بائی ڈیفالٹ۔۔گل نوخیز اختر

بات تو ٹھیک ہے…’’اگر غیرت کے نام پر عورتیں بھی قتل کرنا شروع کردیں تو پاکستان میں کوئی مرد زندہ نہ بچے‘‘۔ ہمارے ہاں غیرت صرف مردوں میں ہی پائی جاتی ہے اور وہ بھی صرف عورتوں کے حوالے سے۔یہاں زیادہ تر غیرت مند وہ لوگ ہی شمار ہوتے ہیں جو کبھی کسی کی دی ہوئی گالی برداشت نہیں کرتے البتہ خود کوئی بات گالی دیے بغیر مکمل نہیں کر سکتے۔ آپ کسی بھی غیرت مند سے بات کرکے دیکھ لیں اس کی تمام تر غیر ت مندی صنفِ نازک کے اردگرد گھومتی ہوگی اور صنفِ نازک بھی وہ جو خصوصاً اس کے اپنے گھر میں موجود ہو۔دوسرے لفظوں میں غیرت مند وہ ہوتاہے جوخود ہر قسم کی عیاشی کرتا ہے لیکن اپنے گھرکی خواتین کو شیر کی آنکھ سے دیکھتا ہے۔میں نے ایک غیرت مند سے پوچھا کہ ’’مرشد! آپ کی کوئی سگی گرل فرینڈ ہے؟‘‘ قہقہہ لگاکر بولے’’ہاں ایک ہے میری جان جگر‘‘۔
میں نے پوچھا ’’وہ آپ کے لیے کیا کچھ کر سکتی ہے؟‘‘انہوں نے گردن اکڑائی’’سب کچھ…وہ میری خاطر اپنی جان بھی دے سکتی ہے‘‘۔

میں نے کچھ دیر حساب لگا کر پوچھا’’تو کیا وہ مسماۃ بے غیرت ہیں؟‘‘۔ایک دم اچھل کر غرائے’’کیا بکواس کر رہے ہو؟ وہ میری ہونے والی عزت ہے‘‘۔میں نے کنپٹی کھجائی’’لیکن مرشد! آپ ہی کہتے ہیں کہ جو عورت مردوں کے ساتھ بات چیت میں ملوث ہو اس کی غیرت مشکوک ہوتی ہے اور…‘‘ بات کاٹ کر گرجے’’ہاں لیکن میری رانو ایسی نہیں‘‘۔ میں نے سہم کر پوچھا’’نہ وہ آپ کی کزن ہے‘ نہ کولیگ‘ نہ کوئی اور رشتہ ،آپ ہی نے بتایا تھا کہ آپ ایک دفعہ اس کے گھرکا نلکا ٹھیک کرنے گئے تھے اور وہ آپ کو پسند آگئی تھی تو پھر ایک غیر عورت جس نے ایک غیرمرد کے ساتھ دوستی کرلی‘ پیار محبت کے وعدے کرلیے وہ کیسے…‘‘ انہوں نے تیزی سے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور دبائو بڑھاتے ہوئے انگلیاں میرے گالوں میں چبھوتے ہوئے بولے ’’چپ …بے غیرت‘‘۔
جیسے اگر آپ کا کسی سے جھگڑا ہوجائے توعموماً پولیس صرف اُس فریق کا ساتھ دیتی ہے جو سب سے پہلے ون فائیو پر کال کرتا ہے بالکل اسی طرح غیرت مند وہ ہوتاہے جو فوری طو رپر خود کو غیرت مند ڈکلیئر کر دیتا ہے۔ یاد رہے کہ اگر دو بندوں کے درمیان ایک بندہ خود کو غیرت مند کہہ دے تو اس کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے کہ مخالف فریق بے غیرت ہے۔پاکستان میں جگہ جگہ غیرت مند بھرے پڑے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہوتاہے کہ ان کے گھر کی خواتین عزت اور غیرت کی منہ بولتی تصویریں ہیں ۔ یہ منہ بولتی تصویریں چونکہ خوف اور قہر کے دباؤ تلے زندگی گزار رہی ہوتی ہیں لہٰذااکثر جب اِن غیرت کی تصویروںکو کوئی غیر ت مند مرد ملتا ہے‘ یہ اطمینان سے غائب ہوجاتی ہیں۔ ہمارے ہاں کسی عورت کو عزت دینے کے لیے بھی اکثر یہی جملہ بولا جاتا ہے کہ’’میں آپ کو اپنی بیٹی یا بہن کی طرح سمجھتا ہوں‘‘۔گویا اگر آپ کسی اور کی بہن یا بیٹی ہیں تو شائد قابل عزت نہیں لیکن چونکہ ’اپنی‘ کہہ دیا ہے لہٰذا عزت کا معیار بڑھ گیا ہے۔یہاں ایسے مرد عام ہیں جن کی بے شمارغیر عورتوں سے شناسائی ہے تاہم یہ حقیقت صرف اس وقت سامنے آتی ہے جب ان کی بیوی تنگ آکر خلع کی درخواست دائر کرتی ہے اور اس میںلکھتی ہے’’میرا شوہر گھر میں غیر عورتوں کو لاتاہے‘‘۔کئی جرگوں اور پنچائتوں میں یہ بھی حرف آخر ہے کہ صرف وہی مرد غیرت مند شمار ہوگا جو اپنے گھر کی خواتین کوغیرت کے نام پرزمین سے چھ فٹ نیچے پہنچائے گا۔ایسے کسی گروہ نے کبھی کسی مرد کے خلاف بے غیرتی کا فتویٰ صادر نہیں فرمایا ‘ آج تک کوئی مرد ’’کاری‘‘ ہوکر نہیں مارا گیا۔ کسی مرد کو ’ونی‘ نہیں کیا گیا۔ہم چاہتے ہیں کہ بطور مرد ہم تو اپنے گھر کی خواتین پر کڑی نظر رکھیں لیکن ہماری کوئی نگرانی نہ کرے۔ ہم اپنے موبائلوں پرتو کوڈ لگاتے ہیں لیکن اپنے گھر کی خواتین کے موبائلز کی ہر لمحہ چھان بین کرتے ہیں کہ کہیں ہماری غیرت پر کوئی حرف تو نہیں آرہا۔ دوستوں کے درمیان ہماراسب سے پسندیدہ موضوع عورت ہوتی ہے لیکن ہمیں گوارہ نہیں کہ ہمارے گھر کی خواتین اپنے کسی بیمار عزیز کا تذکرہ بھی ہمدردی سے کر سکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

فراڈ‘ ملاوٹ‘ جھوٹ اور اذیت کو ہمارے ہاں کبھی بے غیرتی نہیں سمجھا جاتا۔حقیقت تو یہ ہے کہ عورت مرد سے زیاد ہ غیرت مند ہے۔ زیادہ تر عورتیں مردوں کی طرح گالیاں نہیں دیتیں۔چیختی چلاتی ضرور ہیں لیکن کسی غیر عورت سے بات کرنے پر شوہر پر کلہاڑے کے وار نہیں کر تیں۔ اپنی پنچائتیں لگا کر مرد کے خلاف حکم نہیں سناتیں…ان کا واحد ہتھیار ان کی زبان اور آنسو ہوتے ہیں…کئی ایک کو تو یہ بھی نصیب نہیں ہوتے۔ مرد کو کسی کھردری آواز والی خاتون کا بھی رانگ نمبر سے فون آجائے تو وہ جھٹ نمبر save کرلیتا ہے۔ فیس بک کی کسی پوسٹ پر کوئی عورت کمنٹ کردے تو اس کے کمنٹ پڑھنے کی بجائے جھٹ سے اسے فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنا معمول ہے۔عورت محبت سے زیادہ عزت و احترام کی متلاشی ہوتی ہے ۔ محبت تو اسے کوئی بھی دینے کیلئے تیار ہوجاتا ہے۔تاہم یہ مرد کی ترجیح نہیں ہوتی۔محبت میں مرد کا اپنا مفاد شامل ہوتا ہے جبکہ عزت ایک ’’گناہِ بے لذت‘‘ ہے لہٰذا بائی ڈیفالٹ مردوں کی اکثریت اس سے کتراتی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply