معتزلہ کا فلسفہ

معتزلہ کا فلسفہ:چند پہلو
اعجازالحق اعجاز
معتزلہ جنھیں ہم Rationalistic Scholastics کہہ سکتے ہیں مسلمان متکلمین کا مکتبِ فکر تھا۔معتزلہ کا لفظ اعتزال سے نکلا ہے جس کا مطلب الگ کرنا ہے۔چوں کہ اس سے وابستہ مفکرین عام مسلمان عقیدے سے الگ سوچ کے حامل تھے اس لیے انھیں معتزلہ کہا گیا ہے۔معتزلہ کے ردعمل میں اشاعرہ کے علاوہ اسپین میں ابن حزم، مصر میں طحاوی مکتبہ فکر اور سمر قند میں ماتریدیہ مکتبہ فکر وجود میں آیا۔معتزلہ سے وابستہ بڑے فلسفیوں میں واصل بن عطا، ابوالہذیل، جاحظ، بشر بن معتمر اور نظام ابراہیم سیا ر اور عمرو بن عبید کے نام اہم ہیں۔اموی خلیفہ یزید بن ولید معتزلی خیالات رکھتا تھا۔معتزلہ کو زیادہ عروج عباسی خلیفہ منصور کے زمانے میں ہوا جس نے اس فلسفہ کی ترویج و اشاعت میں خاص کردار ادا کیا۔اس کا معتزلی مفکر دوست عمرو بن عبید جب فوت ہوا تو اس نے سوگ منایا اور اس کا ایک مرثیہ لکھا۔ یہ ایک انوکھا واقعہ تھا کہ وقت کا خلیفہ کسی فلسفی اور مفکر کی وفات پر مر ثیہ لکھے۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان خلفا علم و دانش کے دشمن تھے انھیں یہ مثال ضرور پیش ِ نظر رکھنی چاہیے۔یہی ایک مثال نہیں بلکہ اس طرح کی ہزاروں مثالیں تاریخ کے اوراق پر رقم ہیں۔
معتزلہ ہر معاملے میں عقل کو فوقیت دیتے تھے۔شروع میں انھوں نے فلسفیانہ استدلال کو اسلام کے دفاع میں پیش کیا یعنی جو غیر مسلم اسلام کے بعض عقائد کو غیر عقلی ثابت کرنے کے لیے دلائل دیتے تھے یہ ان کے رد میں عقلی دلائل دیتے تھے یعنی اسلام مخالفین کا مقابلہ انھی کے ہتھیاروں سے کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ان کا دائرہ فکر مذہبی عقائد کی فلسفیانہ پرکھ تھا۔ ان کی وجہ سے جہاں یہ فائدہ ہوا کہ اسلام میں عقلیت کا فروغ ہوا وہاں کچھ نقصانات بھی ہوئے کیوں کہ ایمان کے تقاضے کچھ اور ہیں اور اس کے تمام معاملات کی عقلی توضیح بہر حال نہیں کی جا سکتی۔
معتزلہ نے عقل اور وحی دونوں ہی کو علم کے ذرائع قرار دیا اور یہ استدلال کیا کہ ان دونوں میں ہم آہنگی اور مطابقت پائی جانی چاہیے۔یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ جب عقل اور وحی میں کسی معاملے میں عدم مطابقت نظر آئے تو کسے ترجیح دی جائے؟۔اس کا جواب معتزلہ کے پاس یہ تھا کہ عقل کو فوقیت دی جائے کیوں کہ خدا خلاف ِعقل کچھ نہیں کرتا اور یہ صرف ہماری کم عقلی ہے کہ ہمیں یہ عدم مطابقت نظر آتی ہے۔
معتزلہ کو اہل عدل و توحید بھی کہا جاتا ہے۔ارسطو نے کہا تھا کہ کائنات قدیم ہے یعنی خدا اور کائنات ہمیشہ سے ہم موجود ہیں یعنی Co-Exist کرتے ہیں۔معتزلہ نے کہا کہ ارسطو کے اس تصور کا اس قرآنی تصور کہ کائنات اللہ کی مخلوق ہے یعنی اللہ نے اسے وقت کے کسی خاص لمحے میں خلق کیا کوئی تضاد نہیں۔وہ کائنات کو خدا کی تخلیق ہی مانتے ہیں مگر اس طرح کہ کائنات پہلے اللہ تعالٰی کے ہاں بالقوۃ (Potential) حالت میں تھی جسے خدا کی تخلیقیت بالفعل (Active) حالت میں لانے کا سبب بنی،وہ حالت جس میں اسے ہم دیکھ رہے ہیں۔موجودگی کے جتنے بھی اوصاف اور مقولات یعنی موجودگی کی وہ تمام شرائط جو کسی چیز میں اس کی موجودگی کے لیے ضروری ہیں وہ پہلے ہی سے کائنات کے ساتھ نہ تھیں بلکہ اس کے بالفعل حالت میں آنے کے ساتھ ہی ظاہر ہوئیں۔ارسطو نے خدا کو خالق کے بجائے محض ایک محرکِ اول (Prime Mover) قرار دیا تھا۔معتزلہ کے نزدیک بھی خدا ایک محرک ہے اور اس کی تحریک اس کائنات کی تخلیق یعنی اس کو بالقوۃ حالت سے بالفعل حالت میں لانے کا سبب بنی ہے۔خدا کائنات کا خالق ہے مگر کائنات اس کے ساتھ ازل سے Co-Exist نہیں کرتی۔اس طرح معتزلہ نے ارسطو کے تصور ِ کائنات اورقرآنی تصور کائنات کے درمیان ایک رستہ نکالنے کی سعی کی۔ معتزلہ نے وجود کو ذات کی ایک صفت قرار دیا۔کوئی چیز کیسے وجود میں آتی ہے؟ اس کا جواب معتزلہ نے یہ دیا کہ جب خدا کسی شے کے اند ر وجود کی صفت شامل کر دیتا ہے تو وہ چیز وجود میں آجاتی ہے۔وجود ہی وہ واحد صفت ہے جو کسی چیز کو مادی شکل میں سامنے لاتی ہے۔
معتزلہ نے خدا کے مجسم و مشخص ہونے سے انکار کیا۔ان کے نزدیک خدا کا اس طرح سے وجود ہرگز نہیں جس طرح ہم دوسری اشیا و مظاہر کا سمجھتے ہیں۔کیوں کہ موجودگی کی جو شرائط ہم دوسری چیزوں پر لاگو کرتے ہیں خدا پر ان کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔معتزلہ کے نزدیک خدا کی صفات اس کی ذات کا عین ہیں کیوں کہ اگر ہم الگ سے ان صفات کا وجود سمجھیں گے تو اس کا مطلب ہو گا کہ کوئی اور چیزیں بھی وجود رکھتی ہیں جو خدا کے ساتھ ہم موجودگی (Co-Existence) کی حامل ہیں۔یعنی صفات الٰہی کو اگر ذات الٰہی سے الگ،حقیقی اور جوہر پر زائد (Superadded)سمجھا جائے تو اس سے تعدد ِ قدما لازم آتا ہے جو معتزلہ کے خیال میں شرک ہے۔دراصل اس حوالے سے مختلف تصورات رائج رہے ہیں۔ایک تصور یہ ہے کہ ذات ِ باری صفات باری ہی کی کلیت اور مجموعے کا نام ہے۔ اس تصور کو تشبیہ عینی کا نام دیا جاتا ہے۔جب کہ یہ تصور کہ ذات باری صفاتِ باری ہی کا مجموعہ یا کل نہیں بلکہ اس سے زائد اور ماورا بھی ہے تشبیہ مع التنزیہ کہلاتا ہے۔معتزلہ کے مقابلے میں اشاعرہ نے صفاتِ باری کو ذاتِ باری پر زائد ہونے کے ساتھ ساتھ تنزیہ(Transcendence) کا بھی تصور پیش کیا۔ان کے نزدیک خدا ہر انسانی حوالے اور کیفیت سے منزہ اور ماورا ہے۔اس کی ذات اور صفات میں جو تعلق ہے اسے انسانی حوالے اور تجربے کی رو سے سمجھنا ایک سنگین غلطی ہے۔اسے اشاعرہ کا”بلا کیف و لا تشبیہ“کا اصول کہا جاتا ہے۔معتزلہ کے اس اعتراض کہ صفات کو ذات پر زائد قرار دینے سے شرک لازم آتا ہے اشاعرہ نے یہ جواب دیا کہ صفات ِباری نہ تو عین ِ ذات ِ باری ہیں اور نہ ہی غیر ِ ذات ِباری۔اس اصول کو ”لا عین و لا غیر “ کہا جاتا ہے۔اصل میں مسلمانوں کے ہاں ذات و صفات کے مباحث پر یونانی فلسفے کا بہت اثر رہا ہے۔یہ بھی ایک غلطی تھی کہ صفات کو ارسطو کی Attributes کا ہم معنی سمجھ لیا گیا مزید یہ کہ اسما اور صفات کے درمیان جو فرق تھا اسے روا نہ رکھا گیا۔افلاطون کے ہا ں خدا اور امثال (Ideas)کے ربط کی جو مختلف جہات ہیں اسلامی فکر پر بھی اس کے اثرات مرتسم ہوئے۔افلاطون کے حوالے سے خدا اور امثال کے تعلق کی دو توضیحات پیش کی جاتی رہی ہیں۔ایک یہ کہ امثال خدا کے متوازی الگ وجود رکھتے ہیں جسے Extradeical Interpretation of Ideas کہا جاتا ہے۔اور دوسرے یہ کہ امثال خارج میں اپنا وجود نہیں رکھتے بلکہ خدا کی ذہنی کیفیات ہیں یعنیLogos میں پڑی ہیں اور پھر متشکل و مجسم ہو کر اشیا و مظاہر ِ کائنات کی صورت میں سامنے آئیں۔اسے Intradeical Interpretation of Ideasکہا جاتا ہے۔فلو (Philo) جسے متکلم ِ اول بھی کہا جاتا ہے نے اس حوالے سے جن افکار کا اظہار کیااس کا اثر عیسائیوں کے مسئلہ تثلیث اور مسلمانوں کے مسئلہ ذات و صفات پر بھی پڑا۔وولفساں H.A. Wolfson نے اپنی کتاب The Philosophy of the Kalam میں لکھا ہے کہ مسلمانوں میں ذات اور صفات کا مسئلہ ان کے عیسائیوں کے ساتھ مسئلہ تثلیث پر مباحث کے دوران پیدا ہو ا۔ اس حوالے سے تفصیل سے کسی دوسرے مضمون میں بات کی جائے گی۔
معتزلہ کا خیال تھاکہ خدا علم رکھتا ہے مگر وہ اپنی ذات کے لحاظ سے علیم ہے۔وہ اپنی صفت ِعلم سے چیزوں کو نہیں جانتا بلکہ وہ چیزوں کا علم اپنے جوہر میں رکھتا ہے۔انسان اشیا و مظاہر کا علم ان کی مختلف صفات اور حالتوں سے کر پاتا ہے مگر خدا کسی چیز کو جاننے کے لیے اس کی خصوصیات کا محتاج نہیں۔چناں چہ خدا اپنے علم کی وجہ سے علیم نہیں بلکہ اپنی ذات کے لحاظ سے علیم ہے۔ اسی طرح وہ اپنی صفات ِ سمع و بصر (Hearing & Seeing)کی وجہ سے سمیع و بصیر نہیں بلکہ اپنی ذات میں سمیع و بصیر ہے۔اس کا ارادہ اور قدرت اس کی ذات ہی کا عین ہے۔
معتزلہ کا ایک اور تصور جو بہت متنازع (Controversial) ثابت ہوا وہ یہ تھا کہ خدا شراوربدی کو پیدا نہیں کرتا کیوں کہ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو انسان کواس کے برے اعمال کا ذمہ دار کیسے قرار دیا جا سکتا ہے اورخدا اسے دوزخ کی سزا کیسے دے سکتا ہے۔معتزلہ کا استدلال یہ تھا کہ خدا عادل ہے اور وہ اپنے کسی عمل کی سزا اپنے بندوں کو کیوں کردے گا۔انسان اپنے اعمال کا خود ہی ذمہ دار ہے نہ کہ خدا۔معتزلہ کے نزدیک خدا اپنے اصول و ضوابط کا خود بھی پابند ہے اوروہ کبھی ان کے خلاف نہیں کرتا۔خدا صرف نیکی پر قادر ہے شر پر نہیں۔اس کا جواب اشاعرہ نے یہ دیا کہ یہ خدا کی صفت ِ قدرت کی نفی ہے اور خدا ہر شے پر قادر ہے وہ کسی چیز کا پابند نہیں۔معتزلہ نے خدا کی صفتِ ارادہ کا بھی انکار کیا کیوں کہ ان کے نزدیک ارادہ کسی چیز کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے ہوتا ہے اور خدا پر پہلے یا بعد کا اطلاق نہیں ہوتا کیوں کہ وہ لا زمانی ہے۔ان کے نزدیک ارادہ اس چیز کا محتاج ہے جس چیز کا ارادہ کیا جاتا ہے۔خدا کا ارادہ اور اس کا علم ایک ہی شے ہے۔ارادہ انسانی صفت ہے۔یہ زمان و مکان کا محتاج ہے کہ یہ کسی خاص زمانی لمحے اور مکانی صورت ِ حال ہی میں بروئے کار آتا ہے۔معتزلہ کے نزدیک انسان اختیار کا حامل ہے۔اسی لیے تو وہ اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔مگر اس تصور کا انتہائی پہلو یہ بھی ہے کہ جو شخص دوزخ کا حق دار ٹھہرے گا وہ ہمیشہ وہاں سزا بھگتے گا کیوں کہ خدا کے عدل کا یہی تقاضہ ہے۔یوں انھوں نے اس عقیدے کی نفی کر دی کہ خدا اپنی صفت ِ رحیمی کے با وصف گنہ گاروں کو بھی بخش سکتا ہے اور شفاعت کے تصور کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔البتہ وہ قانونِ فطرت کی جبریت (Determinism)کے ضرور قائل تھے۔یعنی کائنات کے جو قوانین خدا نے ایک مرتبہ بنا دیے ہیں کائنات ہمیشہ سے ان کی پابند ہے اور رہے گی اور ان قوانین میں کوئی تبدیلی یا خود روئیت پیدا نہیں ہوتی۔وہ صرف انسانی افعال کے لحاظ سے اختیارکے قائل تھے۔
معتزلہ دیدار ِ الٰہی کے بھی قائل نہیں کیوں کہ ان کے نزدیک دیدار تو اسی کا ہوتا ہے جو مجسم و مشخص ہو اور خدا کا نہ تو جسم ہے اور نہ ہی اس کا شخصی وجود۔وہ کسی ایک جگہ یعنی عرش پر فرو کش نہیں کیوں کہ اس طرح کی ہر جا موجودگی (Omnipresence) کی نفی ہوتی ہے۔وہ ہر جگہ موجودہے اوراسے کسی مخصوص مقام تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔کچھ معتزلہ فلسفی یہ کہتے تھے کہ ہم خدا کو عقل کی آنکھ سے دیکھ سکیں گے۔
ایک اور مسئلہ جس نے عالم اسلام میں ایک بہت بڑے فکری نزاع کی صورت اختیار کی وہ تھا قرآن کے مخلوق ہونے یا نہ ہونے کا مسئلہ۔معتزلہ کہتے تھے کہ قرآن مخلوق ہے۔ کیوں کہ ان نزدیک اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن ہمیشہ سے موجود ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی اور چیز بھی خدا کے ساتھ ازل سے ہم موجود Co-Existentرہی جوتوحید کی نفی ہے۔جب کہ اشاعرہ کا یہ نظریہ تھا کہ قرآن مخلوق نہیں بلکہ کلام ہے اور اور بہ طور خدا کی صفت ِ کلام ہمیشہ سے موجود یعنی قدیم ہے۔ان کے نزدیک قرآن امر ہے نہ کہ خلق اور امر خلق پر مقدم ہے۔
ؓؑمعتزلہ کا ایک اور عقیدہ جو بہت مشہور ہوا وہ تھا ”المنزلۃ بین المنزلتین“ یعنی دو انتہائی نقطہ ہا ئے نظر کے درمیان ایک نقطہ نظر کو درست سمجھتے ہوئے اپنانا۔مثال کے طور پر خوارج کا یہ نقطہ نظر تھا کہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہونے والا کافر ہے جب کہ مرجہ فرقہ کہتا تھا کہ وہ مسلمان ہی ہے۔جب کہ معتزلہ نے ان نقطہ ہائے نظر کے درمیان ایک پوزیشن لی کہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب نہ مسلمان ہے نہ کا فر بلکہ فاسق ہے۔بہ قول غالب ”آخر گنہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں“۔اس حوالے سے معتزلہ کی میانہ روی قابل ِ ستائش ہے۔مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ مامون کے زمانے میں ان کے مخالفین جو قرآن کو مخلوق قرار دینے کے لیے ہرگز تیار نہ تھے ان راسخ العقیدہ مسلمانوں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے گئے اور ختلاف رائے کی اجازت نہ دی گئی۔ شاید اپنے عقائد پر متشدد اصرا ر ہی ان کے زوال کا سبب بن گیا۔اقبال کی معتزلہ کے بارے میں یہ رائے صائب نظر آتی ہے:
”The Mu’tazilah, conceiving religion merely as a body
of doctrines and ignoring it as a vital fact ,took no notice of non-conceptual modes of approaching Reality and reduced religion to a mere system of logical concepts ending in a purely negative attitude.They failed to see that in the domain of knowledge,scientific or religious,complete independence of thought from concrete experience is not possible.”
معتزلہ پر W L Craig کی کتاب The Kalam Cosmological Argument اہم ہے۔
(معتزلہ پر یہ مضمون جناب میاں ارشد فاروق ایڈووکیٹ جو کہ ایک صاحب فکر و نظر شخصیت ہیں کی فرمائش پر لکھا گیا۔میں یہ مضمون انھی کے نام منسوب کرتا ہوں)

Facebook Comments

اعجازالحق اعجاز
PhD Scholar at Punjab University,Writer

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply