گلوکار اور نعت خواں جنید جمشید

گلوکار اور نعت خواں جنید جمشید
آج کل جنید جمشید مرحوم کے حوالے سے گلو کار جنید جمشید اور نعت خواں جنید جمشید کے تناظر میں مختلف طبقات میں بحث جاری ہے۔ ایک گروہ اس کو یاد کرتے ہوئے اس کی گلوکاری کاحوالہ ضروری سمجھتا ہے، جب کہ دوسرا گروہ اس حوالے کو گناہ سمجھتا ہے۔اگر جنید جمشید نے اپنی زندگی میں اپنی گلوگاری کے زمانے کی ساری گائیکی کو گناہ سے تعبیر کیا تھا، تو جنید جمشید کا حق ہے کہ اس کا تذکرے میں اس کا حوالہ نہ دیا جائے اور اگر اس نے ساری گائیکی کو جرم یا گناہ قرار نہیں دیا تھا تو اس کی یاد میں اس کا تذکرہ گناہ نہیں۔
جنید جمشید کے انتقال کی خبر پر جب میڈیا اس کی نعتوں کے ساتھ ساتھ اس کا گیت”دل دل پاکستان” بھی چلا رہا تھا تھا، ہمارے بعض دوستوں نے اس پر سخت ناگواری کا اظہار کیا کہ بندہ جس فعل سے توبہ کر گیا ، اس کا ذکر بھی یہ دجالی میڈیا کرنے سے باز نہیں آتا۔ سوال یہ ہے کہ “دل دل پاکستان ” والے گیت میں کون سی برائی ہے کہ اس کے ذکر میں بھی سازش یا اسلام کی مخالفت کے جراثیم ڈھونڈے جائیں۔
جنید جمشید نے اپنے زمانۂ گلوکاری کا ناپسند بھی کیا ہو توان کا حق یہی ہے کہ اس زمانے کو ان کے ساتھ نہ جھوڑا جائے۔لیکن یہ ان کا محض ذاتی حق اور ذاتی موقف ہے، اس سے یہ فرض نہیں ہو جاتا کہ گائیکی اپنی مجموعی حیثیت میں اور ہر حال میں خلاف ِ اسلام اور گناہ فعل ہے، جس کے ساتھ کسی مسلمان کا تعلق اسے لازماً گناہ کی دلدل ہی میں دھکیلتا ہے۔آپ یوں کَہ سکتے ہیں کہ جنید جمشید جس شخصیت سے متاثر ہوئے یا اسلام کا جو ورژن انھوں نے اختیار کیا اس میں گائیکی مطلقاً حرام فعل ہے، نہ کہ یہ کوئی اسلام کا موقف ہے، جس سے اختلاف نہیں ہو سکتا۔اگر ایسا ہی ہو تو ساز و آواز سے متعلق بہت سی ایسی شخصیات بھی اس کی زد میں آئیں گی ، جن کا شمار اولیاء اللہ میں ہوتا ہے، اور مسلمانوں میں بحیثیت مجموعی ان کا اکرام و احترام ایک مسلم امر ہے۔
انسان کہ اندر کسی چیز سے جو فطری لگن ہوتی ہے وہ برقرار رہتی ہے۔ جنید جمشید گائیک تھے، اسلام کے ایک خاص تصور کے زیراثر جب وہ تبلیغی جماعت کے دائرے میں داخل ہوئے، تو اپنی اس فطری لگن کی تسکین کا سامان انھوں نے نعت خوانی میں ڈھونڈا۔میرے نزدیک یہ بھی موسیقی اور گائیکی ہی کی ایک قسم ہے۔اس لیے میرے نقطۂ نظر سے اس فیلڈمیں آکر گلوکار جنید جمشید مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔
مجھے حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پر جن کے نزدیک گائیک جنید جمشید کا تذکرہ لازمی گناہگار جنید جمشید ہی کا تذکرہ ہے، ہاں اس میں اگر اس نے کوئی ایسا گانا گایا ہو جو اسلامی تصورِ حیا کے منافی ہو، تو اس پر گرفت کی جاسکتی ہے،لیکن یہ گرفت تو نعت کے غیر محتاط الفاظ کے معاملے میں بھی ہو سکتی ہے، حتی کے بعض نعت خواں حضرات کے بعض الفاظ کو کفرو گستاخی تک قرار دینے کی مثالیں موجو د ہیں۔
مجھے افسوس ہے ایسی مذہبیت پر جس کا اسلام “دل دل پاکستان “ایسے نغموں پر بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ جس کے نزدیک جنید جمشید کی آبرو بچانے کی واحد صورت یہ ہے کہ ان سےساز اور آواز کے تذکرے کو کلیتاً الگ کیا جائے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply