی پسند کو نا پسند کرے وہ “مخالفت” کا ارتکاب کرتا ہے تو کیا یہ “رنڈی ” کی اصطلاح آپ کے گھر والوں کی مخالفت پر اِن پر بھی لاگو  ہوتی ہے؟

ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں  کے لیے وہی چیز پسند کرنے کا حکم ہے جو ہم اپنے لیے کرتے ہیں۔ہمیں انسانیت سے حسنِ سلوک کا درس دیا گیا ہے۔اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جو چیز آپ دوسروں پر نافذ کرو ،وہ اپنے اور اپنے اہل وعیال پر  بھی کرو۔لہذا کیا آج سے ہم یہ سمجھ لیں کہ  اس ٹرینڈ کو چلانے والوں کے گھر کے   مخالفت کرنے  والے افراد پر   یہ لفظ لاگو ہو گا اور پھر معاشرے کی ہر عورت پر جہاں بھی کوئی کسی عورت کو اپنی مخالفت کرتا دیکھے اسکو”رنڈی ” پکارے۔
یا  مرد کی مردانگی کو تقویت دیتا یہ  لفظ “رنڈی”  اور نفرت کا یہ اظہار  آپ کے گھر کی عورتوں کو نکال کر باقی پورے معاشرے کی عورتوں کے لیے ہے؟َ

اس ٹرینڈ کو بنانے والا، چلانے والا یقیناً  اپنے ارد گرد خونی رشتوں میں خواتین کا ہجوم رکھتا ہو گا۔اسکے باوجود وہ صرف “نام کا مرد ” ایک خاتون کے جلسہ گاہ جا کر جلسہ کرنے سے اس قدر خوفزدہ ہو گیا اور اپنی “مردانگی” کو خطرے میں پاکر اس نے اس طرح کی فضول حرکت کی۔
ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں، ہمیں   اور ہماری   نسلوں کو اسی معاشرے میں رہنا ہے جہاں اس ٹرینڈ کو  بنانے والی جونکیں   معاشرتی    اخلاقیات  سے چِمٹ کر   اس معاشرے کو ناسور بنا رہی  ہیں۔
ماضی میں کسی نے کسی کو کیا کہا, پکارا, یا ایسا کچھ کیا اس کو جواز بنا کر ہم موجودہ دور کی یہ بے ہودہ حرکت سے ہر گز  درگزر نہیں کر سکتے۔یہ نفرت اس قدر شدت اختیار کر رہی ہے کہ معاشرے میں سانس لینا دشوار ہوتا جا رہا تھا۔ ہمیں ہماری آنے والی نسلوں کو نفرت سے محفوظ اور اخلافیات اور انسانیت کی قدر کرنے والی روایات والا معاشرہ فراہم کرنا ہے نہ کہ نت نئے بے ہودہ ٹرینڈ والا۔

جس خاتون کے جلسہ گاہ جانے سے خوفزدہ ہو کر یہ ٹرینڈ بنایا گیا,اسکے جلسے  کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں , اس کی دن رات کردار کشی کی گئی ۔ ایک عورت سے اتنا خوفزدہ ہونے والے مرد اتنی گھٹیا حرکتیں  کر کے بھی اس عورت کو جلسہ گاہ تک پہنچنے سے روک نہیں سکے تو پھر کامیاب جلسہ دیکھ کر یقیناً  اپنی مردانگی پر شرمندہ تو ہوئے ہی ہوں گے۔

عورتیں ہر سیاسی جماعت میں موجود ہیں۔۔اورنہ چاہتے ہوئے بھی میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ  اگر آپ کو دوسری سیاسی جماعت کی خواتین بے ہودہ یا “رنڈی ” لگتی ہیں تو یقیناً  آپ کی من پسند جماعت کی خواتین بھی آپ کے نزدیک ویسی ہی ہوں گی۔۔ آپ کے لیے نہ سہی پھر آپ کی مخالف جماعت کے لیے  تو وہ کم سے ایسی ہی ہونگی جیسے    القابات سے آپ ان کی جماعت کی خواتین کو  نوازتے ہیں ۔ اور اگر آپ کی جماعت کی خواتین عزت دار ہیں تو پھر دوسری جماعت کی خواتین بھی اتنی ہی عزت رکھتی ہیں۔

نفرت کا کنواں اتنا ہی گہرا کھودنا چاہیے  جتنا آپ خود بھی برداشت کر سکیں۔مخالفت کو عزت کے دائرے میں رہ کر پروان چڑھائیں ۔مرد ہیں تو مرد بن کر دکھائیں۔یہ کیسی مردانگی ہوئی کہ  عورت سے خوفزدہ ہو کر اس طرح کے ٹرینڈ چلا کر اپنا مرد ہونا ثابت کرتے پھر رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بحیثیت عورت میں نے آج تک عام سا لفظ بھی جو گالی تصور کیا جاتا ہو اپنی زبان سے ادا نہیں کیا۔مگر آج اس لفظ کا ذکر کرنا اس لیے  بھی ضروری تھا کہ  تمام سیاسی جماعتوں کو بتا دیا جائے کہ  اس طرح کی حرکات نا پسندیدہ ہیں،اور عوام نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ماضی میں ہم موجود نہیں تھے ہم نے نہیں دیکھا کچھ، ہاں اگر کچھ بُرا ہوا تھا تو وہ آج بھی اُتنا ہی بُرا اور قابلِ مذمت سمجھاجائے گا۔ہم حال میں موجود ہیں ،اور جو آج بُرا ہورہا ہے،اُسے برا ہی سمجھا جائے گا ،اور اُتنا ہی قابلِ مذمت بھی۔تاکہ مستقبل میں ہماری نسلیں اس گھٹن  اور نفرت کی فِضا  اور گھٹیا اختلافات کے ماحول میں   آنکھ نہ کھولیں  بلکہ مکالمہ اور اخلاق سے مخالف کو زیر کرنے کی ہمت رکھے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply