پچھلے ایک مہینے سے وہ تراویح میں قرآن پاک سنا رہا تھا۔ابھی دو دن پہلے ہی ستائیسویں کی مبارک رات کو اس نے ختم قرآن کیا۔ سب بہت خوش تھے۔اس کے گھر والے اسے اپنی سعادت اور خوش بختی سمجھ رہے تھے۔ اس نے اپنے والدین کو اینڈرائڈ فون لینے کی خواہش کا اظہار کیا تو اسکے ابو فون لے آئے۔
دو دن بعد انتیسویں روزے کی افطاری کی اور حسب معمول مسجد میں نماز ادا کرنے چلا گیا،نماز ادا کی۔آج وہ بہت خوش تھا کہ آخری تراویح تھی۔نماز کے بعد کسی کام کے سلسلے میں بائیک پہ پڑوسی گاؤں روانہ ہوگیا۔
ابھی بمشکل دس منٹ ہی گزرے تھے کہ اطلاع ملی کہ حافظ جنید کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے اور بری حالت میں ہوسپٹل لے جایا جارہا ہے۔ابھی حالات کو سمجھنے کی کوشش ہی کی جارہی تھی کہ فون پہ میسج آتا ہے
“حافظ جنید اس دنیا میں نہیں رہا”۔
انااللہ واناالیہ راجعون۔
یہ روداد ہے میرے بھتیجے کی یہ روداد ہے ایک ماں کے اس چاند جیسے بیٹے کی جو چاند رات کو اپنے خالق ِ حقیقی سے جا ملا۔
وہ سو کے لگ بھگ لوگ اپنے گھر عید منانے کے لئے ایک بجے لاہور ائیرپورٹ سے PIA کے جہاز میں بیٹھ کے کراچی روانہ ہوئے۔ دو بج کر پینتالیس منٹ پہ انہیں کراچی پہنچنا تھا۔ صرف ایک منٹ باقی تھا ۔وہ سب خوش تھے کہ اپنی فیملیز سے ملنے والے تھے۔ ان کی آنکھوں میں خوشی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ ان کے گھر والے ائیرپورٹ پہ خوشی خوشی انکا انتظار کر رہےتھے،مسکرا رہے تھے۔ مائیں اپنے بچوں کو بوسہ دینے کے لئے بے تاب تھیں۔ بچے اپنے والدین کو گلے لگانے کے انتظار میں تھے۔ بہنیں اپنے بھائیوں کی راہ تک رہی تھیں۔ لیکن اچانک وہ خوشی ماتم میں بدل گئی ،وہ انتظار ہمیشہ کا انتظار بن گیا۔وہ آنکھیں جس میں خوشی کے آنسو تھے غم سے بھر گئیں۔ جہاز میں خرابی سے لینڈنگ کے دوران جہاز کریش ہوگیا۔وہ چہرے جو ایک منٹ پہلے مسکرا رہے تھے اب جھلس چکے تھے۔۔97 افراد ایک لمحے میں لقمہ اجل بن گئے۔
اللہ شہدا کے گھر والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے
آمین۔۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا میں 55.3 ملین لوگ ہر سال ،151600 لوگ ،ایک گھنٹے میں، 105 لوگ ایک منٹ میں جبکہ ہر ایک سیکنڈ بعد دو لوگ اس دنیا کو چھوڑ کر انتقال کر جاتے ہیں۔
یہی حقیقت ہے زندگی کی۔۔بہت تلخ، عارضی ،بہت بے رحم!
کون جانتا ہے کہ کس لمحے کس جگہ آپ کے پیارے آپ کو چھوڑ جائیں ۔ جانے کس سیکنڈ آپ اس فانی جہان سے ایک ہمیشہ رہ جانے والے جہان کی طرف چل پڑیں ۔کوئی نہیں جانتا۔
لیکن فکر کا مقام یہ ہے کہ اس حقیقت کو جاننے کے باوجود ،ہمارا اس پہ ایمان ہونے کے باوجود ہم اس دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ لیتے ہیں،اور اس دنیا کی کامیابی کے لئے ہم دن رات، صبح شام جائز و نا جائز ،حق اور سچ، حلال اور حرام ،اچھے اور برے کی تمیز کیے بِنا دوسروں کے حقوق پاؤں تلے روندتے ہوئے آگے بڑھتے رہنے کی جستجو میں ہیں۔
ہماری اسی سوچ کی وجہ سے ہمارا معاشرتی نظام تباہ و برباد ہورہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جھوٹ،رشوت خوری، ظلم و زیادتی،حق تلفی،بے حیائی اور زنا جیسی تمام برائیاں اس طرح سرایت کر چکی ہیں کہ ان سے بچنا ناممکن ہے۔
طاغوتی عناصر نے ہماری ایمانی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے اس خوبصورتی کے ساتھ یہ چیزیں ہم میں شامل کی ہیں کہ ہمیں ان کے برا ہونے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ نہایت خوبصورتی سے انہیں ہماری روایات کا حصہ بنا دیا گیا۔ہمیں دینی احکامات سے دور کردیا گیا۔ ہماری مذہب سے محبت ختم کردی گئی ۔ہم بس نام کے مسلمان ہو کے رہ گئے،اخلاقی گراوٹ کا یوں شکار ہوئے کہ ہمیں تہذیب کی مثال دینے کے لئے انہی ملکوں کا نام لینا پڑتا ہے جنہوں نے ہمیں اس مقام تک گرایا۔
ہمیں ان حقائق کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ہمیں انفرادی و اجتماعی طور پہ اس کو رد کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس کے لئے یہ وبا ایک بہترین موقع بن سکتی ہے۔ آج کل ہم میں سے ہر کوئی گھروں میں محصور ہے، مصروفیات ختم ہو کر رہ گئی ہیں۔ فارغ وقت ہمیں میسر ہے۔ہمیں اس فارغ اوقات میں اسلام کو پڑھنا اور سمجھنا اپنے اوپر فرض کر لینا چاہیے ۔اسی کیساتھ ساتھ ہمیں اپنی روایات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ہمیں تاریخ پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں آج سے کچھ سال پہلے کا اپنا مقام اور آج کے مقام کے فرق کو سمجھنے کیساتھ ساتھ ان وجوہات کو بھی سمجھنا ہے جسکی وجہ سے ہم اس پستی تک پہنچے ہیں کیونکہ مسائل کی اصل کو سمجھے بنا انکا تدارک ممکن نہیں۔
جس طرح انفرادی حیثیت میں یہ ہماری ذمہ داری ہے وہیں حکومت وقت کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جو ہمیں اپنے اصل کی پہچان کروائیں۔ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کے حکم پہ مسلمانوں کی تاریخ پہ مبنی ترکش ڈرامہ ارتغرل کو اردو زبان میں نشر کرنا اور گورنر پنجاب چوہدری سرور کی طرف سے صوبے کی تمام یونیورسٹیوں میں قرآن پاک با ترجمہ پڑھانا لازمی قراردینا اس سلسلے میں بہترین اقدام ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانےکا دعوی کرنے والی یہ حکومت مزید ایسے اقدامات کرے گی جو اسلام اور پاکستان کے لئے مفید ثابت ہوں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں