میں اور میرا مکالمہ۔۔رمشا تبسم

موجودہ دور کے مصنفین  زیادہ تر سوشل میڈیا سے جنم لے رہے ہیں،اور سوشل میڈیا کے بہت سے منفی پہلوؤں پر آئے روز ہم سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں۔کبھی الیکٹرانک بچوں کے نقصانات کبھی ڈیجیٹل تربیت پر سوالات ۔مگر سوشل میڈیا کا ایک فائدہ جو اب بہت  زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے وہ یہ  کہ ہر خاص و عام شخص علم و تدریس سے وابستہ ہو رہا ہے۔اور کچھ نہ ہو سکے کم سے کم فیس بک وال تک تو ہر کوئی ہی ایک رائٹر ہے۔باتھ روم سنگر کے زمانے سے نکل کر سب لوگ اب فیس بک رائٹر بنتے جا رہے ہیں۔فیس بک پر لکھنے کا رواج تو تب سے ہے جب سے فیس بک وجود میں آئی۔مگر ویب سائیٹ نے وجود میں آ کر ان نئے کھاریوں کو ایسا موقع فراہم کیا کہ اب بے شمار مصنفین اپنی کتب شائع کروا چکے ہیں۔اور انکے لکھنے کی صلاحیت میں بھی نکھار پیدا ہوتا جا رہا ہے۔اور معاشرے میں اپنے  قلم سے کچھ نہ کچھ بہتری لانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔کہیں نہ کہیں لکھتے اور پڑھتے ہوئے مضنفین کی سوچ کا دائرہ کار وسیع ہوتا جا رہا ہے اور معاشرے میں پھیلتی عدم برداشت میں اس وجہ سے کمی واقع ہو رہی ہے۔لکھاری اب اپنے موقف پر ڈٹ کر کھڑے رہنے کی بجائے ہر پہلو پر سوچتے ہیں۔لوگوں کی رائے کا احترام کرتے ہیں اور دوسروں پر فتوے لگانے کی بجائے انکی رائےسے اختلاف کے باوجود احترام کرتے ہیں۔ یہی مثبت تبدیلی کی ہم سب کو اشد ضرورت ہے کہ ہم سب کو انکے سچ کے ساتھ جینے دیں اور اپنا سچ ان پر زبردستی مسلط نہ کریں۔ایسا نہیں ہے کہ سو فیصد مثبت تبدیلی واقع ہوئی ہے مگر کافی حد تک بہتری دیکھنے میں آتی ہے۔جبکہ ابھی بھی کچھ لکھاریوں نے فیس بک کو جنگ کا میدان بنایا ہوا ہے اور اپنی قلم کی طاقت کو  زبردستی منوانے کی خاطر لفظوں کے نشتر چھوڑتے نظر آتے ہیں۔اس فسادی ذہنیت سے بالکل تو نہیں مگر کافی حد تک نجات مل رہی ہے۔اور لوگ فضول بحث کی بجائے کچھ تخلیقی کام کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔

مجھے کچھ لائنیں لکھنے کا شوق ہوا کرتا تھا۔کسی تصویر کو دیکھ کر دو چار لائنیں لکھ لیتی تھی۔دوست احباب کو لگا مجھے تحریریں لکھنی چاہئیں ۔سوچا لکھ کر دیکھو۔۔معمولی سی تحریریں لکھنے کی کوشش کی سب کو پسند آئی۔شاید یہ نشہ ہی ایسا ہے کہ  کوئی چند الفاظ کی تعریف کر دے تو دل کرتا ہے اس سے بہتر الفاظ میں کچھ اور لکھا جائے۔یہ سلسلہ فیس بک تک محدود تھا۔پھر ایک مقامی اخبار میں سیاست پر ایک مضمون بھیجا جو پبلش ہو گیا۔نشہ بڑھ گیا۔پھر آن لائن اخبارات تک رسائی حاصل کی۔ایسے ہی ایک دوست سے ایک تحریر شیئر کی تو اس نے پڑھ کر کہا کمال لکھا ہے تمہیں مکالمہ پر لکھنا چاہیے۔
میں نے کہا وہ کیا ہوتا ہے؟
بتایا گیا ایک ویب سائیٹ ہے جہاں مضامین پڑھتا رہتا ہوں۔ تم انعام رانا سے رابطہ کرو۔انہوں نے انعام رانا کی آئی۔ڈی کی تصویر شیئر  کی ۔میں نے دیکھا اور سوچا لو بھلا اب ایک انجان شخص وہ بھی ایک آدمی اسکو میسیج کروں ۔یہ تو ہو گئی  میرے اصولوں کے خلاف بات۔میں بھلا انجان شخص کو کیوں میسیج کروں۔اور وہ بھی جو شکل سے اتنا سنجیدہ اور سمجھدار لگتا ہو۔
دوست نے کہا نہیں تم کرو میسیج تمہیں کھا نہیں جائے گا وہ۔
ہمت کی اور میسج میں سلام لکھ بھیجا۔اور مدعا بیان کیا کہ  سر ایک تحریر عورت مارچ کے حوالے سے لکھی ہے ۔آپ کی ویب سائیٹ پر بھیجنا چاہتی ہوں۔جواب آیا اس ای ۔میل پر بھیج دیں۔اور ساتھ میں اپنا تعارف اور اپنی تصویر بھی بھیج دیں۔

میں چونکہ مکالمہ سے واقف نہیں تھی۔سوچا لو بھئ خوامخواہ تصویر بھی دوں ۔ اتنی کونسی مجھے آگ لگی ہے۔میں نے ان سے کہا میں تصویر سوشل میڈیا پر استعمال نہیں کرتی تو انعام رانا سر نے جواب دیا۔کوئی بات نہیں کوئی پروفائل پکچر بھیج دیں ۔

لہذا ان سے بات کرکے مجھے احساس ہوا کہ  نہیں تصویر میں جتنے غصیلے اور کھڑوس لگتے ہیں وہ بالکل بھی نہیں ہیں۔اور ایک کامیاب ویب سائیٹ کے مالک ہونے کے باوجود غرور اور تکبر بالکل نہیں ہے۔

لہذا مارچ 2019 میں پہلی بار انعام سر سے رابطہ ہوا اور مکالمہ سے تعارف ہوا۔اور مکالمہ پر پہلی تحریر خواتین کے حوالے سے بھیجی گئی۔ہم چونکہ پاکستان کے تعلیمی نظام کی چکی میں پستی ہوئی عوام ہیں ۔لہذا نہ تو ہماری پنجابی اچھی ہوتی ہے نہ انگلش پر عبور اور نہ ہی اردو ہماری قومی زبان ہو کر بھی زبان پر صحیح سے موجود رہتی ہے۔

بے شمار اردو کی اغلاط سے بھرپور تحریر انعام رانا کو بھیجی گئی ۔جو یقیناً انہوں نے اسما مغل کو بھیجی اور تحریر میں سے غلطیاں نکال  کر اس کو خوبصورتی سے اسما آپی نے پبلش کر دیا  ۔یہ پہلا موقع تھا کہ  مجھے محسوس ہوا کہ  ہاں بھئ مجھے بھی لوگ پڑھیں گے۔اور جو پڑھیں گے۔ ان سے بات چیت کا موقع بھی ملے گا۔یوں تقریباً اس عورت مارچ پر مجھے مکالمہ سے منسلک ہوئے ایک سال مکمل ہوا۔
میرے نزدیک مکالمہ ایک ویب سائیٹ نہیں اور اس کے مدیر اعلی اور ایڈیٹرز کوئی انجان افراد نہیں۔
بلکہ مکالمہ اب میرا گھر ہے۔اور یہ سب میری فیملی ممبرز ہیں۔بے شمار محبت اور عزت سے مکالمہ اور مکالمہ والوں نے مجھے نوازا۔ مجھے ایک بار بھی احساس نہیں دلایا گیا کہ  میرے لکھنے میں پختگی نہیں۔یا مجھ میں اردو لکھنے کی صلاحیت نہیں۔بلکہ جو لکھا اس کو پبلش کر کے مجھے مزید لکھنے کی طرف گامزن کیا۔مکالمہ نے ہر تحریر پبلش کرکے یہ لکھنے کا نشہ بڑھایا ۔انعام سر ,احمد رضوان سر,معاذ بن محمود اور اسما مغل آپی یہ وہ شخصیات ہیں جن کے لئے مکالمہ سب سے  زیادہ اہم ہے۔اور انہی شخصیات نے مجھے بہت محبت اور احترام دیا۔مجھے سنجیدہ مسائل پر سوچنے اور پڑھنے کا موقع دیا۔شرارتیں برداشت کیں ۔مجھے کبھی روکا ٹوکا نہیں۔کسی تحریر کو خواہ وہ کتنی ہی انکے موقف کے خلاف کیوں نہ ہو مجھے ٹارگٹ نہیں کیا گیا۔بلکہ مکالمہ کی وجہ سے میں نے مختلف طریقے سے سوچنا شروع کیا۔اپنے  خود ساختہ اصولوں اور تنگ نظری سے نکلنے کا موقع دیا۔لکھتے لکھتے پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔پڑھتے پڑھتے لکھنے میں نکھار پیدا ہو گیا۔مضمون سے کہانی لکھنا سیکھا۔اور کہانی سے نثری نظم۔بہت بہترین رائٹر نہ سہی  بلکہ رائٹر تو میں ہوں ہی نہیں۔یوں کہہ لیجیے بہت بہترین نہیں لکھتی مگر ہاں لکھتے لکھتے اب کچھ بہتری آتی جا رہی ہے۔

مجھ  پر ویسے بھی لوگوں کی منفی باتیں یا منفی سوچ اثر نہیں کرتی۔مگر اس لکھنے کے نشے نے کچھ ایسا تبدیل کر دیا کہ  جو تھوڑا بہت ماحول اور لوگوں کا اثر ہوتا تھا وہ بھی اب نہیں ہوتا۔اب میرے نزدیک ہر ایک کی رائے اہم ہے خواہ مجھے کتنا بھی اختلاف کیوں نہ ہو۔میرے نزدیک ہر ایک کی سوچ,مسلک ,ذات اور شخصیت قابل احترام ہیں۔اور مجھے سب کی بات سننی ہے،سمجھنی ہے۔اچھی بات کو قبول کرنا ہے اور بری بات کا کوئی حل ضرور نکالنا ہے،اور کسی صورت اپنی ذات یا شخصیت کو برتر سمجھ کر دوسروں کی ذات اور سوچ پر حملہ نہیں کرنا۔ مکالمہ پر پبلش ہونے والی تحاریر پڑھنا بھی ایک نشہ ہے۔کتب سے بہت دور تھی تعلیم کی خاطر تو مجبوری میں کتابیں پڑھ لیتی تھی مگر اردو ادب سے ایک فیصد تعلق نہیں۔۔مگر کیونکہ اب مکالمہ کا حصہ ہوں اس لئے مکالمہ کی تحاریر پڑھنا اب اچھا لگتا ہے۔اور اب مکالمہ کی وجہ سے پڑھنے لکھنے کا جو نشہ  لگا ہے ،اسکی بدولت ایک سال میں ماشا اللہ دو کتابیں پڑھنے میں کامیاب ہو گئی  ہوں۔ایک ذلتوں کے مارے لوگ ،جو محترم بلال حسن بھٹی کی وجہ سے پڑھ پائی ،پڑھی مجبوری میں ہی تھی مگر پڑھ لی۔اور عشق منجدھار جو کہ  محترم معاذ بن محمود کے توسط سے ملی اور پڑھی۔اور پڑھی یہ بھی مجبوری  میں ہی ۔مگر پُر امید ہوں کہ  ایک نہ دن کتابوں والا نشہ ضرور کروں گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ سے مجھے بہت خوبصورت دوست ملے۔بے پناہ محبت ملی،یہ انمول رشتے اور خوبصورت احساس واقعی   میری زندگی کا اثاثہ ہیں۔مجھے میرے مکالمہ سے محبت ہے۔کیونکہ میں مکالمہ کرنا چاہتی ہوں۔میں مکالمہ سیکھنا چاہتی ہوں۔اور میں ایک مثبت تبدیلی کے لئے پُر امید ہوں۔
انعام رانا سر اور اسما مغل آپی کا خاص طور پر بہت شکریہ جنہوں نے میرے پہلے قدم کو قبول کر کے مجھے مسلسل چلنے کی ہمت دی ۔
میں مکالمہ کے تمام قارئین کی شکرگزار ہوں جن میں سے اب کچھ میرے دوست بھی ہیں جنہوں نے میرے لکھے کو سراہا بھی تنقید بھی کی۔اور مجھے لکھنے اور پڑھنے کی دنیا میں شامل ہونے اور شامل رہنے کا موقع دیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply