کوئی چشمہ نکل آیا۔۔آغر ندیم سحر

جاوید قاسم کا شمار ایسے تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اردو شاعری کو ہمیشہ نئے مضامین اور تجربات سے نوازا۔ان کی شاعری میں ان کی زندگی کے تلخ تجربات‘سرمایہ دارانہ سوچ کے حامل ادبی غنڈوں گردوں کے خلاف احتجاج‘یورپی استعمار ی رویوں سے پروان چڑھنے والے غیر انسانی رویوں کی بازگشت‘سماجی عدم تحفظ‘انسانی تذلیل اور وحشت و بربریت کی مثالیں بڑی واضح دیکھی جا سکتی ہے۔جاوید قاسم کا مسئلہ کبھی بھی ذاتی نوعیت کا نہیں رہا‘انھوں نے جن موضوعات و مسائل پر بات کی‘وہ انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہیں۔کسی بھی بڑے تخلیق کار کا یہ بنیادی وصف ہوتا ہے کہ وہ انفرادی تجربات کے ساتھ ساتھ اجتماعی رویوں سے کنارہ نہیں کرتا بلکہ بڑا تخلیق کار ہمیشہ اپنے اردو گرد کے ماحول سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔آپ کو جاوید قاسم کی شاعری پڑھتے ہوئے‘اپنے ارد گرد سینکڑوں نہیں ہزاروں جاوید قاسم نظر آئیں گے جن کا مسئلہ معاشی کسم پرسی‘معاشرتی استحصال‘طبقاتی امتیاز اور سرمایہ داری نظام رہا ہے‘جاوید قاسم نے خود غرض ہو کر سوچنے کی بجائے ایک قوم اور مملکت کا نمائندہ بن کے سوچااور معاشرے کو درپیش مسائل پر صدائے احتجاج بلند کی۔کسی نے درست کہا تھا کہ ”ظلم کے خلاف خاموش ہو جانا بھی ظالم کی حمایت ہوتی ہے“۔جاوید قاسم نے ظلم کے خلاف خاموشی اختیار کرنے کی بجائے مظلوم کی آواز بننا پسند کیا۔جاوید قاسم یا اس قبیل کے دیگر شعراء کو ہمارے ہاں یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ یہ ترقی پسند ہیں‘ان کا مسئلہ یہ ہے کہ انھیں خوش حالی نظر نہیں آتی۔حالانکہ ترقی پسند فکر ہمیشہ خوش حالی کی خواہاں رہی مگر خوش حالی وہ نہیں جو غریبوں کا خون چوس کر لائی جائے بلکہ ایسی خوش حالی جس میں جاگیردار اور سرمایہ دار طبقے کی بجائے عام آدمی کو بھی خوش حالی نظر آئے۔ صد افسوس ہمارے ہاں کمزور کو کمزور تر بنایا گیا اور امیر کو امیر تر‘اس کے بعد ہمیں یہ لالی پاپ دیا گیا کہ ”تبدیلی آ رہی ہے“۔غریب آدمی کو کبھی مذہب تو کبھی اصلاح ِ معاشرہ اور تبدیلی کے نام پر”ٹرک کی بتی“ کے پیچھے لگایا گیا۔جاوید قاسم ایسی صورت حال میں خاموش ہونے کی بجائے اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتا ہے، کبھی اپنے جیسے حالات کے ہاتھوں مجبور شاعروں‘ادیبوں کے لیے ہاؤسنگ سوسائٹی کے قیام کا مطالبہ کرتا لاہور کی سڑکوں پر ریلیوں میں نظر آتا ہے تو کبھی انار کلی کے کسی ٹی اسٹال پر اپنے چند ہم خیالوں کے ساتھ انقلاب اور حقیقی تبدیلی پر لیکچر دیتا دکھائی دیتا ہے۔

جاوید قاسم یا جاوید قاسم جیسی سوچ رکھنے والے ترقی پسند تخلیق کار کسی سستی شہرت یا کسی عارضی تبدیلی کے پیچھے نہیں بھاگتے بلکہ یہ لوگ ایک لمبی جدوجہد کرتے آ رہے ہیں‘ان کی جدو جہد آنے والی نسلوں کے لیے لیے ہے‘یہ اس چیز سے بالکل عاری ہیں کہ ان کی ترقی پسند موومنٹ کا ان کی ذات کو کتنا فائدہ ہے بلکہ یہ”لانگ ٹرم پلاننگ“ رکھتے ہیں۔آپ کو کوئی بھی حقیقی ترقی پسند فکر رکھنے والا تخلیق کار (چند ایک کو چھوڑ کر)کسی ٹی وی چینل‘کسی سرکاری کانفرنس‘کسی حکومتی ایوارڈ کی فہرست میں نظر نہیں آئے گا کیونکہ ان کا نظریہ بالکل واضح ہے کہ ہمیں ایسے لالی پاپ دینے کی بجائے ایسی تبدیلی دکھائی جائے جس میں ایک سرکار ایک غریب کو بھی وہ سہولیات دے جو ہمارے ہاں سرمایہ دار کو ملتی ہیں‘کیا حکومت صرف جاگیرداروں کو ہی سپورٹ کرے گی یا پھر غربت کی چکی میں پسے عوام کو بھی ”فسیلیٹیٹ“کرے گی؟۔سوال انتہائی اہم ہے اور یہی احتجاج یا اس سے ملتے جلتے مکالمے‘مباحثے اور سوالات آ پ کو جاوید قاسم کے ہاں نظر آئیں گے۔آپ ترقی پسندوں سے جتنا مرضی اختلاف کر لیں لیکن ایک بات ماننا پڑے گی کہ یہ لوگ اپنے نظریے اور سوچ کے حوالے سے انتہائی”کمیٹڈ“ہیں‘یہ بھوکے مر جائیں گے مگر دال نہیں کھائیں گے‘یہ خود بھی سرکاری مراعات نہیں لیں گے مگر کسی ”سرکاری ادبی جاگیردار“کو بھی غریب کے خون سے محل تعمیر نہیں کرنے دیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارے ہاں جاوید قاسم جیسے تخلیق کاروں کو دانستہ نظر انداز کیا گیا‘ان کا نام ٹی وی مشاعروں اور سرکاری تقریبات سے آؤٹ کروایا جاتا رہا اور وجہ یہی تھی کہ یہ لوگ کسی ”کہانی باز“کی باتوں میں نہیں آئے۔میں نے جاوید قاسم کو درجنوں بار سنا‘ان سے کئی کئی گھنٹے کی نشستیں کیں‘ان سے جی بھر کے مکالمے کیے اور یقین جانیں مجھے جاوید قاسم پر ترس آیا‘ایسے سچے اور کھرے آدمی کو اس سسٹم اور امیرانہ سوچ رکھنے والے ادبی طبقوں نے اسے شدید نظر انداز کر دیا۔کاش جاوید قاسم بھی کوئی اداکار ی کر سکتا یا کسی بیوروکریٹ سے دوستی کر لیتا‘ان کو شاعری لکھ کر دیتا تو آج وہ بھی بین الاقوامی شاعر بن چکا ہوتا مگر جاوید قاسم خود داری کا استعارہ ہے‘اس نے نہ شعر بیچے اور نہ اپنی غیرت کا سودا کیا ِ،بلکہ ڈٹ کر ایسے سامراجوں کا مقابلہ کیا جن کی موجودگی سے ادبی و سماجی معاشرے میں تعفن پھیلا۔میں آج جاوید قاسم کے شعری مجموعے”کوئی چشمہ نکل آیا“کا مطالعہ کر رہا ہوں‘ایک ایک شعر پہ رکا‘بار بار پڑھا اور لطف لیا‘شعر ہیں یا موضوعات کا ایک جہان‘کلام ہے یا صدائے احتجاج‘آپ کچھ بھی کہہ لیں مگر خدارا جاوید قاسم جیسے لوگوں کی قدر کریں کیونکہ”ملتے کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ“۔ہم ہمیشہ ان لوگوں کو تخلیق کار مانتے ہیں جنھیں دبئی اور یورپ کے،شاعروں میں بلایا جاتا ہو‘جنھیں سرکاری تقریبات میں مسند پر بٹھایا جاتا ہو‘جنھیں سرکاری و غیر سرکاری اعزازات سے نوازا جاتا ہو۔ میں جاوید قاسم اور اس قبیل کے دیگر تخلیق کاروں کو زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کیونکہ انھوں نے سرکاری مراعات نہیں لیں مگر پھر بھی عوام الناس کا درد سمجھا اور اس پر لکھا‘ان کے بینک بیلنس نہیں ہیں‘ان کے مشاعروں کے ٹکٹ نہیں ہوتے مگر آپ ایک دفعہ جاوید قاسم کی شاعری کو”سرکاری شاعروں“ کے مقابلے میں رکھ کے دیکھیں اور خود فیصلہ کریں کہ کیا ہم نے جاوید قاسم کے ساتھ ظلم نہیں کیا؟۔اسے نظر انداز کر کے ہم اس کے مجرم نہیں ہیں؟،فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply