ہمارے بچے اور پڑھائیاں ۔۔۔ روبینہ شاہین

ایک پرائیویٹ سکول کی لیڈی ٹیچر:

روٹین اور احساسات:
صبح سویرے اٹھتی ہے، منہ ہاتھ دھو کر، باورچی خانے میں گھر بھر کے لئے ناشتہ بناتی ہے، بچوں کو سکول کے لئے تیار کرتی ہے، بچوں اور میاں کو ناشتہ کرواتی ہے، لنچ پیک کرتی ہے، بچوں کو سکول بھیج کر، خود تیار ہو کر سکول جاتی ہے۔ صبح کی روٹین میں وقت کم اور کام زیادہ ہوتے ہیں، سو اکثر اوقات افراتفری میں ہی سب کام نپٹانے پڑتے ہیں۔

سکول پہنچ کر اسمبلی کی ڈیوٹی، لنچ بریک یا چھٹی کے وقت کی ڈیوٹی کی اضافی ذمہ داریوں کے ہمراہ چھ پریڈز! باقی ماندہ دو پیریڈز میں بھی فائلنگ کا کام، کاپی چیکنگ اور ہیڈز کے ان گنت بکھیڑے۔ اس دن کی تو نہ ہی پوچھیں جب ایک آدھ فکسچر لگ جائے۔ بھلا انسان کتنا کام کرے؟ مانا سکول والے تنخواہ دیتے ہیں، لیکن اس سے زیادہ ہڈیوں تک سے گودہ نچوڑ لینے کا خاطرخواہ انتظام کر کے رکھتے ہیں۔

جیسے تیسے چھٹی کا وقت ہوتا ہے، گھر پہنچ کر بچوں کا لنچ، اور پھر اگلے دن کی تیاری۔ رات اور اگلی دوپہر کے کھانے کی تیاری، بچوں کے یونیفارمز کی تیاری، گھر کی صفائی ستھرائی، اور بے شمار چھوٹے موٹے کام۔ رات کے کھانے کے بعد کچن سمیٹتے سمیٹتے رات کے دس گیارہ بج جانا لازم ہیں۔ کچھ کام نہ چاہتے ہوئے بھی ادھورے چھوڑ کر، بستر کا رخ کرتی تھکی ہوئی۔۔۔ پرائیویٹ سکول کی ٹیچر، جسے کل دوبارہ اسی روٹین کا حصہ بن کر زندگی کی گاڑی کو کھینچنا ہے۔ اگر زندگی میں میاں، سسرال یا دیگر رشتہ داروں کا کوئی مسئلہ ہے تو وہ بونس سمجھیں۔

◾اتنی مشکل روٹین میں ہم ان خبیثوں کو پڑھانے آتے ہیں، اتنا اہم ٹاپک پڑھا رہی ہوں، اور اس نالائق کا دھیان پتا نہیں کہاں ہے۔
◾ایسے ایسے نالائق بچے مائیں سکولوں میں داخل کروا دیتی ہیں، دس دفعہ سمجھا لو، مجال ہے جو انکے پلے کچھ پڑ جائے۔
◾ان کے ماں باپ ہوم ورک تک کروا نہیں سکتے، اور سمجھتے ہیں ہم چالیس منٹ میں جادو کر کے انکو افلاطون بنا دیں۔
◾یہ بچہ ہے ہی نالائق، دنیا کی ہر بات فٹ سمجھ آتی ہے، بس پڑھائی سے ہی موت پڑتی ہے۔
◾سکول کو تو بس فیسیں چاہیئں، ان نالائقوں کو پاس کر کر کے ہمارے متھے مار دیتے ہیں، جنہیں پچھلے ٹاپکس ہی نہیں آتے، انہیں اگلا کیا پڑھائیں۔

ایسی بے شمار سوچوں کے ساتھ کھپتے کھپاتے زندگی رواں دواں ہے۔

ون کلاس کا بچہ:
ون کلاس کا بچہ چھ سال کا ہے، یہ وہ عمر ہے جس میں خالق نے اس پر نماز فرض نہیں کی۔ وہ نماز جو اسی سال کے بیمار، بستر مرگ پر تڑپتے بوڑھے ضعیف پر فرض ہے، جی وہی نماز اس چھ سال کے بچے پر فرض نہیں ہے۔

روٹین اور احساسات:
صبح سویرے اس کو ماں جگاتی ہے، اور اگر اسے نہ جگایا جائے تو وہ مزید سونا چاہتا ہے۔ جگانے کے بعد ماں بچے کی قدرتی رفتار سے زیادہ تیزی سے اس سے تیاری کروا کر اسے وقت پر سکول بھیجنے کی کوشش میں ہے۔ اس جلدی اور ہڑبڑاہٹ کا واضح ترین اثر یہ ہے کہ بچہ ناشتہ نہیں کرنا چاہتا۔ دماغی ہلچل میں اس کے جسم نے کھانا قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ماں کے اصرار پر چند لقمے لے کر جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہے۔ مزید اصرار پر اپنی بے بسی ظاہر کرتے ہوئے کہتا ہے، ماما اور کھایا تو وامٹ ہو جائے گی!!

ماں یا باپ کے ساتھ سکول پہنچتا ہے، یا سکول وین میں مطلوبہ مقدار کی 60 سے 70 فیصد آکسیجن کی دستیابی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے سکول پہنچتا ہے۔ اسمبلی میں کسی سے بات کر لے تو ٹیچر کی گھوری۔۔۔ ٹیچر کے چھ پیریڈز بچے کے آٹھ!

ان آٹھ پیریڈز میں ایک بریک، اور اس ایک بریک میں اس نے تین کام کرنے ہیں: لنچ ختم کرنا ہے، واش روم جانا ہے، اور کھیلنا ہے۔ شازو نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ تینوں کام ہو جائیں، اکثر اوقات اس سے قبل ہی بریک ختم ہو جاتی ہے۔ سکول سے واپسی پر تھکا ہارا جب گھر پہنچتا ہے، تو ماں کپڑے بدلوا کر کھانا کھلاتی ہے۔ اس کے بعد قاری صاحب سے سیپارہ پڑھنا ہے، ٹیوشن جا کر ہوم ورک کرنا ہے، اور واپس آ کر ابھی جی بھر کر کھیل بھی نہیں پایا ہوتا کہ ماں کھانا کھا کر سونے کا عندیہ دے دیتی ہے۔ اور اگر بچہ ون کی بجائے 5 یا 6 کلاس میں ہے، تو ہوم ورک کرتے کرتے ہی شام گزر جاتی ہے۔ اور اگر کوئی ٹیسٹ وغیرہ ہو تو شام کا دامن بھی کم پڑ جاتا ہے۔ کھانا کھا کر بستر پر جانے کا دل نہیں چاہتا، لیکن چار و ناچار سونا ہی ہے، کہ کل پھر سکول جانا ہے۔

◾میڈم کو ہر وقت پڑھانا ہی ہوتا ہے۔
◾ میڈم کو غصہ کتنی جلدی آ جاتا ہے۔
◾ میں میڈم کو اچھا نہیں لگتا۔
◾ یہ میتھس کتنا مشکل ہے یاررر!!!
◾ ہر وقت لکھنا کتنا بورنگ ہے۔
◾ مجھ سے رٹا نہیں لگتا!!!
◾ ماما کی دوستیں آئی ہیں، میں تو ان سے ملنے نہیں جاؤں گا، وہ بھی یہی کہیں گی، اور سناؤ پڑھائی کیسی چل رہی ہے۔
◾ارسل اتنا لائق ہے کیسے ہے، مجھے کیوں سمجھ نہیں آتی۔

ایک بچے کی ایسی بے شمار باتیں سوچتے، زندگی کی دوڑ میں اپنی عمر سے تیز بھاگتے، اپنے استادوں کی تکنیکی مہارت کی کمی کی سزا بھگتتے، اور والدین اور رشتہ داروں کی غیر حقیقی اور ظالمانہ توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کرتے، زندگی گزرتی جاتی ہے۔

ٹیچرز:
ٹیچرز کو چاہئے اپنی پروفیشنل ڈویلپمنٹ پر توجہ دیں، اور جس کام کو کرنے کے لئے انہیں کھپنا پڑتا ہے، اسے آسانی اور سہولت سے کرنا سیکھ لیں۔
اپنی زندگی میں ذاتی سطح پر سکون کو اہمیت دیں۔
اگر آپ بچوں سے محبت نہیں کر سکتیں، ان کا دکھ درد اور احساسات نہیں سمجھ سکتیں، تو کوئی اور شعبہ اختیار کیجئے، آپ کبھی اچھی ٹیچر نہیں بن سکتیں۔

والدین:
بچوں کے معاملے میں ہماری بے حسی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔۔۔ کبھی کسی دو تین سال کے بچے کو ماں کے ساتھ بازار جاتے دیکھئے۔ فقط اتنا نوٹ کیجئے، کہ دونوں کے چلنے کی رفتار ماں کی ٹانگوں کے مطابق ہے یا بچے کی ٹانگوں کے مطابق۔ 60 سے 70 فیصد کیسز میں ماں بچے کی عمر سے زیادہ رفتار سے اسے گھسیٹتی ہوئی ملے گی۔ ایسا یقینا ماں دانستہ طور پر نہیں کر رہی ہوگی، لیکن ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر ایک ان دیکھی جلدی کا شکار ہے۔ اللہ جانے ہمیشہ لیٹ ہو جانے والوں کو بھی بچوں کے بارے میں کیوں اتنی جلدیاں لگی رہتی ہیں۔

خیر، والدین کی سب سے بڑی زیادتی اپنی اولاد کے ساتھ یہ ہے کہ وہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے بارے میں زیادہ جانتے نہیں، اور اس بارے میں جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ 2019 کے ڈیجیٹل دور میں، آپ کے لئے تعلیم و تربیت پر جانکاری حاصل کرنا اتنا ہی آسان ہے، جتنا کھاڈی کی سیل کے بارے میں۔

والدین کو چاہئے کہ سکول سے ڈیمانڈ کریں، کہ وہ کوالٹی آف لیسن کو بڑھائیں، تاکہ کم سے کم ہوم ورک دینا پڑے۔ سکول سے آنے کے بعد بچوں کو ان کی مرضی سے وقت گزارنے کا موقع دیں۔ قاری صاحب اور ٹیوشنز کی ضرورت نہیں ہوتی، اسے کم کرنے کی کوشش کریں۔ سکول ٹیچر سے ایکسٹرا کلاسز ارینج کروائیے، تاکہ ٹیچر کو معلوم ہو، جب تک اس بچے کو سمجھ نہیں آئے گی، میری جان نہیں چھوٹے گی۔ اس بارے میں، علم التعلیم کی بنیادی جانکاری حاصل کریں۔ اپنے بچوں سے توقعات استوار کرتے وقت ضرور سوچیں کہ کیا یہ توقعات ضروری اور بچے کے لئے قابل عمل ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ: یہ تحریر اکثریت کو مد نظر رکھ کر لکھی گئی ہے، یقینا ہمارے معاشرے میں بہت سمجھدار والدین، اور بہت قابل ٹیچرز بھی موجود ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply