ہے خبر گرم اُن کے آنے کی۔۔۔۔۔۔حسن رضا چنگیزی

گرما گرم خبر یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں سعودی عرب کے شہر جدہ شریف میں ایک بہت بڑا موسیقی کا بین الاقوامی کنسرٹ ہونے جا رہا ہے جس میں ہسپانوی نژاد امریکی گلوکارہ نکی مناج، برطانوی گلوکار لیام پین اور کورین پاپ گروپ کے علاوہ بعض دیگر بین الاقوامی فنکار اپنی دلربا اداؤں اور ہوش ربا فنون کا مظاہرہ کریں گے۔ یہ ایک ایسی خبر ہے جس نے پوری دنیا خصوصا ًمسلمان ممالک کے باسیوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ پاکستان میں تو اس خبر نے ایک کھلبلی سی مچادی ہے۔ ایک جانب ان لوگوں کی اکثریت ہے جو نہ صرف شرعی بلکہ سیاسی لحاظ سے بھی سعودی عرب کو اپنا قبلہ تصور کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ سعودی عرب روئے زمین پر وہ مقدس ترین جگہ ہے جہاں خانہ کعبہ اور مسجد نبوی جیسے متعدد مقدس مقامات موجود ہیں اس لیے وہاں رقص و موسیقی کے نام پر کسی بھی قسم کی بیہودگی، بے حیائی اور غیر اسلامی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ جبکہ دوسری طرف ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو سیاسی اور مسلکی اختلافات کی بنا پر سعودی حکمرانوں کی “اصلاحات” پر بھپتیاں کس کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر رہے ہیں۔

جہاں تک سعودی حکمرانوں کا تعلق ہے تو “شیر کی مرضی کہ وہ بچہ دے یا انڈا” کے مصداق انہیں نہ کسی کی ناراضیوں کا ڈر ہے نہ کسی کی جگتوں سے سروکار۔ اگر انہیں پروا ہے بھی تو ان اصلاحات کی  جن کے بل بوتے پر وہ سعودی معاشرے کو بظاہر ایک “کھلے پن” کی طرف لے جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔

مصنف:حسن رضا چنگیزی

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تاریخی اور بہت بڑے کنسرٹ کی مخالفت کرنے اور بھپتیاں کسنے والوں کو سب سے بڑا اعتراض نکی مناج کی شمولیت پر ہے۔ حالانکہ جس طرح قبلاً ذکر کیا جا چکا ہے، مجوزہ کنسرٹ میں برطانوی اور کوریائی گلوکار بھی اپنے فن گلوکاری اور رقص کا مظاہرہ کریں گے۔ لیکن بوجوہ ان کا نام بہت ہی کم لوگوں کی زبان پر ہے۔ اور وجہ یہ ہے کہ نکی مناج کے بارے میں یہ تاثر پھیلایا گیا ہے کہ وہ سٹیج پر نہ صرف “نامناسب” اور “غیر شرعی” لباس زیب تن کرتی ہیں بلکہ بڑے بے باک اور “ہیجان خیز” طریقے سے ٹھمکے لگاتی ہیں۔ حالانکہ میڈونا، لیڈی گا گا، شکیرا، بیونسے اور ریحانہ سمیت مغرب کی تمام پاپ گلوکارائیں اسی بے باکی اور ہیجان خیز طریقے سے اپنے فن کا مظاہرہ کرتی ہیں۔

سچ پوچھیے تو ہمیں سعودی حکمرانوں کی یہ ادا از حد پسند آئی۔ اس پسندیدگی کی وجہ یہ ہے کہ ابھی پچھلے سال ہی سعودی شہزادے محمد بن سلمان نے (جنہیں ان اصلاحات کا ماسٹر مائنڈ تصور کیا جاتا ہے) اعتراف کیا تھا کہ

“سعودی عرب نے اسی اور نوے کی دہائی میں وہابیت پھیلانے کی غرض سے اپنے مغربی اتحادیوں کے کہنے پر سمندر پار مدارس کا جال بچھایا تھا”۔

یہ اعتراف یقیناً پاکستان سمیت خطے میں قائم ان مدارس کے بارے میں تھا جنہوں نے افغانستان میں امریکی جہاد کے لیے نرسریوں کا کردار ادا کیا اور جب کافر امریکہ کامیابیاں سمیٹنے کے بعد ہاتھ جھاڑ کر یہاں سے چلا گیا تب آدم بو کا ورد کرنے والے خون آشام “جہادی” اپنوں کے چیتھڑے اڑانے لگے۔ نتیجتاً انہوں نے جہاد کے نام پرافغانستان سے لیکر مشرق وسطیٰ اور افریقہ تک جتنے لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی اور جتنے لوگوں کو بے خانماں کیا، اس کا اندازہ شاید ہی کوئی لگا سکے۔

اسی لیے جب ہم نے سعودی عرب کے شہر جدہ میں پہلی بار ایک “عظیم الشان” محفل موسیقی کی خبر سنی تو یقین جانیے کہ ہمیں از حد خوشی ہوئی اور شاید زندگی میں پہلی بار ہمیں سعودی حکمرانوں پر پیار آیا۔ ساتھ ہی یہ سوچ کر دل میں ایک ہوک سی اٹھی کہ کاش سعودی عرب چالیس سال قبل ان اصلاحات کا آغاز کرتا تو یوں لاکھوں لوگ سیاست اور منافرت کی بھینٹ چڑھ کر اپنی جانوں سے ہاتھ نہ دھوبیٹھتے ۔۔ نہ ہی لاکھوں لوگوں کو اپنی جان اور ناموس کے تحفظ کی خاطر گھربار چھوڑ کر “غیروں” کے دیسوں میں در بدر کی ٹھوکریں کھانی پڑتیں۔ کاش نفرت پھیلانے کے بجائے سعودی عرب کئی دہائیاں قبل ایسے ہی میوزک کنسرٹس کا انعقاد کرتا۔

کاش ان کے مولوی قتل کے فتوے صادر کرنے کے بجائے اسی طرح خوشیاں منانے کی ترکیبیں نکالتے۔ کیوں کہ ہم نے کبھی نہیں سنا کہ کسی طبلہ، ڈھولک، ڈھول، کانگو، ڈرم، تنبک یا زیر بغلی کے پھٹنے سے کسی کی جان چلی گئی ہو۔ ہم نے یہ بھی کبھی دیکھا نہ سنا کہ کسی گٹار، ستار، رباب، دمبورہ، وائلن، چیلو، سارنگی، سرود ، بینجو، مینڈولین یا وینا نے دلوں کے تار چھیڑنے کے بجائے کبھی کسی کی زندگی کی ڈور کاٹی ہو، ہمیں کبھی کوئی ایسی خبر بھی نہیں ملی کہ بانسری، نئی، شہنائی، کلارنیٹ، سیکسوفون، الغوزہ، ٹرمپٹ، بین، بیگ پائپ یا پین فلوٹ سے سُروں کے بجائے گولیاں نکلی ہوں۔ ہم اس خبر سے بھی ہمیشہ محروم رہے کہ کبھی کسی ہارمونیم، پیانو یا اکارڈین کا سُر دبانے سے کوئی دھماکہ ہوا ہو۔ ہمیں کبھی کہیں سے ایسی اطلاع بھی نہیں ملی کہ کسی گیت کار نے قتل کی سینچریاں بنانے پر خوشی کے ترانے لکھے ہوں۔ ہم اب تک ایسے کسی گلوکار کے نام سے بھی نا آشنا ہیں جس نے اپنے گانوں میں کسی کے قتل کے فتوے صادر کیے ہوں۔ ہم ایسے کسی موسیقار کو بھی نہیں جانتے جس نے موسیقی کے سُروں سے کھیلنے کے بجائے انسانوں کے سروں سے فٹبال کھیلی ہو۔ حتیٰ کہ ہم کسی ایسے رقاص کے نام سے بھی مکمل لاعلم ہیں جس نے ٹھمکے لگا کر درجنوں افراد کو “شہید” کردیا ہو۔

ہے خبر گرم ان کے آنے کی۔۔۔۔۔۔۔

لیکن کاش یہ خبر ہم کئی دہائیاں قبل سنتے! کیونکہ ایک بات طے ہے کہ منافرت پھیلانے، قتل و قتال کے فتوے صادر کرنے، معصوم لوگوں کے سروں اور سینوں میں گولیاں اتارنے، معصوم بچیوں اور عورتوں کو سربازار نیلام کرنے اور جسموں پر بم باندھ کر مجمعوں میں پھٹنے کی نسبت موسیقی سننا، بجانا، گیت گانا، جھومنا اور رقص کرنا زیادہ احسن اور انسانی کام ہے۔

تازہ ترین خبر یہ ہے کہ نامناسب لباس پہننے اور ہیجان خیز رقص کرنے والی “نکی نے سعودی عرب میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر احتجاج کرتے ہوئے مجوزہ کنسرٹ میں شرکت سے معذوری ظاہر کی ہے”۔

صلاح کار کجا و من خراب کجا

Advertisements
julia rana solicitors

ببین تفاوت ره کز کجاست تا به کجا!

Facebook Comments

حسن رضا چنگیزی
بلوچستان سے تعلق رکھنے والا ایک بلاگر جنہیں سیاسی اور سماجی موضوعات سے متعلق لکھنے میں دلچسپی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply