• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان کے پہلے آئین کی تاریخ/فیروز خاں نون۔۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم/قسط12

پاکستان کے پہلے آئین کی تاریخ/فیروز خاں نون۔۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم/قسط12

فیروز خاں نون پاکستان کے ساتویں وزیر اعظم تھے وہ  1920 میں سیاسی میدان میں داخل ہوئے تھے اس لیے  وزیر اعظم بننے سے پہلے بہت گہرا سیاسی تجربہ رکھتے تھے اور چونکہ وہ ملک غلام محمد اور سکندر مرزا کے ادوار میں ان محلاتی سازشوں کا حصہ رہ چکے تھے اس لیے  وہ ان تمام حربوں اور ہتھکنڈوں سے واقف تھے جو بادشاہ گر وزیر اعظم کو اپنے قابو میں رکھنے اور ہٹانے کے لیے   استعمال کرتے تھے۔ فیروز خاں نون اس پورے عمل میں کہیں نہ کہیں شامل رہے تھے۔

وزیر اعظم بننے سے پہلے فیروز خاں نون جس شعبے میں زیادہ تر کام کر چکے تھے وہ خارجہ امور کا شعبہ تھا پاکستان بننے سے پہلے بھی انھوں نے اس شعبے میں بعض ذمہ داریاں ادا کی تھیں۔
فیروز خاں نون پاکستان بننے کے بعد ایک اہم سیاسی کردار بن کر سامنے آئے ،پہلے وہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ  ممتاز دولتانہ کے سب سے بڑے حریف کے طور پر سامنے آئے اور سیاسی اکھاڑ بچھاڑ میں اہم کردار ادا کیا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب آئین سازی کا کام ہو رہا تھا اس سلسلے میں وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے پاکستان میں قراردادِ مقاصد کا ترمیمی مسودہ (جس پر علماء کرام اور سیاست دان سب متفق ہوچکے تھے) منظوری کے لیے دستور ساز اسمبلی کی جانب بھیجا۔
سترہ اکتوبر 1951ء بروز جمعہ، جب ملک میں پہلی بار وزیر اعظم کو برطرف کیا گیا۔ یہ وہی وزیراعظم تھے جن کے بجٹ کو چند دن پہلے ہی قومی اسمبلی نے بھاری اکثریت سے منظور کیا تھا۔
امریکہ میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرا کو وطن بلا کر وزارت اعظمی پر فائز کردیا تھا۔
جنہوں نے اپنی کابینہ میں پہلی بار مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف جنرل ایوب خان کو وزیر دفاع مقرر کیا تھا۔

اسی دوران 1954ء میں مشرقی پاکستان میں انتخابات ہوئے جس میں مسلم لیگ کو بہت ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔ 237 نشستوں میں سے 223 جگتو فرنٹ نے جیت لیں اور صرف 10 سیٹیں مسلم لیگ کے حصے میں آئیں۔ جس کے بعد مشرقی پاکستان میں یہ مطالبہ زور پکڑتا چلا گیا کہ موجودہ اسمبلی عوام کی نمائندگی کا حق کھو چکی ہے لہٰذا نئے انتخابات کروائے جائیں۔
وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی چار سال کی صبر آزما جدوجہد کے بعد 16 ستمبر 1954 کو دستور ساز اسمبلی نے پاکستان کے دستور کا حتمی ڈرافٹ منظور کر لیا۔ 17 اکتوبر 1954 کو اسمبلی کے اجلاس میں اس پر بحث کا آغاز ہونا تھا۔ اور وزیراعظم محمد علی بوگرہ پاکستانی قوم کو دستور کا تحفہ دینے کی تاریخ 25 دسمبر 1954 بھی مقررکر چکے تھے۔

پاکستان کے ایک بڑے اخبار نے یہ خبر بھی دے دی تھی کہ “آئینی بل تیار ہے اور اس کے ایکٹ بننے میں بس محض اب رسمی منظوری باقی ہے 25 دسمبر 1954 کو اس دستور کا نفاذ عمل میں آجائے گا۔ مگر دستور ساز اسمبلی میں پنجاب مسلم لیک کے اراکین جن کی قیادت ملک فیروز خان نون کر رہے تھے اس کے سخت خلاف تھے۔ ان کو خدشہ تھا کہ اس رپورٹ پر مبنی نئے آئین کا جھکاؤ مشرقی پاکستان کے حق میں رہے گا جو آبادی کے لخاظ سے سب سے زیادہ اکثریت والا صوبہ تھا۔ انہیں خطرہ تھا کہ پنجاب کو نہ صرف پارلیمینٹ اور سیاسی میدان میں بلکہ بیوروکریسی اور فوج میں نقصان اٹھانا پڑے گا۔

اسی دوران سیاست دانوں کو علم ہو گیا تھا کہ گورنر جنرل غلام محمد آئین کی منظوری میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں ،وہ موجودہ اسمبلیاں برخواست کرکے نئے انتخابات کا اعلان کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے اسمبلی نے اپنے اجلاس میں دس منٹ کے اندر گورنر جنرل کے اختیارات میں کمی کا بل منظور کروا لیا۔ مشرقی پاکستان کے وزیراعلیٰ نورالامین کے مشورے پر عبدالستار پیرزادہ وزیراعلیٰ سندھ نے گورنر جنرل کے وسیع اختیارات کو چیلنج کیا اور انہیں ’’حد‘‘ میں رکھنے کے لیے دستور ساز اسمبلی میں ایک آئینی ترمیم منظور کرائی۔

مگر اس ترمیم نے صرف ملک غلام محمد کو ناراض نہیں کیا بلکہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی اراکین کو یہ یقین ہو گیا کہ اگر ملک میں جمہوری ڈھانچے کے تحت آبادی کو بنیاد بنایا گیا تو مشرقی پاکستان کو مغربی حصے پر بالادستی حاصل ہوجائے گی اور اس طرح سے باقی چھوٹے صوبے بھی مشرقی پاکستان کے ساتھ ہوگئے تو پنجاب سیاسی اعتبار سے تنہا رہ جائے گا۔

چنانچہ 5اکتوبر 1954کو ایک اجلاس میں دستور ساز اسمبلی میں پنجاب مسلم لیگ پارٹی کی طرف سے فیروز خاں نون نے تین مطالبات پر مشتمل ایک الٹی میٹم پیش کیا اور کہا کہ اگر اس کے یہ مطالبات تسلیم نہ کیے  گئے تو 28 اکتوبر کو دستور ساز اسمبلی کے اجلاس سے قبل پارٹی کے تمام اراکین اسمبلی سے اجتماعی طور پر مستعفی ہوجائیں گے-

پنجاب مسلم لیگ اسمبلی پارٹی نے جو تین مطالبات پیش کیے  تھے ان میں پہلا مطالبہ تھا کہ آئین میں مرکز کے پاس صرف چار امور ہونے چاہئیں- اول دفاع، دوم امور خارجہ سوم کرنسی اور بیرونی تجارت چہارم صوبائی مواصلات-

دوسرا مطالبہ تھا کہ ان امور کے علاوہ تمام امور صوبوں کو تفویض کرنے کے لیے  تمام صوبوں کے نمائندوں کی کمیٹی فیصلہ کرے۔
تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ اگلے پانچ برس تک نئے آئین میں کوئی ترمیم اس وقت تک منظور نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کے حق میں تمام صوبوں کی اسمبلیوں میں تیس فی صد اراکین کی حمایت حاصل نہ ہو-

اس دوران ملک فیروز خان نون زیورخ گئے ،جہاں عوامی لیگ کے سربراہ حسین شہید سہروردی زیر علاج تھے۔ زیورخ میں نون اور سہروردی کے درمیان معاہدہ طے پایا جس کے تحت سہروردی نے مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ کی معطل حکومت کی بحالی کے وعدہ کے عوض دستور ساز اسمبلی کو برخاست کرنے پر آمادگی ظاہر کی اور اسی کے ساتھ مغربی پاکستان کے تینوں صوبوں اور چھ نوابی ریاستوں کو ایک یونٹ میں ضم کرنے کی بھی تجویز تسلیم کر لی۔

اسی سمجھوتے کے بعد گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑ دی۔۔۔
آئین کی منظوری سے پہلے اگست 1955 میں فالج زدہ غلام محمد کو زبردستی اقتدار سے الگ کرنا پڑا آرمی چیف نے خود جا کر گورنر جنرل سے استعفی لیا اور اقتدار کے تخت پر اسکندر مرزا کو بحیثیت گورنر جنرل پاکستان بنا کر بٹھا دیا گیا۔ دو دن کے بعد 11 اگست کو محمد علی بوگرہ کی جگہ چودھری محمد علی نے بطور وزیر اعظم حلف اٹھایا۔ چوہدری محمد علی 1955ء سے 1956ء تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔

8جنوری 1956 کو آئین کا ترامیم شدہ ڈرافٹ پیش کیا گیا جسے کچھ تبدیلیوں اور رد و بدل کے بعد 29 فروری 1956 کو منظور کر لیا گیا ترامیم شدہ آئین کو 23 مارچ 1956 میں نافذ کر دیا گیا۔
دستور کا یہ مسودہ 22 کے مقابلے میں 42 ووٹوں سے منظور کرلیا گیا۔

مغربی پاکستان میں ڈاکٹر خان نے اسکندر مرزا اور اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر نئی سیاسی جماعت ” ریپبلکن پارٹی ” کے قیام کا اعلان کیا فیروز خاں نون سمیت مسلم لیگ کے بڑے بڑے رہنماء جن میں افتخار ممدوٹ ، قاضی فضل اللہ ، پیرزادہ عبدالستار ، سردار عبدلحمید دستی ، اور مخدوم سید حسن محمود مسلم لیگ کی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے ڈاکٹر خان کی پارٹی میں شامل ہوکر نئی کابینہ میں شامل ہوگئے۔ اسی دوران مشرقی پاکستان میں وزیراعلی ابو حسن سرکار نے استعفی دیدیا گورنر مشرقی پاکستان نے اس نئی پیدا ہونے والی صورت حال میں عوامی لیگ کو حکومت بنانے کی دعوت دی۔

پاکستان کا آئین نافذ تو ہو چکا تھا مگر اسکندر مرزا پہلے دن سے ہی نجی محفلوں میں آئین پاکستان کے خلاف زہر افشانی فرماتے رہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ آئین پاکستان مشرقی اور مغربی پاکستانیوں کے حقوق کا صحیح معنوں میں تحفظ نہیں کرسکتا تھا۔ سرکاری محافل میں بھی وہ اپنے تحفظات کا برملا اعلان کرنے سے نہیں ہچکچاتے تھے۔ گورنر جنرل اور وزیر اعظم چوہدری محمد علی کے درمیان اختلافات بھی پیدا ہوچکے تھے جس کا انجام وزیر اعظم چوہدری محمد علی کے استعفیٰ پر ہوا۔ وزیراعظم چوہدری محمد علی نے نہ صرف وزارت عظمیٰ چھوڑی بلکہ مسلم لیگ کی پارٹی رکنیت سے بھی استعفیٰ دیا۔
مسٹر حسین شہید سہروردی کو عوامی لیگ اور حکومتی ریپبلکن پارٹی کے مشترکہ امیدوار کی حیثیث سے وزارت بنانے کی دعوت دے دی گئی۔ سہروردی حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے جداگانہ طریقہ انتخاب کی جگہ مخلوط طریقۂ انتخاب کا بل منظور کروالیا۔

آئین منظور ہونے کے بعد سیاست دانوں کے رویوں میں تبدیلی آگئی تھی ،پہلے سیاست دان آئین کی منظوری کی کوشش کر رہے تھے اور اس سلسلے میں مقتدر حلقوں کی ناپسندیدہ شرائط بھی منظور کر لیتے تھے ملک غلام محمد کے زمانے میں صورت حال یوں بن گئی تھی کہ آئین کی منظوری کے لیے  ون یونٹ کی حمایت ضروری ہو گئی تھی۔ مسلم لیگ کے علاوہ کوئی بھی پارٹی ون یونٹ کے حق میں نہیں تھی۔ اب ون یونٹ کی مخالفت کرنے والوں میں وہ سیاستدان بھی شامل تھے جنہوں نے پہلے اس کے حق میں دلائل دئیے تھے۔ کیونکہ اس وقت وہ پاکستان کے آئین کو مزید التوا میں نہیں رکھنا چاہتے تھے۔

آئین کی منظوری کے بعد  مغربی پاکستان کے تمام بڑے سیاست دان ون یونٹ کے مخالف ہو چکے تھے۔ صوبہ سرحد کے وزیر اعلی سردار عبدا لرشید پہلے ون یونٹ کے حق میں تھے بعد میں مخالفین کی صف میں شامل ہوگئے۔ پنجاب کے وزیر اعلی فیروز خان نون کا بھی یہی معاملہ رہا۔ سندھ کے پیر علی محمد را شدی بھی پہلے حمایتیوں میں تھے مگر پھر سخت ترین مخالف ہوگئے۔ حسین شہید سہروردی جس زمانے میں وزیر قانون تھے تو ان کی وزارت میں یہ ون یونٹ کا آرڈر گورنر جنرل کے کہنے پر ان کی منظوری سے تیار ہوا تھا۔ مگر بعد میں یہی سب سے بڑے مخالف ہوئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سیاست دانوں کا خیال تھا کہ آئین کی منظوری سے ان کو کامیابی حاصل ہو ئی ہے اب انھیں سیاسی طور پر پیش رفت کرنا چاہیے۔

حسین شہید سہروردی کی حکومت عوامی لیگ اور حکومتی پروردہ ریپبلکن پارٹی کے اشتراک سے وجود میں آئی تھی۔ مگر اس کو محض13  ماہ ہی ہوئے تھے کہ مغربی حصے کی حکومتی پارٹی ریپبلکن پارٹی نے عوامی لیگ پر عدم اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوامی لیگ سے تعلق توڑنے کا اعلان کرد یا۔ وزیراعظم حسین شہید سہروردی سے اسکندر مرزا نے استعفیٰ طلب کیا اور ا ن کو وزارت عظمی سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس کے بعد قرعۂ فال جناب اسماعیل ابراہیم چندریگر کے نام نکلا، وہ صرف پچپن دن وزیر اعظم رہے۔

16 دسمبر 1957 کو وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا۔ فیروز خان نون جن کو ری پبلکن پارٹی سمیت چھ پارٹیوں کی حمایت حاصل تھی وزیر اعظم بنایا گیا۔ وزارت عظمیٰ کے علاوہ ان کے پاس دفاع و اقتصادی، دولت مشترکہ، ریاستیں، سرحدی علاقے، امور خارجہ کشمیر اور قانون کے محکمے رہے۔ ان کے دور حکومت میں گوادر کی منتقلی کا مسئلہ حل ہوا اور پاکستان کو دو ہزار چار سو مربع میل کا رقبہ واپس مل گیا۔

فیروز خاں نون کی خارجہ میدان میں مہارت مسلمہ تھی گوادر کے انضمام نے ان کی مقبولیت میں اضافہ کیا تھا اس سے علاوہ دوسری سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملانے کی صلاحیت نے بھی سکندر مرزا کو پریشان کر دیا تھا۔ فیروز خاں نون نے سکندر مرزا کو آئندہ صدارت کی یقین دہانی نہیں کروائی تھی جس سے سکندر مرزا کی پریشانی میں اضافہ ہو گیا تھا

تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سکندر مرزا اور ایوب خاں کی ملی بھگت سے سوچے سمجھے طریقے سے جمہوری عمل کو کس طرح سے گندا کیا گیا اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ آئین کے نفاذ کے تین سال کے اندر اندر مرکز میں چار حکومتیں بنائی اور ہٹائی گئیں۔ ان حکومتوں میں مجموعی طور پر گیارہ سیاسی جما عتیں شامل رہیں اور ان میں ریپبلکن پارٹی ہر حکومت کا اہم حصہ رہی۔

قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامے میں خیال ظاہر کیا کہ ان سب برخواستگیوں اور جوڑ توڑ میں صدر اسکندر مرزا تین باتیں ثابت کرنا چاہتے تھے۔ اولا ‘نیا آئین قا بل عمل نہیں’۔ دوئم یہ کہ ‘ملک بھر میں کوئی بھی سیاسی شخصیت ایسی نہیں جو مستحکم سیاسی حکومت بنائے’۔ سوئم یہ کہ ‘عملی سیاست میں کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں جو ملک کے دونوں حصوں(مشرقی و مغربی) کا اعتماد حاصل کرکے حکومت کا کاروبار سنبھال سکے۔ اور تین سال کے اندر اندر انھوں نے اپنا بڑا مقصد حاصل کرلیا کیونکہ اس عرصے میں ملک میں تقریبا تمام سیاسی پارٹیاں اور اہم رہنما کے بعد دیگرے حکومت میں شامل ہوکر ناکام کردیے گئے تھے۔

اچانک جون1958 میں اسکندر مرزا نے وزیراعظم فیروز خان نون کو ایک مراسلہ لکھا جس میں تاکید کی گئی تھی کہ بری فوج کے کمانڈر انچیف کے طور پر جنرل محمد ایوب خان کی ملازمت میں دو سال کی توسیع کا فرمان جاری کیا جائے۔ اس مراسلے میں  ”most immediate”کا ٹیگ بھی لگا دیا گیا۔

قدرت اللہ شہاب جن کے ذریعے یہ مراسلہ اسکندر مرزا نے وزیر اعظم سے دستخط کے لیے بھجوایا تھا ‘ان کے مطابق’ کاغذ کے اس چھوٹے سے پرزے نے ہمارے ملک کی تاریخ کا رخ موڑ دیا
فیروز خاں نون ایوب خاں کو توسیع دینے کے حق میں نہیں تھے انہوں نے نئے آرمی چیف کے طور پر جنرل شیر علی پٹودی کو منتخب بھی کر رکھا تھا مگر وہ اس وقت سکندر مرزا سے براہ راست محاذ آرائی سے بچنا چاہتے تھے ان کی پوری توجہ آئین کے تحت ہونے والے انتخابات کی طرف تھی اس لیے  انھوں نے ایوب خاں کو دو سال کی توسیع دے دی۔ یہی سال ملک میں عام انتخابات کا سال بھی تھا۔

اگر انتخابات کا اعلان ہوتا تو دستور کی رو سے اسکندر مرزا کو صدارت سے دستبردار ہونا پڑتا۔ ان کو استعفیٰ دے کر اسمبلی سے دوبارہ منتخب ہونا تھا۔ اپنے سر پر الیکشن کی تلوار لٹکتے دیکھ کر اسکندر مرزا نے انتخابات کو ایک سال آگے بڑھادیا۔ فیروز خاں نوں کو انتخابات میں فتح کا یقین تھا انہوں نے ایک سال کی توسیع بھی گوارا کر لی۔ مگر اسکندر مرزا نے انتخابات کے عمل سے مستقل جان چھڑانے کے لیے کئی حربے آزما رہے تھے۔ اس موقع پر سکندر مرزا نے کئی حربوں کو استعمال کیا۔ سیاسی رہنماؤں کو پیسے کا  لالچ بھی دیا  اور انقلابی کونسل کی تجویز بھی سیاسی حلقوں میں پھیلائی جس کا مقصد یہ تھا کہ خود مارشل لاء ایڈمنسٹر بن کر راج کرسکے۔ اس کے لیے نواب آف بھوپال کو وزیراعظم بنانے کا جھانسہ بھی دیا اور بالاخر نواب آف بھوپال کو کراچی بھی طلب فرمالیا۔ راجہ صاحب محمود آباد کو بھی اسی طرح کی آفرز دی گئیں۔ نواب آف قلات کو بھی اس منصوبے میں شامل کیاگیا۔
مگر جلد ہی سکندر مرزا کو اندازہ ہوگیا کہ وہ کسی آئینی طریقے سے الیکشن سے جان نہیں چھڑا سکتا، چنانچہ اس نے آرمی چیف سے مل کر آئین کو ہی ختم کرنے کا منصوبہ تیار کیا۔

7 اکتوبر1958 کو جنرل ایوب خان کی قیادت میں فوج نے منتخب وزیر اعظم ملک فیروز خان نون کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر تسلط جمایا – یہ پاکستان جمہوری اور آئینی نظام پر مسلح ادارے کی طرف سے پہلا باضابطہ اور منظم ادارہ جاتی حملہ تھا جس کے بعد پاکستان کبھی نہیں سنبھل سکا اور پاکستان میں اس امر کا تعین نہیں کیا جا سکا کہ پاکستان کو آئین، جمہوریت اور سیاسی نظام کے ذریعے چلایا جائے۔ یا اسے منظم ریاستی ادارے کے ذریعے ہی چلایا جا سکتا ہے

اس کارروائی پر جسٹس محمد منیر کا ایک حیرت انگیز فیصلہ سامنے آیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’کامیابی کے ساتھ حکومت کا تختہ الٹ دینا دستور تبدیل کرنے کا مسلمہ بین الاقوامی طریقہ ہے۔ اس کے بعد انقلاب قانون کا ماخذ بن جاتا ہے اور عدالتیں اس کی معینہ حدود کے اندر کام کرسکتی ہیں‘‘۔ اس فیصلے نے ایوب خان کے جاری کیے ہوئے آرڈیننس اور فیصلوں کو قانونی تحفظ فراہم کردیا تھا۔ اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ منسوخ شدہ دستورِ پاکستان کے تحت لوگوں کو حاصل تمام حقوق ختم ہوتے ہیں اور اس کے خلاف کوئی رٹ بھی دائر نہیں ہوسکتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

27 اکتوبر 1958ء کو جنرل ایوب خان نے پاکستان کی صدارت سنبھالتے ہی اپنے پیشرو جنرل اسکندر مرزا کو معزول کردیا۔
ایوب خان نے دو قوانین فوری طور پر نافذ کروائے۔ پہلا قانون ’’پوڈو‘‘
(public office disqualification order)
کے نام سے مشہور ہوا۔ اس قانون کا اطلاق سیاسی عہدیداروںاور سرکاری ملازمین پر ہوسکتا تھا، جس کی سزا 15 سال تک تھی۔
اس کے ساتھ اس قانون کا خوف دلاکر ایوب خان نے سیاسی رہنماؤں پر اس سے ملتا جلتا قانون نافذ کیا جو ’’ایبڈو‘‘
(Elective bodies disqualification order)
کے نام سے مشہور ہوا۔ ایبڈو کے جرم میں سزا پانے والے سیاست دانوں کو  6برس تک کی سزا تجویز کی گئی تھی، مگر اس میں ایک رعایت یہ بھی حاصل تھی کہ سیاست دان ازخود6  سال کے لیے سیاست سے اپنی دست برداری کا حلف جمع کروائے۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے قومی و صوبائی سطح پر 98 سیاست دانوں کو (جو کسی نہ کسی وقت حکومت کا حصہ رہے تھے) نامزد کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی شروع کی گئی۔ ان میں سے 70 سیاست دانوں نے رضاکارانہ طور پر چھ سال کے لیے سیاست سے دست برداری کا اعلان کیا فیروز خاں نون نے بھی سیاست سے دست برداری کا فیصلہ کیا۔
ان کی آپ بیتی چشم دید اردو میں چھپ چکی ہے فیروز خاں نون نے مندرجہ ذیل کتابیں لکھیں
Wisdom From Fools (1940)
India (1941)
Scented Dust (1965)
Kashmir (1957)
From Memory (1966)
فیروز خاں نون نے ایک آسٹرین وکٹوریہ رکی سے شادی کی جن کا نام وقارالنسا نون رکھا گیا جو ایک ممتاز سماجی اور سیاسی کارکن تھیں فیروز خاں نون اپنے ضلع سرگودھا میں اپنے آبائی گاؤں نورپور میں 1970 میں فوت ہوئے۔

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply