ہالینڈ کی سائیکل دوست سڑکیں

ہالینڈ کی سائیکل دوست سڑکیں
خالد شاہ
آج سائیکل چلاتے چلاتے سوچا کہ ہالینڈ میں سائیکل فرینڈلی سڑکوں کا ذکر نہ کرنا بہت بڑی زیادتی ہے ایک مدت سے دل میں خواہش تھی کہ اس موضوع پر ضرور کچھ نہ کچھ دوستوں کے گوش گزار کروں پر ہر بار یا تو سُستی ہو جاتی یا پھر کوئی اور شغل آڑے آ جاتا ۔ پر امید ہے اس بار قصہ مختصر ،کر ہی چھوڑنا ہے ۔سائیکل کے لیےبنائے گئے الگ راستے ویسے تو یورپ میں پہلی جنگ عظیم کے وقت ہی بننا شروع ہو گئے تھے اور غالباً ان کی ابتداء جرمنی میں ہوئی تھی مگر ہالینڈ میں اس کا رواج دوسری جنگ عظیم کے بعد پڑا اور یہ رواج ایسا بڑھا کہ آج ہالینڈ چائنہ کے بعد دوسرا سب سے زیادہ سائیکل چلانے والا ملک ہے
یہاں سڑکوں کے ساتھ دائیں بائیں سائیکلوں کے لیے الگ سڑک بنائی گئی ہے جس کا رنگ بھی دوسری سڑک سے مختلف ہوتا ہے اور کئی مقامات پر یہ سڑک بالکل روڈ سے ہٹ کر گاڑیوں کی پارکنگ سے بھی دوسری طرف فٹ پاتھ کے ساتھ ہوتی ہے جس کی وجہ سے سائیکل کو بالکل دوسری ٹریفک سے الگ جگہ دی گئی ہے اس سے سائیکل اور گاڑیوں میں تصادم کا امکان مکمل ختم ہو گیا ہے ۔ وہ سڑکیں جہاں سائیکل کے لیے الگ سے رستہ نہیں ہے ان سڑکوں پر گاڑیوں کی سپیڈ کو 50 کلو میٹر فی گھنٹہ سے کم کر کے 30 کلومیٹر فی گھنٹہ کر دیا گیا ہے۔
لوگوں کو سائیکل چلانے کی ترغیب دینے کے لیے شہر کے مرکزی بازاروں کو عام گاڑیوں کے لیے یا تو مکمل بند کیا گیا ہے یا مہنگی پارکنگ فیس رکھی گئی ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ سائیکل کے ذریعہ بڑے بازاروں کا رخ کریں اور انہیں مزید پروموٹ کرنے کے لیے ، فری سائیکل سٹینڈ بنائے گئے ہیں جہاں لوگ اپنی سائیکل سی سی ٹی وی کیمروں کی نگرانی میں محفوظ پارک کر سکیں ۔سائیکل کی ٹیکنیک technic میں جیسے جیسے جدت آ رہی ہے اسی تیزی سے پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی سائیکل کو مسافر کے ساتھ لے جانے کے لیے کوششیں کی گئی ہیں۔ جیسے کہ ہالینڈ ریلوے نے ٹرین میں مختلف مقامات پر کچھ مخصوص جگہ سائیکل کے لیے بھی مختص کر چھوڑیں ہیں ۔لوگ گھر سے ریلوے اسٹیشن پر سائیکل پر آتے ہیں اور اپنی سائیکل سمیت ٹرین میں داخل ہوسکتے ہیں ٹرین کا سفر مکمل ہونے پر پھر اپنی سائیکل پر سوار اپنی منزل کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں ۔ اس سے جہاں سڑکوں پر گاڑیوں کا رش کم ہوا ہے وہی سائیکل چلانا صحت کے لیے بھی اچھا شگون مانا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ماحول کو آلودگی سے بچاؤ کے لیے بھی سائیکل چلانے کو ایک اچھی کاوش قرار دیا جا رہا ہے۔ہالینڈ کے تمام ریلوے اسٹیشن اور مین بس اسٹاپس پر سائیکل پارکینگ کی سہولت میسر ہے ۔ شہروں میں گاڑی سے زیادہ جلدی آپ سائیکل پر ایک مقام سے دوسرے مقام پر آجاسکتے ہیں۔
دوسرا آپ کو گاڑی پارکنگ کرنے کی کوفت بھی نہیں اٹھانی پڑتی۔ سائیکل کا چوری ہونا بڑے شہروں میں ایک عام بات ہے اور کئی دفعہ لوگ سائیکل کہیں رکھ یا پارک کر کے بھول بھی جاتے ہیں۔ خاص کر ریلوے اسٹیشن پر یہ معجزہ دیکھنے میں آتا ہے جہاں ہزاروں سائیکل کھڑے ہوتے ہیں اور کام سے واپسی پر اس سائیکل کو ڈھونڈنا جس کی چابی آپ کی جیب میں ہے کئی بار ایک صبرِعظیم کا تقاضا کرتا ہے۔ میونسپل کارپوریشن بھی کچھ لاوارث سائیکلوں کو ٹھکانے لگاتی رہتی ہے ۔کئی بار سائیکل غلط جگہ پارک کرنےکی وجہ سے آپ کو جرمانہ بھی ہو سکتا ہے یا آپ کی واپسی سے پہلے میونسپل کارپوریشن والے آپ کا سائیکل اٹھا کر سائیکل ڈیپو منتقل کر دیتے ہیں۔ اگر تو سائیکل نیا اور قیمتی ہو تب تو لوگ اسے ڈھونڈنے کی کوشش میں ڈیپو یا پولیس اسٹیشن کا چکر لگاتے ہیں ورنہ کسی بھی سائیکل کی دوکان سے تیس چالیس یورو کا سیکنڈ ہینڈ سائیکل خرید کر پھر چل پڑتے ہیں ۔
آجکل الیکڑک سائیکل کا رواج بھی بڑھتا جا رہا ہے اس سائیکل کی قیمت دوسرے سائیکل کی نسبت بہت زیادہ ہے اس میں مختلف سائز کی بیٹریز نسب ہیں زیادہ سے زیادہ رینج 60 کلو میڑر ہے اور اس کی رفتار بھی روائتی سائیکل سے زیادہ ہے مگر سائیکل کے قانون کے مطابق رفتار 25 کلومیٹر سے زیادہ نہیں رکھی جا سکتی ۔لہٰذا زیادہ سے زیدہ اسپیڈ 25 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے ،ایسے سائیکل کی انشورینس کروانا ایک عام بات ہے۔باکس سائیکل کا رواج بھی عروج پر اس سائیکل کے اگلے حصے میں ایک ڈبہ سا لگا ہوتا ہے اور اس ڈبے میں دو تین بچوں کے بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے اکثر خواتین ایسے سائیکل کا استعمال اپنے بچوں کو اسکول لانے لیجانے کے لیے کرتی ہیں ۔
ہالینڈ میں تقریباً تمام شہروں میں قدرتی جنگلات میں سائیکل کے روٹ بنائے گئے ہیں اور گرمیوں میں لوگ چھٹی کے دن اکثر ان مقامات کا رخ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہالینڈ کے کچھ جزیرے ایسے ہیں جنہیں کار فری آئلینڈ بھی کہا جاتا ہے۔ ان جزیروں میں سائیکل کے لیے ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ خوبصورت راستے بنائے گئے ہیں اور گرمیوں کی چھٹیوں میں سائیکل وِیکیش کے لیے ان مقامات پر جاتے ہیں ۔ سائیکل سے مختلف کرتب کرنے والے منچلے نوجوان کے لیے بھی شہر کے مختلف حصوں میں خاص مقامات مختص کیے گئے ہیں اور یہ نوجوان وہاں جا کر اپنے دل کے شوق پورے کرتے رہتے ہیں۔کچھ لوگوں کے شوق جہاں سے نرالے ہوتے ۔ ان میں ایسے حضرات بھی شامل ہیں جو لیٹ کر سائیکل چلانا پسند کرتے ہیں۔ غرض ہر نوع اور قسم کا سائیکل اور اس کے چلانے والے ہالینڈ میں ہر گھر میں پائے جاتے ہیں۔
آخر میں عرض ہے کہ ہمارے وطن عزیز پاکستان میں تیزی سے بڑھتے ہوے موٹرسائیکل کے لیے اگر ایسا کوئی نظام بنا دیا جائے کہ اسے عام سڑک سے ہٹا کر الگ راستے پر چلایا جائے تو ہزاروں لوگ آئے دن ہونے والے حادثات سے بچ جائیں ،شائد وہاں بھی لوگ سائیکل چلانے لگ پڑیں شائد ہماری نئی نسل بھی کچھ آسانی سے اسکول اور کالج آ جا سکے ۔ شائد والدین کی اس بے ہنگم ٹریفک کے نظام سے ہونے والی کوفت کم ہو، اور اگر ون ویلنگ کے لیے شہر کے مختلف مقامات پر کلب بنا دیے جائیں جہاں یہ منچلے اپنے من کی بڑھاس نکال سکیں تو کیا حرج ہے ۔

Facebook Comments

خالد شاہ
سات سمندر پار ایک ہم وطن

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply