• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(اڑتالیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(اڑتالیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کل رات سے میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ سارا وقت بستر پر گزرا اور یوں قسط نمبر 48 وقت پر نہیں لکھ سکا۔ اس کے لیے میں اپنے سب پڑھنے والوں سے معذرت کرتا ہوں۔
ابھی رات کے نو بج رہے ہیں۔ آج گیارہ مئی کا دن اپنے اختتام کو پہنچا۔ گزشتہ رات میں فجر کی اذان کے فوراً بعد اٹھا۔ کچن میں کھانا گرم کر کے کھانے کے بعد کچھ وقت ٹی وی پر خبریں دیکھ کر گزارا۔ اس کے بعد واپس اپنے کمرے میں جا کر سو گیا۔
میں جب اپنے کمرے میں گیا تو صبح کے سات بج رہے تھے۔ کمرے میں جانے سے پہلے ایک نظر میں نے آسمان کی طرف دیکھا، لیکن اب یہ مجھے یاد نہیں رہا کہ اس گھڑی آسمان کا رنگ کیا تھا۔۔۔ بادل تھے یا نہیں۔ بس ایک بات یاد رہ گئی ہے۔ جب میں صبح آسمان کو دیکھ رہا تھا تو میری نظر اپنے گھر کے سامنے والے گھر کی چھت پر بنی ہوئی پانی کی ٹینکی پر پڑی تھی اور وہاں پر ایک کوّا بیٹھا ہوا تھا۔
آسمان کے ساتھ اُس کوے کو دیکھنے کے فوراً بعد میں کمرے میں جا کر سو گیا تھا۔ دن کے وقت آنکھ کھلی تو گرمی کی وجہ سے برا حال تھا، بجلی بھی گئی ہوئی تھی۔ کھڑکی پر نظر ڈالی تو وہ پہلے سے ہی کھلی ہوئی تھی۔ میں واپس آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا، تقریباً ایک گھنٹے کی غیر حاضری کے بعد بجلی واپس آئی تو خوشی کا احساس ہوا، کیونکہ ان دنوں بغیر پنکھے کے بیٹھنا محال ہے۔
پچھلے کئی دنوں سے گرمی کا موسم زوروں پر ہے۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے میرا سارا وقت اب گھر پر ہی گزرتا ہے، اسی لیے دو ہفتے پہلے میں نے اپنے کمرے کے خراب پنکھے کو بھی ٹھیک کروا لیا تھا۔ اب جب کبھی دن کے وقت بجلی جاتی ہے تو بغیر پنکھے کے گھر پر وقت گزارنا سزا سا لگتا ہے۔ دوپہر میں چھت پر بھی نہیں جا سکتے کہ وہاں جھلسا دینے والی تیز دھوپ ہوتی ہے۔ اس دوران ہم بس دو کام ہی کر سکتے ہیں جو کہ ہم کرتے ہیں۔ میرے خیال میں وہ دو کام اس شہر میں رہنے والے بیشتر شہری کرتے ہیں۔
نمبر ایک: بند کمرے میں کھڑکی کے پٹ کھول کر بیٹھنا۔
نمبر دو: بجلی کے آنے کا انتظار کرنا۔
تو میں آپ کو بتا رہا تھا کہ آج میں سارا دن سوتا رہا۔ شام چھ بجے کے وقت اُٹھ کر نہایا اور جب باتھ روم سے باہر نکلا تو آسمان کی طرف دیکھا۔ اُس وقت آسمان کا رنگ ہلکا نیلا تھا اور کہیں کہیں بادل بھی موجود تھے۔ گرمی کا زور بھی کسی حد تک ٹوٹ چکا تھا۔ میں اپنا چہرہ اوپر کر کے آسمان کا جائزہ لینے لگا، کچھ دیر بعد جب میں نے سامنے والے گھر کی طرف دیکھا تو مجھے ٹینکی پر ایک کوّا بیٹھا ہوا نظر آیا۔ اسے دیکھ کر مجھے بےاختیار صبح والے کوّے کی یاد آئی۔ وہ کوا بھی صبج سویرے اسی طرح، اسی مقام پر بیٹھا ہوا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے میں ان دونوں کوؤں کے درمیان کسی بھی قسم کا کوئی فرق محسوس نہیں کر سکتا تھا۔ دونوں ایک ہی سے تھے یا شاید وہ دو نہیں ایک ہی تھے بلکہ تھا۔ کون جانے کہ وہ دو الگ الگ وقتوں میں آکر اُس ایک مخصوص مقام پر بیٹھ گئے تھے۔ آج صبح اور شام کی دو مختلف ساعتوں میں ان دونوں کوؤں کو دیکھنے والا میرا تنہا وجود۔۔۔ کیا ان دونوں نے بھی مجھے اتنے غور سے دیکھا ہو گا۔۔۔ یا اگر وہ ایک ہی کوّا تھا تو اس نے مجھے دیکھ کر اپنے آپ سے یہ کہا ہو گا کہ؛
“یہ وہی شخص ہے جس نے مجھے آج صبح سویرے دیکھا تھا اور اب دن کے اختتام پر جب شام کے سائے گھنے ہو رہے ہیں تو یہ مجھے پھر سے دیکھنے کے لیے اپنی چھت پر آگیا ہے”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply