پہلا شہید کربلا ” حر بن ریاحی” داستانِ حریت۔۔۔منصور ندیم

سیاہ رات کی بڑھتی ساعتوں میں لمحہ لمحہ تیرگی اترتی ہی جا رہی تھی، کروٹیں بدل بدل ، نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی، وہ گہری سوچ میں غلطاں متفکر و بےچین ہورہا تھا ۔ یہ مضمحل کیفیت ایسے نہ تھی، وہ اپنے قبیلے کے مشہور ترین بہادر جنگجوؤں میں سے تھا، کئی جنگی میدانوں میں دادِ شجاعت لے چکا تھا، مگر آج دل گرفتہ حالت میں تھا، قریب لگے خیموں میں معصوم بچوں کے بھوک اور پیاس سے رونے اور بلکنے کی آوازیں آرہی تھیں، اور اسی لمحے چند دن پہلے اسی قافلے سے ہونے والی پہلی ملاقات کا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے چلنے لگا،

جب قافلہ اباعبداللہ نے مقام زبالہ سے کوچ کا ارادہ کیا تو اباعبداللہ کے حکم پر ان کے قافلے والوں نے وافر مقدار میں پانی کا ذخیرہ اپنے ساتھ لے لیا تھا، ایک بہت بڑی تعداد میں پانی سے بھرے مشکیزے اونٹوں پر لادے وہ قافلہ آہستہ آہستہ اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا تھا کہ جب بیچ راہ یہ بھی اپنے تھکے ماندے لشکر کے ساتھ اس صحراء میں انہیں جا پہنچا تھا کہ انہیں دور سے دیکھتے ہی اس قافلے کے ایک شخص ںے نعرہ تکبیر بلند کیا، تو قافلے کے امیر اباعبداللہ نے بھی تکبیر کے الفاظ دہرائے اور تکبیر بلند کرنے کی وجہ پوچھی، جوابا اس شخص نے کہا کہ غور سے دیکھو کچھ دکھائی دے رہا ہے ؟

اسی اثناء میں اس کا لشکر قریب پہنچ گیا تھا، انہیں دور سے قافلے سے ہلکے لہجوں میں یہ آواز سنائی دی ،
ہمیں تو گھوڑوں کی کچھ گردنیں دکھائی دے رہی ہیں، اس کے قافلے کے سوار اور گھوڑے پیاس سے شدید نڈھال تھے، اور شدت تشنگی سے تمام لشکری سواروں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں، اس قافلے کے امیر سے یہ منظر دیکھا نہ گیا، امیر نے حکم دیا کہ ان کو سیراب کرو، اور ہاں ! دیکھنا کہ ان کے گھوڑے بھی پیاسے نہ رہ جائیں۔

آنے والے قافلے کے افراد نے اس پانی سے جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے اس کے تمام لشکر کے افراد کو پانی پلایا اور پھر پانی سے بھرے برتن گھوڑوں کے سامنے رکھ دئیے یہاں تک کہ گھوڑے بھی سیراب ہوگئے۔

اس کے لشکر کاایک فرد علی ابن الطعان بھی تھا جو اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ گیا تھا جب وہ بعد میں پہونچا تو تمام لشکر والے اپنے گھعڑوں سمیت پانی سیراب ہو چکے تھے اور اس پر پیاس کاشدید غلبہ تھا جیسے ہی اباعبداللہ نےعلی ابن العطان کی یہ حالت دیکھی تو پانی کی مشکوں سے لدے ایک اونٹ کی طرف اسکی رہنمائی رہنمائی کئی اور کہا
” جاؤ ! اور اس اونٹ کو بٹھا کر اس سے پانی اتار کر پی لو۔

علی ابن العطان اونٹ کے قریب گیااور اس کو بٹھا کر پانی اتار کر جیسے ہی پینا چاہتا تھا کہ پانی منھ سے نکل کر زمین پر بہنے لگا، ابا عبداللہ نے یہ منظر دیکھا تو بنفس نفیس خود قریب آئے اور مشک کو اپنے ہاتھوں سے پکڑا اور پانی پلانا شروع کیا یہاں تک کہ وہ سیراب ہوگیا۔

عجیب معاملہ ہوگیا تھا، جن کے لئے وہ لشکر لے کر آئے تھے ان سے ہی مدد کے طالب ہوئے اور اب پانی پی کر آرام کرنے لگے یہاں تک کہ نماز ظہر کاوقت ہوگیا۔ اب اسکے پاس اپنی بات کے لئے سخت لہجے کا کوئی امکان باقی نہ رہ گیا تھا تو کچھ تہذیب کا مظاہرہ کرنے کے لئے خاموش ہی رہا ۔
ظہر کاوقت ہوچلا تھا ، آنے والے قافلے کے امیر نے مؤذن حجاج بن مسروق جعفی سے کہا کہ:
اذان دو! پھر اس کے بعد اس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا
کیا تم اپنے لشکر کے ہمراہ نماز پڑھو گے؟

کیسا امتحان آن پڑا تھا، جہاں وہ لشکر لے کر جن دشمنوں کے لئے چلا تھا انہوں نے ہی پانی پلا کر اور اپنے اخلاق سے اسے ہر بدتہذیبی سے روک لیا تھا، اب کہنے کو کچھ نہیں رہ گیا تھا، اس لئے نرم لہجے میں اس نے قافلے کے امیر کو جواب دیا ،
یا اباعبداللہ! میں تو آپ کی معیت میں ہی فریضہ ظہر ادا کروں گا۔

یہ ادب ہی تو تھا کہ جو وہ نماز جس کو وہ اباعبداللہ کی اقتداء میں پڑھنا چاہتا تھا در حقیقت باب رحمت کھلنے کا سبب بن گیا، غرض تمام لشکر نے ابا عبداللہ کی اقتداء میں نماز پڑھی پھر اس کے بعد اباعبداللہ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا، یہاں تک کہ نماز عصر کا وقت ہو گیا پہلے کی مانند پھر اس نے ابا عبداللہ کی اقتداء میں نماز عصر ادا کی، نماز سے فراغت کے بعد اباعبداللہ اور اس کے درمیان گفتگو کا آغاز ہوا ،ابا عبداللہ نے کہا کہ میں اپنے شہر واپس چلا جاؤں گا، لیکن اس کی جانب سے مسلسل یہ اصرار تھا کہ میں آپ کو اپنے ساتھ لے جانے کے لئے مامور ہوا ہوں، ابا عبداللہ نے اس کے اس سخت رویئے کو دیکھتے ہوئے کہا،

“ثکلتک امّک ” ترجمہ : تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے ! آخر تو مجھ سے کیا چاہتا ہے ؟

وہ یہ جملہ سن کر کچھ دیر تو خاموش رہا پھر اس کے بعد اس طرح گویا ہوا،
“اما واللہ لو غیرک من العرب یقولھا لی و ھو علی مثل تلک الحالۃ الّتی انت علیھا ما ترکت ذکر امّہ باثکل ان اقولہ کائناً ما کان و لکن واللہ مالی الی ذکر امّک من سبیل الّا باحسن ما یقدر علیہ”

ترجمہ: خداکی قسم! اگر آپ کے علاوہ کوئی عرب شخص مجھے یہ جملہ کہتا اور وہ ایسی حالت میں ہوتا جس میں آپ ہیں میں اس کی ماں کا تذکرہ انہی الفاظ میں کرتا لیکن خدا کی قسم ! آپ کی ماں بڑی عظیم المرتبت ہیں اور مجھے حق نہیں کہ ان کو ذکر خیر کے علاوہ یاد کروں۔

نماز کے بعد یہ دوسرا موقعہ تھا کہ جب اس نے دامن تہذیب کو اپنے ہاتھوں سے جانے نہ دیا تھا اور یہ ظاہر کر دیا کہ رحمت الٰہی کا ایک اور مخصوص دروازہ اس عظیم المرتبت ماں کے احترام کے سبب اس پر کھلا ہے۔

اچانک وہ دور خیموں سے پیاس سے روتے بچوں کی “العطش العطش” کی آوازوں سے یادوں کے تسلسل سے لوٹ آیا، یہ شخص حرّ بن یزید بن ناجیہ بن قَعْنَب بن عَتّاب بن حارث بن عمرو بن ہَمّام بن بنو ریاح بن یربوع بن حَنْظَلَہ قبیلہ تمیم کے زمانہ جاہلیت کے بزرگ خاندان سےتعلق رکھنے والے روساء میں سے تھا، حُر بن یزید ریاحی ابن زیاد کے اُن چار کمانڈر میں شامل تھا جنہیں نواسہ رسول امام حسین کا راستہ روکنے اور بیعت پر مجبور کرنے کے لئے عبیداللہ ابن زیاد نے اپنے دستوں کے ساتھ بھیجا تھا۔ ابنِ زیاد نے حر ابنِ ریاحی کو خراسان کی حکومت کی پیشکش کررکھی تھی اور شرط یہ رکھی تھی کہ امام حسینؑ کو کوفہ آنے سے روکو اور یزید کی بیعت پر راضی کرو۔ حر ابنِ ریاحی نے ہی سب سے پہلے ایک ہزار کے دستے کے ساتھ ساتھ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا راستہ روکا تھا، بعد میں باقی تین کمانڈر تین ہزار افراد کے دستوں کے ساتھ اس کے لشکر میں شامل ہوئے تھے۔

یہ وقت اسلامی تاریخ کا انتہائی نازک موڑ تھا۔ امیر معاویہ کے انتقال کے بعد یزید کی پوری توجہ اس طرف تھی کہ ان لوگوں سے بیعت لے جنہوں نے اس کی ولی عہدی کی بیعت سے امیر معاویہ کے زمانے میں انکار کیا تھا۔ اس وقت مدینہ میں ولید بن عتبہ بن ابوسفیان گورنر تھا۔ جس کو یزید نے ایک خط میں لکھا کہ بلاتاخیر حسین ؑبن علیؑ، عبداللہ ؓبن عمر اور عبداللہ ؓبن زبیر سے بیعت لو۔ ”

وقت گذرتا گیا، امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے قافلے کو نہ ہی واپس جانے دیا گیا، بلکہ بالآخر انہیں کربلا کے مقام تک لایا گیا جہاں ان کا کھانا اور پینے کے لئے پانی تک بند کردیا گیا، یہاں تک کہ آج شب عاشور آن پہنچا تھا اور خیمِہ حسین سے بچوں کے رونے کی آوازیں حر اور اس کے بیٹے کو بے چین کررہی تھیں۔ حُر بن ریاحی نے جب بعد میں آنے والے لشکر میں کمانڈر عمر بن سعد کو رعونت و تکبر کے ساتھ اپنے سپاہیوں کو یہ حکم دیتے سنا تھا کہ تھا میرے گھوڑوں کے سموں پر پانی ڈالو، گرمی کی شدت سے کہیں یہ جل نہ جائیں۔ اور ایسے وقت میں امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ پر پانی بند کیا جا چکا تھا اور ان کے خیموں سے پیاس کی شدت سے رونے والے بچوں کی آوازوں نے حر کے دل میں تلاطم برپا خیز کیا ہوا تھا۔

ہاں یہی وہ وقت تھا کہ جب حر شدید بے چین اور مضمحل اس پریشانی میں مبتلا تھا :
اور سوچ رہا تھا کہ ہائے! یہ میں نےکیا کردیا ہے؟
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے، علی و فاطمہ کے بیٹے کو میں نے آج کس مقام تک لا پہنچایا ہے؟
ضمیر کے کچوکے اسے سخت پشیمان کئے ہوئے تھے، عہدے کے لالچ نے مجھے حق و باطل کے درمیان تفریق کرنے کی مہلت تک نہ دی، وہ سوچ رہا تھا کہ
” میری ہی وجہ سے سے امام حسین کی راہ کھوٹی ہوئی، میں نے ہی قافلے کو گھیراؤ کرکے یہاں تک پہنچایا، ان کی بھوک اور پیاس کی وجہ آج میں ہی ہوں ، وہ شدید شرمندہ اور شرمسار ہوا، بس یہی وہ لمحہ تھا جب حُر نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا، جیسے باطل سے حق کی طرف سفر کا فیصلہ کرچکا ہو، باوجود اس کے کہ عمر ابن سعد نے حر کے منصب میں اضافہ کر دیا تھا لیکن اس کے اندر حق و باطل کی جنگ اور ایک عجیب و غریب نور معنوی پیدا ہو گیا تھا۔

عام عاشور کا سورج طلوع ہو چکا تھا، چار ہزار کے لشکر کے سامنے نے نواسہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا قافلہ موجود تھا۔ لشکر آمنے سامنے موجود تھے، حر کے دل میں ایک عجیب کشمکش جاری تھی اس نے چاروں جانب نظریں دوڑائیں۔ ایک طرف یزیدی فوج میں ہزاروں کا مجمع تھا۔ اور اب اسے فیصلہ کرنا تھا کہ مٹھی بھر لشکر کا ساتھ دے کر جاہ ہو حشم کو ٹھکرانا ہے یا جابر و عیاش حکومت سے زندگی کے چند دنوں کی خوشیاں سمیٹنی ہیں۔

حُر نے اپنا آخری ارادہ کرہی لیا اور ایسے حال میں دنیا اور دنیا کی چمک دمک کو پس پشت کیا، چنانچہ اپنے گھوِڑے کو پانی دینے کے بہانے لشکر یزید سے دور سے دور تر ہوئے اور خیمہ امام حسین کے قریب جارہے تھے، اس وقت “مہاجر بن اوس” حُر کے ہمراہ تھا۔ پوچھنے لگا: “کیا سوچ رہے ہو؟ کیا حسین پر حملہ کرنا چاہتے ہو؟”۔ حُر نے جواب نہ دیا اس وقت حر کا پورا بدن کانپ رہا تھا۔ مہاجر بن اوس نے کہا:
“خدا کی قسم کہ میں نے کبھی بھی تمہیں اس حال میں نہیں دیکھا ہے۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھتا کہ کوفہ کا دلیر ترین مرد کون ہے تو میں تمہارا نام لیتا”۔
حُر نے جواب دیا:
“واللہ میں اپنے آپ کو جنت اور دوزخ کے درمیان دیکھ رہا ہوں اور اگر میری جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کئے جائیں اور مجھے جلا دیا جائے تو بھی کسی چیز کو جنت پر ترجیح نہیں دوں گا”۔ اس کے بعد حُر نے گھوِڑا دوڑایا اور خیمہ حسین کے پاس پہنچ گیا۔

جب حر خیمہ امام حسین کی طرف جا رہے تھے تو یزیدی لشکر کے ایک سپاھی یزید بن سفیان تیمی نے کہا تھا کہ “بخدا اگر میں حُر کو دیکھ لیتا اس وقت جب وہ لشکر سے نکل کر جارھا تھا تو ایک نیزے میں اُسکا کام تمام کردیتا’.

حرّ ایسے احساسات اور جذبات کے ساتھ خیمہ نواسہ ِرسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے قریب پہونچ کر گھوڑے سے اترا، بوجھل قدموں کے ساتھ چل رہا تھا، سر سے کپزا اتار دیا، اپنے دونوں ہاتھوں کو پس گردن باندھ لیا اور امام حسین رضی اللہ تعالی عنہہ کے قریب پہونچ کر اپنے آپ کو زمین پر گرا دیا اور روتے روتے خاک پر لوٹنے لگا اور دعا کے یہ فقرے حر کی زبان پر جاری تھے ۔

“اللھم الیک انبت فتب علی ”
ترجمہ: خدایا! میں تیری بارگاہ میں معافی کاطلبگار ہوں کہ میری توبہ کو قبول فرما۔

“فقد ارعبت قلوب اولیائک و اولاد بنت نبیک ”

ترجمہ : میں نے تیرے خاص بندوں کے دلوں کو دکھایا ہے اور تیرے نبی کی بیٹی کےلخت جگر کا دل دکھایاہے ، امام حسین نے جب حر کی یہ حالت دیکھی تو فرمایا:

“ارفع راسک ”
ترجمہ: حرّ اپنے سر کو اٹھاؤ !

اس نے بصد شرمندگی عرض کیا:
اے ںواسہ رسول! میں وہ شخص ہوں کہ جس نے آپ کو مدینہ واپس جانے نہیں دیا اور آپ پر تمام راستوں کو بند کردیا، کیا واقعاً میرے جیسے گنہگار کے لئے بھی توبہ کی گنجائش ہے؟

امام حسین نے اسے بازوؤں میں سمیٹتے ہوئے کہا فرمایا:
” نعم ،یتوب اللہ علیک ”
ترجمہ: ہاں تمہارے لئے بھی امکان توبہ ہے اپنے سر کو زمین سے اٹھاؤ اللہ نے تمہاری توبہ کو قبول کرلیا ہے۔

اب معافی کا پروانہ نواسہ رسول سے مل چکا تھا، حر اپنے بیٹے اور غلام کے ساتھ قافلہ امام حسین کا حصہ بن چکے تھے، اب حر امام حسین سے یزیدی فوج کے خلاف لڑنے کی اجازت مانگ رہے تھے، ۔ امام حسین نے کہا کہ
“حرؑ تم ہمارے مہمان ہو۔ تمہیں اپنے لیے مرنے کی اجازت کس طرح دے سکتا ہوں؟ “

حرؑ اصرار کررہے تھے کہ آپ کو اس حال تک میں لایا ہوں اب موقع دیں کہ سب سے پہلا تیر دشمنوں کی جانب میرا ہو۔ امام حسین سے اجازت ملنے کی دیر تھی کہ اب حُر تن تنہا اتنے بڑے لشکر کے مقابلہ میں جنگ لڑنے کے لئے اپنا رخ یزیدی لشکر کی طرف موڑ چکے تھے اور آگے بڑھ بڑھ کر تلواریں چلارھے تھے اور لڑنے کے ساتھ ساتھ عنترہ ابن شداد (زمانہ جاہلیت کا شاعر) کا یہ شعر انکی زبان پر تھا کہ

“ماذلت ارمیهم بثغرةنحره
ولبانه حتی تسر بل بالدم”
ترجمہ : یعنی میں برابران پرپھینکتارھااپنے
گھوڑے کی گردن اور اسکے سینہ
کو یہاں تک کہ اس گھوڑے نے سر
سےپاؤں تک خون کی چادریں اوڑھ لیں”

اور یہ شعر حقیقتًا انکے حسبِ حال تھا کیونکہ انکا گھوڑا زخمی ھوچکا تھا.اس وقت حصین بن تمیم نے جو قادسیہ کی ناکہ بندی پر مامور فوج کا افسر تھا یزید بن سفیان سے کہا کہ
“دیکھو حُر یہی تو ہے جس کے قتل کرنے کی تم آرزو رکھتے تھے.
اس نے کہا اچھا یہ کہہ کر وہ باھر نکلا اور پکارا!
حُر کیا مقابلہ منظور ھے؟
حُر نے کہا :
ہاں ضرور!
اور یہ کہتے ہی سامنے آگئے خود (تاریخ کی کتابوں میں) حصین کا قول نقل کیا جاتا ھے کہ بس یہ معلوم ہوا جیسے یزید کی جان حُر کے قبضہ میں تھی.چنانچہ وہ دم کے دم میں قتل ہوگیا.یہ ایسا پرہیبت منظر تھا کہ دشمن کا ناطقہ بند ھوگیا اور حُر کے مقابلہ میں پھر کوئی نہ نکل رہا تھا. تب عمر ابن سعد نے یکبارگی حملہ آور ہونے کا حکم دیا، یکبارگی حملہ آوروں سے آخرکار حر اپنے گھوڑے سمیت بری طرح زخمی ہوچکا تھا گھوڑے کو اپنے مرکز کی طرف واپس کرتے ہوئے زخموں کی شدت سے گرگیا، اصحاب امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کے زخموں سے چور چور بدن کو زمین سے اٹھایا اور قریب خیمہ لا کر امام کے سامنے رکھ دیا، امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ حر کے سرہانے بیٹھ گئے اور ان کے خون آلود رخسار پر اپنا دست مبارک پھیرا چہرے سے غبار کربلا کو ہٹایا اور یہ جملہ فرمایا:

“انت الحرّ کما سمتک امّک حرّاً فی الدنیا و سعید فی الآخرۃ ِ

ترجمہ : اے حُر تم اس دنیا میں بھی حُر تھے اور آخرت میں بھی حر رہو گے، بالکل اُسی طرح جیسے تمہاری ماں نے تمہارا نام حُر رکھا۔ اس کے بعد اپنی ماں سیدہ فاطمہؑ کا رومال حُر کی پیشانی پر باندھ کر ہمیشہ کے لیے حُر کی حریتؑ پر حسینی مہر لگا دی۔ حُر بن ریاحی کو اسی رومالِ زہراؑ کے ساتھ دفنایا گیا۔

جناب حر بن ریاح نے جام شہادت کے درجے پر پہنچنے والے کربلا کی زمین کو اپنے خون سے رنگنے والے پہلے کربلائی شہید بنے ۔ اور رہتی دنیا تک حق وباطل کے درمیان حریت کا استعارہ بن گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ: اس مضمون کے لئے جن کتب اور ریفرنسز سے مدد لی گئی ، طوالت  مضمون کی وجہ سے کتب کا حوالہ نہیں لکھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply