سنی بریلوی وغیرہ کی بحث: یہ بھی دیکھ لیں

میری گزشتہ پوسٹ “ہر بچہ بریلوی پیدا ہوتا ہے” فقط اس حقیقتِ واقعہ کا اظہار تھی کہ ہمارے یہاں کے دیوبندی اور اہلِ حدیث عمومی طور پر بریلویوں یا ان سے ملتے جلتے مذہبی نظریات رکھنے والے مسلمانوں سے برآمد ہوئے ہیں۔ اس پوسٹ میں کہیں بھی نہ تو دیوبندیوں اور اہلِ حدیثوں کو کافر و گمراہ قرار دیا گیا تھا، اور نہ ہی بریلویوں کو اسلام کے واحد ٹھیکیدار بتایا گیا تھا،اس پوسٹ میں ان سب گروہوں کی کسی بھی بات سے کلی اختلاف یا کلی اتفاق نہیں کیا گیا تھا اورنہ ہی کسی ایک سے متعلق ایسا رویہ اپنانے کی دعوت دی گئی تھی۔ اہلِ تحقیق اس بات کو بخوبی سمجھ گئے تھے، لیکن ہمارے یہاں کے عمومی فرقہ وارانہ مزاج کا کیا جائے کہ وہ اس نوعیت کے کسی مبحث کو معروضی اور تحقیقی انداز میں دیکھنے کا اہل ہی نہیں، سو اس مزاج کے طرح طرح کے فرقہ وارانہ رد عمل ہی آئے، اور یہ خلافِ توقع نہیں تھے، یہاں کے اس مزاج کو بدلتے ہوئے وقت لگے گا۔
میں نے اپنی ایک تحقیق اور مشاہدہ پیش کیا تھا، اس کی علمی تردید کا طریقہ یہ تھا کہ اسی نوعیت کی تحقیق اور مشاہدے کی بنیاد پر بتایا جاتا کہ نہیں جی! فلاں فلاں دلائل شاہد ہیں کہ دراصل بریلوی دیوبندیوں اور اہلِ حدیثوں سے نکلے ہیں، اور فلاں فلاں مسجدیں بریلویوں سے دیوبندی اور اہلِ حدیث ہوئی ہیں ۔لیکن خدا شاہد ہے کسی کی طرف سے اس پر ایک بھی دلیل پیش نہیں کی گئی، حتی کہ کہ کوئی دلیل پیش کرنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی، پیش کی بھی کیسے جا سکتی ہے ،کوئی سنجیدہ اورتحقیقی مزاج کا حامل دیوبندی اور اہلِ حدیث بھی اس معاملے میں اس حقیقتِ واقعہ کا انکار نہیں کرتا،جو میں نے پیش کی۔علامہ احسان الہی ظہیر مرحوم کی “البریلویۃ”(جس میں بریلویوں کی تردید میں نہایت سختی برتی گئی ہے) کا ہی مطالعہ کر کے دیکھ لیں ، وہ آپ کو یہ بتاتے نظر آئیں گے کہ ان سے کچھ پہلے کہ برصغیر کے تمام مسلمانوں کے عقائد ونظریات بریلیوں ہی کی طرح تھے۔۔۔۔۔۔۔کوئی واقعاتی اور تحقیقی دلیل پیش کرنے کی بجائے، میری گذشتہ پوسٹ کی “تردید” کرنے والوں کا زور عموماً اس بات پر رہا کہ بریلوی ہندوؤں سے نکلے ہیں اور بدعتی ہیں، جیسے دیوبندی اوراہلِ حدیث تو آسمانوں سے اترے ہوں ، اور ہندوستان سے تعلق نہ رکھتے ہوں!۔۔۔مذکورہ پوسٹ کے کمنٹس کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ بریلویوں کے طرف داروں میں سے شاید ہی کسی نے دیوبندیوں اور اہلِ حدیثوں کے خلاف عدالت لگائی ہو، لیکن دیوبندیوں اور اہلِ حدیثوں کے طرف داروں نے شاید ہی کوئی ایسا کمنٹ کیا ہو ، جس میں بریلویوں کے “بدعتی اور گمراہ” ہونے کا فیصلہ نہ سنایا گیا ہو۔
گذشتہ پوسٹ پر تبصرہ اور اس پوسٹ کی تمہید ذرا لمبی ہو گئی ،اس پوسٹ میں گزشتہ پوسٹ کے تسلسل میں یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ آیا بریلوی بھی ایک الگ فرقہ ہیں یا نہیں ؟ اور سنی اور بریلوی ایک ہی چیز کے دونام ہیں یا الگ الگ وجودکے حامل گروہ؟ اس پر تفصیلی بات آئندہ پوسٹ میں کی جائے گی۔
سنی یا بریلوی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دور کی بات نہیں ، میرے بچپن، لڑکپن کی بات ہے، موجودہ فرقوں کی “لچ کڑچیوں”سے ناواقف عام دیہاتی سادہ مسلمانوں میں بریلوی ، دیوبندی اور اہلِ حدیث کے الفاظ اجنبی تھے، ہاں سنی ، وہابی اور شیعہ سنا کرتے تھے۔ ختم درود ، الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ پڑھنا، حضور ﷺ اور اہلِ بیت سے اظہار محبت کا وفور، بزرگوں سے توسل ، مزارات کا احترام وغیرہ چیزیں سنیوں کی علامت سمجھی جاتی تھیں اور ان چیزوں کی مخالفت کرنے والوں کو وہابی کہا جاتا تھا۔ مذکورہ نوعیت کے مذہبی خیالات و رسوم ان لوگوں میں بھی موجود تھے ، جو مولانا احمد رضا خان بریلوی مرحوم کے نام سے بھی واقف نہیں تھے۔ مولانا احمد رضا خان کے نام سے ناواقف ان عام لوگوں کی کثیر تعداد البتہ وہابی کے لفظ سے واقف تھی،لیکن اس بات سے مطلق آگاہ نہ تھی کی یہ وہابی کون ہیں اور کہاں سے آئیں ہیں اور ان کو وہابی کس کی نسبت سے کہا جاتا ہے؟ پھر رفتہ رفتہ اس ماحول میں بھی بریلوی ، دیوبندی اور اہلِ حدیث کی اصطلاحات متعارف ہوئیں۔ مذکورہ نوعیت کے افکارو رسوم کے حامل لوگ بریلوی اور ان کی مخالفت کرنے والے یا اس مخالفت میں مشہور گروہ دیوبندی اور اہلِ حدیث کے عنوان سے نمایاں ہونے لگے۔
دراصل ابن وہاب نجدی کی تحریک (عالم عرب کے مسلمانوں کے روایتی عقائد ونظریات، جو برصغیر کے سنیوں ہی کی طرح تھے، کو چیلنج کرنے کے بعد) عرب سے نکل کر برصغیر کے بعض علما کے اعصاب پر سوار ہوگئی ، جس کے نتیجے میں انھوں نے یہاں کے سنی مسلمانوں کے مذکورہ افکارو رسوم کو گمراہی اور بدعت وشرک سے تعبیر کرنا شروع کر دیا تھا، اور اس کے اثرات پھیلتے جا رہے تھے۔ بریلی سے تعلق رکھنے والے عالم دین مولانا احمد رضا خان نے ان وہابی اثرات کے خلاف برصغیر کے عام مسلمانوں کے افکار و نظریات کی علمی ترجمانی اور وہابی اثرات کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ وہابی ذہن رکھنے والے علما و قلم کاروں نے نے برصغیر کے مسلمانوں کے مذکورہ نوعیت کے تصورات کو بریلوی نظریات و افکار سے تعبیر کرنا شروع کر دیا، حالانکہ مولانا بریلوی سے ان کا تعلق اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ انھوں نے ان کا دفاع کیا تھا، اور ان کے مخالف وہابیوں کی تردید میں سختی برتی تھی۔
مولانا احمد رضا خان اسی طرح ایک عالم تھے ، جس طرح کوئی بھی عالمِ دین ہو سکتا ہے، اور ان سے اسلام اور عام مسلمانوں کی ترجمانی وغیرہ امور میں اسی طرح غلطی اور خطا کا امکان تھا، جس طرح کسی بھی عالمِ دین کے بارے میں مسلمہ ہے، ان کے کسی بھی قول اور فتوے سے اسی طرح اختلاف ہو سکتا ہے ، جیسے کسی بھی عالم دین سے ہو سکتا ہے۔ امرِ واقعہ یہ ہے اور یہ بظاہر کوئی غیر فطری چیز دکھائی نہیں دیتی کہ مولانا بریلوی وہابیوں کی تردید میں نہایت سخت تھے(مولانا بریلوی ہی کیا خود حجاز وعرب میں وہابیوں کے خلاف ایسی ہی سختی پائی جاتی تھی، وہاں ابن وہاب اور ان کے افکارو نظریات کو عام مسلمانوں کے نظریات میں بگاڑ اور فسق و زندقہ تک سے تعبیر کیا جاتا تھا)۔ مولانا بریلوی کو جہاں کوئی شائبہ بھی نظر آتا کہ یہاں وہابی اثرات ہیں، وہ اس کے خلاف نہایت سخت موقف اپناتے۔ وہابی تحریک کے علمی اثرات میں ایک چیز حضورﷺ کی شان و عظمت کو ہلکے انداز میں لینا بھی تھی۔ مولانا بریلوی کو جب بعض جگہوں پر یہ جراثیم نظر آئے تو انھوں نے ان کا توڑ کرنے کے لیے کمر کس لی، ہندوستان کے بعض علما کی بعض تحریروں میں انھیں ایسے الفاظ نظر آئے ، جو ان کے خیال میں آئے آں جنابﷺ کی توہین اور آپ کی شان وعظمت کے استخفاف کا پہلو لیے ہوئے تھے۔ وہ اس پر سخت بر افروختہ ہوئے اور ان کے خلاف کفر کا فتوی جاری کیا۔ اس زمانے کے علماے حرمین کا اس نوعیت کے خیالات کو وہابیوں کے مذہبی نظریات کا نتیجہ سمجھنا ایک بدیہی بات تھی۔ انھوں نے جب ان الفاظ و عبارات پر دیے گئے فتوے پرعلماے حرمین سے تایید چاہی تو انھوں نے آسانی سے ان کے فتوے کی تایید کر دی۔ جن چند ہندوستانی علما کے خلاف کفر کا یہ فتوی جاری کیا گیا تھا، ان میں دارالعلوم دیوبند کے نمایاں ترین علما بھی شامل تھے۔یہ دیوبندی علما اور ان کے پیروکار عمومی طور پر اسی طرح کے مذہبی نظریات کے حامل تھے، جن کا دفاع مولانا بریلوی کر رہے تھے۔ علماے حرمیں کی تایید کے ساتھ مولانا بریلوی کے فتویِ کفر سے ایک ہلچل پیدا ہوگئی۔علماے دیوبند نے وضاحت کی کہ ہماری عبارات کا غلط مطلب نکالا گیا ہے۔ مولانا بریلوی کی طرف سے قابلِ اعتراض عبارتوں سے، جن سے ان کے نزدیک شان رسالت میں نقص لازم آتا تھا، براءت اور ان پر توبہ کا مطالبہ کیا گیا۔ دیوبندی علما کا موقف تھا کہ ان مقصد ان عبارتوں سے ہر گز یہ نہیں تھا، جو لیا گیا۔ فریقین کی جانب سے اپنی اپنی پوزیشن پر ڈٹے رہنے کا رویہ سامنے آیا۔ دونوں اطراف اور ان کے علما انسان تھے اور انسانی نفسیات و جذبات کے اسیر۔ ضدم ضدا کی نفسیات کے تحت ایک دوسرے کی تردید ہوتی رہی اور فریقین میں خلیج گہری ہوتی گئی۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ، ان دونوں فریقوں کے مذہبی نظریات میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں تھا،لیکن فریق ثانی نے الگ پوزیشن لے لی تھی، جو برصغیر کے سنی مسلمانوں کے عمومی رجحان سے قدرے مختلف تھی،سو ادھر وہابی اثرات کا نفوذ آسان ہوتا گیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ، دیوبندیوں میں وہ لوگ سامنے آنے لگے ، جو ان نظریات کی شدت سے مخالفت کرنے لگے، جن کا دفاع مولانا بریلوی کر رہے تھے۔
وہابی ، بریلوی: اصلیت کی بحث (گذشتہ سے پیوستہ، چوتھی قسط(
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا بریلوی کی مخالفت کے تناظرمیں دیوبندیوں میں وہابی نفوذ کے پنپنے یا کو کم ازکم اسے برداشت کرنے کا رویہ پروان چڑھتا رہا، پھر وہ وقت آیا کہ وہ دیوبندی بھی وہابییوں سے منسوب ہوگئے، جو اپنی اصل میں اسی صوفی سنی اسلام پر تھے ، جس کے دفاع میں مولانا بریلوی نمایاں ہو چکے تھے۔ دیوبندیوں کا عمومی مذہبی مزاج بریلویوں کا سا تھا، مگر ان میں شدت اختیار کرنے والے مماتی اور اہلِ حدیث گروہوں کی شکل میں نمایاں ہونے لگے۔ مماتی دیوبندیوں اور اہلِ حدیثوں کا مین سٹریم دیوبندیوں سے نکلنے اتنا واضح ہےکہ مین سٹریم دیوبندی ہی نہیں، مماتی اور اہلِ حدیث خود بھی اس کے قائل ہیں، اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج کے عرف میں دیوبندیوں اور بہ طور خاص مماتیوں اور اہلِ حدیثوں کو جب وہابی کہا جاتا ہے تو اس کا پس منظر یہی ہوتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ (بہ طور مزاح ہی سہی) بہت دفعہ مین سٹریم دیوبندی بھی بریلویوں کے مقابلے میں خود پر وہابی کی اصطلاح کا اطلاق کرتے نظر آئیں گے، یہ دوسرے لفظوں میں اس بات کا اعتراف ہوتا ہے کہ دیوبندیت کے برصغیر کے عام سنی اسلام سے الگ ہونے کی بنیادوں میں وہابی اثرات کارفرما ہیں۔
نتیجہ یہ نکلا کہ دیوبندی اور اہلِ حدیث وہابی اثرات کا نتیجہ ہیں، اور وہابی ، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ، ایک زمانے میں (آل سعود کے برسر اقتدار آنے سے پہلے) خود عرب علما اور عوام کے یہاں اپنے شدت پسندانہ رویوں کے باعث ایک اجنبی اور ناپسندیدہ مخلوق تھے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ آج اپنے لیے وہابی کی اصطلاح خود قبول کر لینے والے دیوبندی اور اہلِ حدیث ابتدا میں وہابی کے لفظ سے اتنی ہی نفرت کرتے تھے، جتنی دیگر عام علما اورعوام۔ مولانا بریلوی کے فتویِ کفر کی سینکڑوں علما ے حرمین نے جو تصدیق کی تھی ، اس میں بنیادی کردار اس بات کا تھا کہ مولانا بریلوی ان کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے تھے، کہ میں جن لوگوں کے خلاف فتویِ کفر حاصل کر رہا ہوں، وہ وہابی یا ان سے متاثر لوگ ہیں، ورنہ شاید وہ اس وسیع پیمانے پر اس کی تصدیق نہ کرتے۔ اس سے بھی زیادہ پر لطف بات یہ ہے کہ فتوے میں کافر قرار دیے جانے والے علما کی جانب سے ، جب علماے حرمین کو وضاحت پیش کی گئی، تو دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہم وہابی نہیں ہیں، نہ ہمارا وہابیوں سے کوئی تعلق ہے، ہمارے عقائدو نظریات تو عام مسلمانوں کی طرح ہیں، ہم پر وہابیوں سے نسبت کا غلط الزام لگایا گیا ہے۔ لطف پر لطف یہ کہ وہابیوں سے براء ت کا یہ موقف اہلِ حدیث نے بھی پورے شدو مد سے اپنایا، مولانا نذیر حسین محدث (جو برصغیر میں اہلِ حدیث کے بانی سمجھے جاتے ہیں) نے باقاعدہ انگریز حکومت سے درخواست کی تھی کہ انھیں وہابی کہنے پر پابندی عائد کی جائے۔(بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے)
گرفتار مسلکیت ہو شیار باش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں فرقوں کی پوری تاریخ پر طائرانہ نظر ڈال کر ان کے بنیادی مسئلے کو نمایاں کرنا چاہتا تھا،لیکن کچھ مجبوریوں، اور کچھ عام لوگوں کے اس بحث کو اس کے صحیح تناظر میں نے سمجھنے کے باعث اس سلسلے کو فی الوقت بیچ میں روک رہا ہوں، لیکن اس کو روکتے ہوئے، کچھ کلوزگ ریمارکس پیش کیے دیتا ہوں:
تاریخ اپنا فیصلہ خود سناتی ہے ، اس نے قادیانیوں کے معاملے میں مولانا بریلوی کے فتوے کو انڈوس کر دیا ہے اور علمائے دیوبند کے معاملے میں رد کر دیا ہے۔ علمائے دیوبند کے معاملے میں خود کئی سنی علما نے اس کی تصدیق نہیں کی تھی۔ یہ فتوی اپنی کلیت میں اس صوفی سنی اسلام کے منافی ہے،اپنی عمومیت میں جس کا دفاع صاحب “حسام الحرمین” خود کر رہے تھے۔ بد قسمتی یہ ہوئی کہ مولانا بریلوی کے غالی معتقدین نے اس فتوے کا عقیدہ بنا لیا۔ دوسری طرف علماے دیوبند کے غالی معتقدین کا حال یہ ہے کہ وہ ان عبارتوں کی ابھی تک توجیہ کر رہے ہیں، جنھیں بہت پہلے کہیں گھڑا کھود کر دفن کر دینا چاہیے تھا۔ اگر یہ دونوں فریق اس معاملے سے جڑے اپنے رویوں کی اصلاح کر لیں، تو بریلویت اور دیوبندیت خطے کے اصلی صوفی سنی اسلام میں تحلیل ہو جائیں گی۔ رہے اہلِ حدیث تو اس کے بعد وہ بھی ان کے قدموں پر واپس آ جائیں گے، جب تک اصلی سنیت میں واپس آنے والے مقدم الذکر گروہوں کو موخر الذکر کو انجوائے کرنا چاہیے۔
تاویل مالم تستیع علیہ صبرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمام موجودہ مسلکوں کو خود کو ری وزٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply