سفر عشق ۔قسط4

صبح اٹھتے ہی مجھے احساس ہوا کہ پانی سرد ہونے کی وجہ سے میں کئی دنوں سے نہایا نہیں تھا۔ میں نے بابا جی کے بیٹے کو بلایا اور گرم پانی کے بارے میں پوچھا۔ اس استفسار کی وجہ جاننے کے بعد اس نے کہا کہ گلی میں جو مہنگا ہوٹل ہے اس سے بالکل نیچے کی طرف ایک حمام ہے۔ ہم نے اپنا سامان لیا اور روانہ ہو گئے۔ایک چھوٹا سا دروازہ جس پر بڑے حروف میں حمام لکھا ہوا تھا نظر آیا۔ اندر گئے تو ایک تن ساز دکھنے والا آدمی جو بظاہر حجام لگ رہا تھا ہماری طرف دیکھنے لگا۔ ہم نے تولیہ دکھایا تو تن ساز نے ہمیں اندر جانے کو کہا۔

حمام کے اندر گئے تو ایسا لگا جیسے ہم زمانہ  قدیم کے کسی قید خانے میں آگئے ہیں۔ دیواریں بہت ہی موٹی اور مضبوط لگ رہی تھیں۔ جیسے نہانے کے بعد ہمیں بھاگنے سے روکنے کے لیے بنائی گئی ہوں۔ ہم بہت احتیاط سے جسم کو حرکت دے رہے تھے تا کہ ہمارے جسم کا،دیوار سے وصال نہ ہو۔

ایک حمام میں تبدیل ہوئی ہے دنیا ۔ ۔ ۔

سب ہی ننگے ہیں کسے دیکھ کے شرماؤں میں!

فرش پر ایک جانب  2 شیمپو کے استعمال شدہ ساشے پھینکے گئے تھے جبکہ دوسری جانب بلیڈ کا آدھاحصہ نظر آرہا تھا۔ اسی طرح  ایک بڑے پتھر پرلال رنگ کا نصف صابن استعمال کے لیے رکھا گیا تھا۔ یہ دیکھ کر ہمیں گھر کے حمام کی بہت یاد آئی۔گھر کے حمام میں نہانے کے دوران ہم ایسا چیخ چیخ کر گانا گاتے کہ امی ہم پر غصہ کرتیں کہ “نہا رہے ہو یا جنگ میں مصروف ہو؟”

بہر حال ہم نے پانی کا نل کھولا تو دھواں دار پانی بالٹی میں بہنے لگا۔ ہاتھ لگایا تو جان میں جان آگئی۔ اس سرد موسم میں ایسا گرم پانی زخم پر کسی دوا سے کم نہیں تھا۔ بدن پر لوٹے بھر بھر کر پانی ڈالنے کے بعد دل و دماغ میں نا قابل بیان لذت کا احساس ہونے لگا۔ یہ تسلیم کرنےمیں ہم بالکل نہیں شرمائیں گے کہ جو فیض ہم نے اس حمام میں نہانے سے حاصل کیا، وہ کبھی گھر کے حمام میں بھی حاصل نہیں ہواتھا۔وہی دن تھا جب ہم نے حمام کو بھی خدا کی  بہترین نعمتوں میں شمار کرنا شروع کیا۔نہانے کے بعد ہمیں ایسا لگا جیسے ہمیں نئی زندگی مل گئی ہو۔ جس کے بعد ہم نے اپنے کمرے میں آکر اپنا بستہ دوبارہ اٹھایا اور مہم جوئی کے لیے نکل گئے۔

مراد علی نے ہمیں تاکید کی تھی کہ ہم “بابو سر ٹاپ”دیکھنے ضرور جائیں۔ ہم نے بابا جی سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ جہاں سے ہم جھیل سیف الملوک کے لیے الٹے ہاتھ گئے تھے، وہاں سے سیدھے ہاتھ جائیں گے تو وہیں ہمیں گاڑیاں ملیں گی۔ ہم ایک بار پھر اسی پرانے ہوٹل میں گئے اور ناشتہ کر کے منزل مقصود کی طرف روانہ ہوگئے۔کچھ دور گئے ہوں گے کہ ہمیں ایک نیلے رنگ کی جیپ نظر آئی۔ نزدیک پہنچے، ڈرائیور کی سیٹ پر ایک داڑ ھی والے شخص کو بیٹھا دیکھا جو اپناسربہت آرام سے سیٹ پر رکھےگانا سن رہا تھا۔ سلام کے بعد ہم نے بابو سر ٹاپ کا نام لیا تو وہ آس پاس دیکھ کر کہنے لگا”ایک بندہ؟”

ہم نے سر ہلایا تو وہ کہنے لگے “بھائی یہ آپ کے لیے بہت مہنگا پڑے گا، کیونکہ ہم ایک بندے  کو لے جاوے یا 5، ہمارے لیے خرچہ اتنا ہی آئے گا”

ہم نے پوچھا کہ کیا اس کا امکان ہے کہ ہم پیدل جا سکیں تو ہنسنے لگے اور کہا “3 دن میں پہنچ جاؤگے”۔

ہم نے کہا “بھائی، میں یہ جگہ دیکھنے کی  غرض سے بلوچستان سے آیا ہوں،آپ ہی کوئی حل بتا دو”۔ یہ سن کر انہوں نے ہمیں صبر کرنے کو کہا۔ انہوں نے کہا کہ اگر اور بندے مل جائیں  تو ہم پر خرچہ کم آئے گا۔ پھر ہم نے خرچے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا “ہم اپنی گاڑی کا 8 ہزار لے گا، اب جتنا بھی بندہ آئے تمھاری مرضی”۔ ہم نے سر ہلایا۔ اور پھر اس انتظار میں بیٹھنے گئے کہ شاید کوئی اور بندہ مل جائے۔

جن کے ہم منتظر رہے ان کو

مل گئے اور ہمسفر شاید ۔ ۔ ۔!

ہم آس پاس دیکھنے لگے۔ چاروں طرف بڑے بڑے پہاڑ، جن پر لمبے اور دراز قد درخت سجے ہوئے تھے۔ سڑک کے بغل سے پر شور اور بے ہنگم ندی گزر رہی تھی۔ ہم نے کافی دیر آس پاس کا جائزہ لیا۔  پھر جا کر ایک دکان سے پانی کی بوتل خریدلائے اور پینے لگے، اور دوبارہ انتطار کرنے لگ گئے۔کچھ دیر آس پاس گھومنےکے بعد ہم دوبارہ ڈرائیور کے پاس آکر گفتگو میں مشغول ہو گئے۔گفتگو کے دوران ہم نے پوچھا تو صاحب نے اپنا نام جمیل بتایا۔ ہم دوبارہ پانی پینے لگے، اور پھر انتظار کرنے لگ گئے، یہاں تک کے دن کے 12 بج گئے۔اب ہم نا امید ہوگئے۔ کیونکہ جمیل بھائی بھی یہی کہہ رہے تھے کہ ہم “آف سیزن” میں آئے ہیں اور اس وقت لوگ کم ہی آتے ہیں۔ ہم پھر پانی پینے لگے اور بوتل خالی کر کے ہم نے نیچے پھینک دیی ۔ دکاندار جس سے ہم نے پانی کی  بوتل خریدی  تھی  ہمیں گھورنے لگا۔ ہم نے کچھ دیر آس پاس دیکھنے کے بعد بوتل کو زمین سے اٹھایا اور قریب رکھے ہوئے کچرے کے ڈبے میں پھینک دیا۔

رنجش بازو نازک کی ضرورت کیا تھی

مجھ کو اک جنبش ابرو سے مٹا دینا تھا!

ہم نے دوبارہ جمیل بھائی سے کسی ممکنہ حل کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے دعا کرنے کو کہا۔

جان تم پر نثار کرتا ہوں ۔ ۔ ۔

میں نہیں جانتا دعا کیا ہے!

کچھ دیر اور گزری ہوگی جب ہمیں دور سے  2 خوبرو جوان لڑکے نظر آئے جو ہماری طرف آرہے تھے۔دونوں کے بستے ان کے کاندھوں پر تھے اور پوشاک سے بھی ہمیں اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ بھی ہماری طرح سیاح ہیں۔ جب وہ نزدیک آئے تو ہم نے پوچھا کہ کیا وہ بابو سر ٹاپ جانا چاہتے ہیں تو انہوں نے نفی میں سر ہلایا۔ دونوں لڑکوں میں سے ایک، جس کی بڑی گھنی داڑھی تھی کہنے لگا “فیری میڈوز”۔

ہم مایوس ہو گئے اور جمیل بھائی کے پاس واپس آگئے۔

کچھ دیر میں وہ دونوں جوان بھی جمیل بھائی کے پاس آگئے مگر ہم نے دیکھا کہ اس بار دونوں جوانوں کے ساتھ کوئی سال خوردہ شخص بھی تھا۔ وہ شخص جمیل بھائی کے پاس آیا اور اپنی شکستہ اردو میں فیری میڈوز کے بارے میں پوچھنے لگا۔ جمیل بھائی نے بتایا کہ یہاں سے ان کو فیری میڈوز کی گاڑی نہیں ملے گی، ان کو پہلے چلاس جانا ہوگا اور پھر وہاں سے دوسری گاڑی میں فیری میڈوز جانا ہوگا۔ماحول میں کچھ دیر کے لیے سناٹا چھاگیا۔ پھر جمیل بھائی نے میری طرف دیکھتے ہوے بولا “اب کافی دیر ہو گئی ہے، اگر ہم چلاس تک جائے گا تو واپس نہیں آ پائے گا کیونکہ رات میں واپس آنے میں خطرہ ہے”

یہ سنتے ہی دونوں جوان بھی میری طرح مایوس ہو گئے۔ پھر ان میں سے ایک جوان جو بڑی نزاکت سے داڑھی منڈوا چکا تھا مجھ سے پوچھنے لگا “باس، آپ کہاں جا رہے ہو؟” میں نے بابو سر ٹاپ کہا تو سال خوردہ شخص جسے ہم بعد میں قاری صاحب کے نام سے پکارنے لگے تھے کہنے لگا “وہ تو راستے میں ہی ہے”۔ میں نے کہا کہ میں پہلی بار   جا رہا ہوں اور مجھے بالکل بھی علم نہیں۔

جمیل نے مجھے بلایا اور کہنے لگا “کیا تم بابو سر ٹاپ دیکھنا چاہتے ہو ؟ ” میں نے کہا “اندھے کو کیا چاہیے؟ دو آنکھیں”۔ جمیل نے کہا کہ ان حالات میں ہم ایک شرط پر جا سکتے ہیں اور وہ یہ کہ ہم ان کو چلاس تک پہنچائیں، رات وہی قیام کریں اور کل صبح سویرے ہم دونوں واپس آجائیں ۔ ساتھ میں جمیل نے یہ بھی بتایا کہ وہاں کھانا اور ہوٹل کے کمرے کا کرایہ آدھا کر لیں گے۔ ہم کچھ دیر سوچنے لگے۔

چل جو بھی ہو دیکھا جائے گا۔

خدا بود یارت، سخی مدد گارت!

“دیکھو بھائی، ہم چار ہیں، اورمیں صرف بابو سر ٹاپ تک جانا چاہتا ہوں، مگر آپ لوگوں کی خاطر میں چلاس تک بھی جاؤں گااس لیےمیں تم لوگوں سے کرایہ تھوڑا کم دوں گا”میں نے دونوں جوانوں کو مخاطب کر کے کہا۔ “جمیل کا کہنا ہے کہ وہ چلاس تک 8 ہزار لے گا، آپ تینوں 2 ہزار دے دو، اور میں 1500۔ باقی میں جمیل سے بات کر لوں گا” تھوڑے  بحث مباحثے کے بعد ہم سب گاڑی میں بیٹھ گئے۔

IMG_1925

جمعہ کا دن تھا۔ اور جب ہم روانہ ہوئے تو اذان کی آوازیں فضا میں گونج رہی تھیں۔ آگے ہم اور قاری صاحب بیٹھے تھے اور پیچھے دونوں جوان حضرات آرام فرما رہے تھے۔ باتوں میں پتا چلا کہ دونوں میں سے ایک کا نام شاہ زیب اور دوسرے کا نام احمد ہے۔ ہم سے زیادہ قاری صاحب، احمد اور شاہ زیب سے مخاطب ہو کر بات کر رہے تھے کیونکہ شاید وہ  قاری صاحب سے زیادہ آشنا تھے۔

قاری صاحب کی گفتگو سے لگ رہا تھا کہ انہوں نے اس راستے پر کافی عرصہ گزارا تھا۔ وہ اکثر علاقوں کے نام جانتے تھے۔ ایک جگہ شہادت کی انگلی سے بائیں طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس جگہ کو بھٹہ کنڈی کہتے ہیں ۔ یہاں کے آلو اور مٹر بہت مشہور ہیں۔ کچھ دیر چلنے کے بعد ہم نے جب نگاہ دوڑائی تو ہمیں دور سے سرخ رنگ کے پہاڑ نظر آنے لگے۔ ہم حیرت زدہ آنکھوں سے انہیں گھورنے لگے۔ سرخ رنگ کے پہاڑ؟ سرخ رنگ؟ ہم حیران بھی تھے اور خوش بھی تھے۔ ہم نے سوچا،جاتے ہی ہم فیس بک پر اسٹیٹس دیں گے کہfeeling red Mountains!!!

ہم نے اشارہ کرتے ہوئے کہا “زندگی میں پہلی بار ہم سرخ رنگ کے پہاڑ دیکھ رہے ہیں” جمیل بھائی کچھ بولنے ہی والےتھے کہ قاری صاحب دخل اندازی کرتے ہوئے بولے”یہ پہاڑ سرخ رنگ کے نہیں، بلکہ ان پہاڑوں پر ایک قسم کا پودا اگتا ہے، خزاں آنے پر جس کا رنگ سرخ ہو جاتا ہے”۔ ہم نے محسوس کیا کہ شاہ زیب، احمد اور ہمارامتجسس رد عمل دیکھ کر قاری صاحب بہت خوش ہوئے تھے۔

پھر اچانک قاری صاحب نے ایک بھینس کی طرف اشارہ کر کے بڑے جوش سے کہا “وہ دیکھو بھینس”۔ میں، شاہ زیب اور احمد ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے۔کچھ دیر گزرنے کے بعدہماری جیپ ایک بڑے ریسٹورینٹ پر رکی۔ ہم بھول ہی گئے تھے کہ ہم چائے کے بغیر 3 گھنٹوں سے زیادہ گزار نہیں سکتے۔ مگر سردی کی وجہ سے ہم نے پہلے رفع حاجت کو ترجیح دی، جس کے بعد ہم نے ایک “مست” دودھ پتی چائے کا کہا اور باہر آکر بیٹھ گئے۔حسین وادیاں، سر سبز پہاڑ، شفاف فضا، پرندوں کی آوازیں، سنسان سڑک اور پولیس کی گاڑی۔ پھرسکوت۔۔۔۔

چائے آگئی۔ ہم نے پیالہ دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ہاتھ گرم کرنے چاہے۔ اس پر فضا ماحول میں پیالہ سے نکلتی بھاپ بھی ہمیں فطرت کا کرشمہ لگ رہی تھی۔ جمیل بھائی ریسٹورینٹ کے اندر جاکر کھانے میں مشغول ہو گئے۔  ہم پر نظر پڑی تو ہمیں بھی کھانے کی دعوت دے دی ۔ ہم نے “نوش جان” کہہ کر چائے کا پیالہ ان کو دکھایا۔اس دوران قاری صاحب بھی ہاتھ میں پیالہ لیے ہمارے پاس آ کر بیٹھ گئے۔

کہاں کے رہنے والے ہو جوان؟ قاری صاحب نے پوچھا۔۔

بلوچستان

بلوچستان میں کہاں؟

“کوئٹہ، علمدار روڈ”

قاری صاحب نے خریداری کی نگاہ سے ہمیں دیکھا اور پھر چائے پینے لگے۔

ہم بہت سارے سوالوں کے منتظر تھے لیکن قاری صاحب بس چائے پیتے گئے۔ ہم بھی چائے پی کرقدرت کے نظاروں میں کھو گئے۔ ہلکی سی سرد ہوا ہمارے گالوں سے ایسے چھیڑخانی کر رہی تھی جیسے محبوب کے ہاتھوں کا لمس۔

“ہم بھی کوئٹہ دیکھ چکے ہیں”، قاری صاحب نے پہاڑوں پر نظر جماتے ہوئے کہا۔ وہاں بہت گرم اور سستا کمبل ملتا ہے۔ ہم جب بھی وہاں جاتے ہیں، واپسی پر کمبل ضرور خرید کر لاتے ہیں۔ مگر ہمیں ایک بات کا بہت افسوس ہے۔

یہ سنتے ہی ہم تیار ہوگئے۔ ہمیں اندازہ تھا کہ پچھلے 15 سالوں میں جو کوئٹہ پر گزری ہے، بہت ہی کم لوگ ہوں گے جو اچھےتاثرات رکھتے ہوں گے۔ بہر حال ہم  ہمہ تن  گوش ہو گئے۔ قاری صاحب نے کہا؛

کچھ سال پہلے، بلکہ بہت سال پہلے کی بات ہے۔ اس زمانے میں ۔ ۔ ۔ کوئٹہ کسی کام کے سلسلے میں گیا تھا۔ کوئٹہ کا آسمان ۔ ۔ ۔ بہت صاف اور شفاف ہوتا ہے۔ وہاں باغ بھی بہت بار آور ہیں ۔ ۔ ۔ ایک دن  ۔ ۔ ۔ باغ سے گزر رہا تھا۔ ہمیں کافی بھوک لگی تھی۔ باغ میں بہت سارے بڑے جاندار سیب تھے ۔ ۔ ۔ ہم نے ۔ ۔ ۔  باغ میں سے ایک سیب لیا  ۔ ۔ ۔  کھانے لگا۔ ۔ ۔ صرف ایک سیب۔ ۔ ۔یہ کہہ کر قاری صاحب کچھ دیر چپ رہے اور پھر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگے۔۔آج تک ہمیں اس کام پر ایسی شرمندگی ہے کہ ہم بتا نہیں سکتے۔ ہمیں بغیر اجازت وہ سیب نہیں کھانا چاہیے تھا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم پھر آخری بار کوئٹہ جائیں اور اس باغ کے مالک سے ملیں اور ان سے “حلالیت” طلب کریں۔

یہ سن کر ہماری زبان پر جیسے قفل لگ گیا۔ ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ ہم کیا کریں۔ قاری صاحب کی حالت دیکھ کر ہم چاہ رہے تھے کہ ان کو تسلی دیں۔ ان کو دیکھ کر ایسا لگا جیسے ان کا بہت ہی قریبی اور عزیز دوست دنیائے  فانی سے کوچ کر گیا ہو۔ ہم چپ رہے۔ اور وہ بھی خاموش ہو گئے۔

کچھ نہ تھا یاد بجز کار محبت اک عمر

وہ جو بگڑا ہے تو اب کام کئی یاد آئے!

اب ہم بلندی کی طرف جا رہے تھے۔ راستہ استوار اور آراستہ تھا۔”یہ بہت ہی بڑی جھیل ہے ” جمیل بھائی نے قاری صاحب سے سبقت حاصل کرنے کی غرض سے کہا۔ مگر جلد ہی قاری صاحب نے دوبارہ نشست پر قبضہ جماتے ہوئےکہا “اسے لولو سر جھیل کہا جاتا ہے”۔

جھیل واقعی میں بہت بڑی اور گہری لگ رہی تھی ۔ گزرتے وقت ہمیں ساری جھیل کو دیکھنے کا موقع ملا۔

جھیل کے بالکل آخر میں جمیل بھائی نے جیپ روکی۔ ہمیں لگا کہ شاید رفع حاجت کی غرض سے روکی ہوگی  مگر جب نیچے دیکھا تو کچھ لوگ جھیل کے پاس تصویر کھنچوا رہے تھے۔ جمیل بھائی نے کہا “یہ جھیل دیکھے بغیر گزرنا گناہ کبیرہ ہوگا”۔

جیسے جیسے ہم نیچے کی طرف جا رہے تھے، ہمارے دل پر ایک عجیب سا خوف طاری ہو رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے جھیل کی وسعت میں اضافہ ہو رہاہو۔ قاری صاحب مسلسل کچھ کہہ رہے تھے مگر اس وقت ہمارا دھیان جھیل کی طرف تھا۔بستہ میں سےہم نے جنگ جہانی دوم کے زمانے کا کیمرہ نکالا۔ بٹن دبایا تو کچھ نہیں ہوا۔ دوبارہ بٹن دبایا تو کیمرے کا لینز باہر کی طرف آ نکلا۔ جھیل کی طرف نشانہ باندھ کر  بٹن دبانے ہی والا تھا کہ کیمرہ خاموش ہو گیا اور لینز دوبارہ اندھر کی طرف جانے لگا۔ مسلسل بٹن دبانے کے باوجود کچھ نہیں ہوا۔احمد اور شا ہ زیب مسلسل سیلفیاں اور تصویر کھینچ رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر پاس بلانے لگے۔ ہم بھی اس انداز سے ان کی طرف جانے لگے جیسے کسی یتیم بچے کو کوئی اجنبی پیار کرنے کے لیے بلا رہا ہو۔

20150918_144235_resized

(میں، احمد اور شاہزیب)

جھیل پر  کچھ تصویریں کھنچوا کے ہم واپس جمیل بھائی کی جیپ میں آ بیٹھے کیونکہ اب ہوائیں تیز ہونے لگی تھیں۔

بابو سر ٹاپ۔

اس کو ٹاپ اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ وادی کاغان کے علاقے میں سب سے بلندی پر واقع ہے۔ یہاں سے نیچے کی جانب  نشیب میں چلنے والی گاڑیاں کیڑے مکوڑوں کی مانندنظر آتی ہیں۔ ہم جیپ سے نیچے اترے تو کچھ خواتین کو اپنے بچوں کے ساتھ تصویریں کھنچواتے دیکھا۔ پاس ہی ایک بچہ آلو چپس کی تھیلی کے اندر مستقل جھانکتے ہوئے چن چن کر چپس کے ٹکرے منہ میں ڈال رہا تھا۔ جب کہ ایک خاتون مسلسل اس بچے سے مخاطب ہو کر کہہ رہی تھی کہ وہ کیمرے کی طرف نظررکھے تا کہ اس کی تصویر کھنچوائی جاسکے۔

بابو سر ٹاپ پر ہمیں برف کی سفیدی بھی دکھائی دی۔ کچھ دور ایک اور خاندان جس میں چھوٹے بچے بھی شامل تھے، ایک دوسرے کو برف کے گولے (پاغنڈہ) بنا بنا کر مار رہے تھے۔سطح زمین سے بہت اوپر ہونے کی وجہ سے بہت سرد اور تیز ہوائیں تیز  دھار  چھریوں کی طرح گالوں پر بوسے دے رہے تھے۔ مگر یہاں سے نیچے کے طرف کا نظارہ ہمارے لیے دیدنی تھا۔ ہر اونچائی کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ ہمیں اپنی  اوقات یاد دلاتی ہیں۔

افتادگی آموز اگر طالب فیضی ۔ ۔ ۔

ہرگز نخورد آب زمینی کہ بلند است!

ہم کچھ دیر نیچے کی طرف دیکھتے رہے۔ پھر جب سردی برداشت سے باہر ہوگئی تو ہم دوبارہ جیپ میں آکر بیٹھ گئے۔ باہر شا ہ زیب اور احمد تصویریں کھنچوا رہے تھے۔بابو سر ٹاپ گزر گیا۔ اب جیپ مسلسل نیچے کی طرف رواں تھی۔ سانپ نما رستہ ایسا بنا ہوا تھا کہ ہم کبھی دائیں جانب لڑھکتے تو کبھی بائیں جانب۔  مگر رخ مسلسل نشیب کی جانب ہی تھا۔ اسی دوران ہمیں نیچے کی طرف ایک بہت ہی خوبصورت دلہن کی طرح سجا ہوا گاؤں نظر آیا ۔ہم اس لحاظ  سے خوش نصیب ہیں کہ ہم بچپن میں ایران کے شمالی علاقوں کا بھی دیدار کر چکے ہیں۔ مگر یقین جانیے ایسی متنوع خوبصورتی ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔

پوچھنے پر پتا چلا کہ اس سڑک کی تہہ کو بابو سر گاؤں کہا جاتا ہے۔ عجیب و غریب طرح کے پھولوں اور درختوں نے ہمیں اپنے طلسم میں جکڑ رکھا تھا۔ ہر رنگ موجود تھا۔ نارنجی، سرخ، سبز، آبی، اور سب رنگوں میں نمایاں سادگی۔ درختوں پر زرد یتے ہوئے ا س   سے مخاطب ہو کر اترنے  میں مصروف تھے۔ بیچ میں سے نہر کسی خوبصورت اور باحیا دلہن کی طرح شرماتی اور بل کھاتی گزر رہی تھی۔ راستے میں ہمیں بڑے بڑے  پتھر دکھائی دیے جیسےچار منزلہ عمارات۔ ان پتھروں  پر اس طرح سے گھر بنے ہوئے تھے جیسے یہ بھی خدائے  متعال کے کرشموں میں سے ایک ہوں۔ گول اور ایک جیسی تراشی ہوئی لکڑیوں سے گھر بنانے کا ایسے شاہکار ہمارے لیے عجوبہ سے کم نہیں تھا۔

ہماری آنکھوں کو فرصت نہیں تھی کہ کہاں اور کس طرف دھیان رکھیں، محبوب کے ہونٹوں کو دیکھیں یا اس کی زلفوں کو۔ شرم و حیا پر توجہ دیں یاشوخ اداؤں پر؟ کہیں خوبصورت پھولوں کا غنچہ تو کہیں زلف نما لمبے اور گھنے درخت۔ کہیں محبوب کی چادر جیسے رنگ برنگے باغ تو کہیں ان کی سریلی آواز جیسی نہر کی صدائیں۔ آنکھیں حیران اورزبان بیان کرنے سے قاصر۔

جیپ میں ہر  شخص خاموش بیٹھااپنی توفیق کے مطابق نماز ِعشق میں مصروف تھا۔ ایسی نماز،ایسا سجدہ، ایسی دعا۔ سبحان اللہ!۔

نقش کو اس کے مصور کو بھی کیا کیا ناز ہیں

کھینچتا ہے جس قدر، اتنا ہی کھینچا جائے ہے!

چلاس!

چلاس پہنچتے ہی ہم جب جیپ سے اترے تو ہمیں شہر کے سامنے والے پہاڑ پر بڑے حروف میںSSPلکھا ہوا دکھائی دیا۔ ہم چپ ہوگئے۔ سکوت۔

ہمیں چلاس کا موسم بالکل بھی نہیں بھایا۔ وہاں پہنچتے ہی ہماری کیفیت ہی بدل گئی۔ ہم افسردہ ہو گئے۔ پتا نہیں چلاس کیوں ہمیں کراچی کے شیرشاہ کی یاد دلاتا رہا؟یا پھر کوئٹہ کا سریاب روڈ۔ بالکل شیر شاہ کی طرح چلاس کی خاک اور دھول میں تیرگی نظر آرہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے مٹی میں تیل کی ملاوٹ کی گئی ہو۔ چپچپی  ریت نے آسمان کو اپنی بانہوں میں جکڑا ہوا تھا۔تیز ہوائیں ایسے چل رہی تھیں جیسے قیامت آنے والی ہو۔ ایک اور بات جو ہم نے نوٹ کی،  وہ یہ کہ چلاس میں ہم نے صنف نازک کا نام و نشان تک نہیں دیکھا۔صرف مرد ہی مرد ہمیں نظر آئے۔خیر۔ اب یہ بھی ہمارے ایڈونچر کا ایک حصہ تھا۔ ہمیں پتا تک نہ چلا اور قاری صاحب بڑی نزاکت سے غائب ہو گئے۔ ایسی پھرتی کا ہم نے صرف وسیم اکرم کی گیندوں میں مشاہدہ کیا تھا۔

جیپ سے نکل کر احمد مسلسل فون سے کان لگائے کہہ رہا تھا “ہاں میں خیریت سے ہوں”۔ ہم نے سوچا کیسے کیسے لوگ ہیں۔ پریشان تو ہمیں ہونا چاہیے کیونکہ بکرا خود شکاری کے پاس آیاہوا ہے۔خیر کچھ دیر ہم ہوٹل کے سامنے کھڑے رہے۔ جمیل بھائی ہوٹل کے اندر گئے تاکہ ایک کمرے کی بکنگ کرا سکے۔ ادھر شاہ زیب اور احمد فیری میڈوز کے لیے مختلف گاڑی والوں سے بات کر نے لگے۔ہم نے اپنے دونوں ہمسفر حضرات  کو الووداع کہا اور فیری میڈوز تک بہ خیر و عافیت پہنچنے کی دعائیں دیں۔ پھر دونوں کو باری باری گلے سےلگایا اور آپس میں برقی پتوں کا تبادلہ کیا تا کہ وہ ہمیں ہماری تصاویر ارسال سکیں۔

دونوں رخصت ہوئے۔شام کی تاریکی اب پھیلنے لگی تھی۔جمیل بھائی بکنگ کر کے باہر آگئےتوانہوں نے ہمیں بھی بلالیا تا کہ ہم کمرہ کو نگاہ شب گزاری کی غرض سے دیکھ سکیں۔ ہم گئے۔ دروازہ کھولا تو ہمیں پتا نہیں کیوں غالب ماما کے معشوق نواب جان کے آوارہ کوٹھے کی یاد آئی۔

ہم نے جمیل بھائی کو اپنا “ٹھینگا” دکھایا۔ باہر آ کر جیپ سے سامان لے کر نواب جان کے کوٹھے میں منتقل کر دیا۔ جمیل بھائی جوپنکچر لگوانے  جا رہے تھے،ہم سے پوچھا کہ کیاہم ان کے ساتھ جانا چاہتے ہیں؟ہم نے ہاں کر دی۔ نواب جان کے کوٹھے میں کونسی موسیقی و کباب کی محفل ہونے والی تھی؟

CIMG4819

پنکچر لگوانے کی غرض سے ہم نزدیک ایک دکان پر رک گئے۔ ہم جیپ سے باہر نکلے تو دیکھاکہ  ہوا اور بھی تیز ہو گئی تھی۔ ہم نے جیب  سے ماسک نکالا اور پہن لیا۔اسی دوران ہم نے قریب سے دو آوارہ کتوں کو گزرتے دیکھا۔ ہماری قسمت۔ وہ بھی مرد کتے تھے۔

نواب جان کا کوٹھا!

کمرہ بہت تاریک تھا۔ بلب کو روشن کیا تو ہرطرف ایک زرد رنگ کی دھند لی روشنی پھیل گئی۔  کمرے میں دو بستر رکھے ہوئے تھے جن پر سفید تکیہ اور سرخ رنگ کا کمبل رکھا ہوا تھا۔ ہم نے باری باری پہلے بستر، پھر تکیے اور پھر کمبل کو سونگھنا شروع کر دیا۔ جمیل بھائی بڑی دلچسپی سے ہمیں ایسے دیکھ رہے تھےجیسےہم کوئی سائنسی عمل سر انجام دے رہے ہوں۔ہم نے ایک بار پھر چاروں طرف نگاہیں دوڑائیں۔ نواب جان کا آوارہ کوٹھا!۔

پھر رفع حاجت کے لیے ہم نے بڑی حسرت سے ٹوائلٹ کا رخ کیا۔ دروازہ کھولتے ہی ہماری ساری حسرتیں اور شوق پھیکے پڑ گئے۔ جس جوش و ولولہ کے ساتھ ہم گئے تھے، اسی اداسی اور بے بسی کے ساتھ واپس آگئے۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ در اصل، کارآمد ٹوائلٹ کوٹھے کے باہر ہے۔جمیل بھائی نے تاکید کی کہ یہاں کسی کو اپنا شناختی کارڈ نہیں دکھانا۔ ان کو اندازہ ہو گیا تھا۔ ہم نے آنکھیں بند کر کے سر ہلایا۔ایک گھنٹے بعد ہم نے کھانے کے لیے  نیچے ریسٹورینٹ کا رخ کیا۔ سارے ریسٹورینٹ میں صرف میں اور جمیل بھائی بیٹھے تھے۔ جمیل بھائی نے ہم سے کھانے کے لیے پوچھا۔ ہم نے کہا گوشت کے علاوہ سب کچھ چلے گا۔ جمیل بھائی نے کھانے کا آرڈر دیا۔ دال فرائی۔ میں نے تاکید کی کہ مرچی کم ہو۔ پھر انہوں نے ایک پلیٹ قیمہ بھی منگوایا۔

جمیل بھائی آپ کب سے یہاں جیپ چلا رہے ہیں۔

12 سال سے۔

شادی شدہ ہیں؟

ہاں ہماری 2 بیٹیاں ہیں۔

ما شاء الله۔ خدا ان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ جمیل بھائی، آپ کا تعلق کس علاقے سے ہے؟

CIMG4821

(میں اور جمیل بھائی، جنگ جہانی دوم کے کیمرے سے لی گئی آخری فوٹو)

اتنے میں ویٹر کھانا لے کر آگیا۔ ہمیں بہت بھوک لگی تھی۔ کچھ نوالے لیتے وقت ہم دھیان نہیں رکھ پائے کہ جمیل بھائی کیا کہہ رہے ہیں۔ بس اتنا اندازہ ہو گیا کہ ان کا گاؤں ایبٹ آباد کے آس پاس ہے۔ کھانا بہت خوش مزہ تھا۔ یا پھر شاید ہمیں بھوک زیادہ لگی تھی۔دال ایسا فرائی کی گئی تھی کہ نہ تو مکمل گلی ہوئی تھی اور نہ ہی سخت۔ منہ میں ڈالتے ہی پگھلنے لگتی۔ ایک نوالہ دال، اور پھر سلاد منہ میں ڈالنا ایسا تھا جیسے دل کی انگیٹھی  پر پانی چھڑکنا۔وہ کراچی والے کہتے ہیں ناں کہ”منڈ کے کھانا”۔ بس وہی ہوا۔ ہم نے پلیٹ ایسی صاف کر ڈالی  کہ بعد میں دھونے کی ضرورت بھی نہ پڑے۔ شکم بھرکے کھایا۔ اورپھر ہم نے خدائے متعال کا شکر ادا کیا۔

پیسہ دینے جب ہم کاؤنٹر پر گئے تو جمیل بھائی نے پھرتی دکھا کر پیسے دینے چاہے۔ ہم نے ان کو روکا اور کہا “یہ ہماری طرف سے”۔ بڑی منت سماجت کے بعد ہمیں کامیابی ملی۔ پھر کاؤنٹر پر کھڑے شخص نے کمرے کی بکنگ کے لیے ہمارا شناختی کارڈ مانگا۔ ہم جمیل بھائی کی طرف دیکھنے لگے۔ جمیل بھائی نے اپنا شناختی کارڈ دیا۔ کاؤنٹر پر کھڑے شخص نے کہا “دونوں کا چاہیے”۔ ہم تھوڑی دیر ساکت رہے،  پھر ہم نے بھی اپنا شناختی کارڈ میز پر رکھ دیا۔ کاؤنٹر پر شخص نے ہم دونوں کے شناختی کارڈ پر لکھی تفصیلات کتابچہ میں درج کیں اور کارڈز ہمیں واپس دے دیے۔

ہمیں اب نیند آرہی تھی۔ہم بستر پر لیٹ گئے۔ عجیب لگ رہا تھا۔ہمارا تعلق اس صوبے سے ہے جو انجان لڑکیوں تک کے اجنبی مرد کے ساتھ رات گزارنے کو برا سمجھتے ہیں۔ اور ہم اس رات ایک اجنبی مرد کے ساتھ سونے پر رضامند ہو گئے تھے۔ ہائے ری قدرت تیرے صدقے۔

سوتے وقت ہم نے پہلے تواپنی شال اپنے بدن پر اوڑھ لی پھر کوٹھے کاکمبل شال کے اوپر اوڑھ لیا۔ جمیل بھائی مسلسل اپنے موبائل پر کچھ دیکھ رہے تھے۔ ہم نے ہیڈ فونز کانوں میں لگائے۔ اس رات غالب ماما کی بہت یاد آرہی تھی۔

کئی سال پہلے ہم نے 1988میں گلزار صاحب کی بنائی ٹیلی وژن سیریز”مرزا غالب کو آڈیو میں منتقل کر دیا تھا۔فلم کو آڈیو میں سننے کی ایک الگ ہی کیفیت ہے۔ ہم نے آڈیو چلائی ہی تھی جب ہمیں جمیل بھائی کی دھیمی آواز آئی۔ جب ہیڈ فون کان سے نکالا تو جمیل بھائی کہنے لگے؛

میں یہ کہہ رہا تھا کہ اگر تم برا نا مانو تو ایک سوال کروں۔

ہم نے کہا جی جمیل بھائی پوچھیں۔

جمیل بھائی: یار ۔ ۔ ۔  کیا یہ سچ ہے ۔ ۔ ۔  تم لوگ ۔ ۔ ۔ شام غریباں میں ۔ ۔ ۔

ہم نے مسکرانا شروع کر دیا۔

جمیل بھائی: یار برا نہیں ماننا۔ میں صرف پوچھ رہا ہوں۔

ہم: نہیں جمیل بھائی۔ سنی سنائی باتیں ہیں۔ میں کوئٹہ، اور کراچی دونوں جگوں پر شام غریباں کی محافل میں جا چکا ہوں۔ ایسی کوئی بات نہیں جو آپ نے سنی ہے۔ یہ ساری افواہیں ہیں۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو اس سال خود کسی محفل میں جا کے دیکھ لیں، کہ شام غریباں میں ہوتا کیا ہے۔

جمیل بھائی: میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ تو بالکل عقل کے خلاف ہے۔

ہم نے سر ہلایا۔ پھر دوسرا سوال نہ آنے پر ہم نے دوبارہ کانوں میں ہیڈ فون لگایا تو معلوم ہواکہ فلم اس جگہ پہنچ چکی ہے جہاں غالب دیوالی منا رہے ہیں اور مٹھائیاں کھا رہے ہیں۔

دیوالی مناتے جب غالب سڑک سے گزر رہے ہوتے ہیں تو ایک ملنگ سے انکی ملاقات ہوتی ہے۔ گفتگو کچھ یوں ہے،

ملنگ: مرزا؟دیوالی کی مٹھائی کھائیں گے آپ؟

مرزا نوشہ حیران ہوکر”جی برفی ہے، آپ کھائیں گے؟”

ملنگ اور زیادہ وضاحت دیتے ہوئے  پوچھتا ہے”مسلمان ہو کر؟”

مرزا طنزیہ انداز میں پوچھتے ہیں”اور برفی ہندو ہے؟”

ملنگ کوغصہ آتا ہے اور وہ بے ساختہ کہنے لگتا ہے”اور کیا؟ مسلمان ہے؟ شیعہ ہے؟ سنی ہے؟”

مرزا تب پہلے سے زیادہ اطمینان سے پوچھتے ہیں “اور جلیبی؟ وہ کس ذات کی ہے؟ کھتری ہے؟”اور پھر ہنس کر آخری ضرب لگاتے ہوئے کہتے ہیں “یا شیعہ ہے ۔ ۔ ۔ یا سنی؟”

اور پھر مرزا نوشہ مسکراتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors london

(تشکر زیاد از حسن رضا چنگیزی صاحب)

Facebook Comments

علی زیدی
علی زیدی تھرڈ ڈویژنر ہیں اور بد قسمتی سے اکاؤنٹنگ کے طالبعلم ہیں۔ افسانہ، غزل اور نظم بھی لکھتے رہتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: Kafandooz@

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply