تین مائکرو کہانیاں

1. روسی ادب کی مختصر ترین تاریخ
………
میں نے پرانی دستاویزات کھنگالی ہیں اور میرے باپ سے بھی سنا ہے کہ میرے پردادا ایک معزز روسی جاگیردار تھے. میرے والد صاحب ہندوستانی ہیں. میں لاطینی امریکی ہوں.
میرے والد بتاتے ہیں کہ میرے پردادا کے آخری دنوں میں انہوں نے مجھے بلایا اور انہیں کچھ پڑھ کر سنانے کا کہا. میرے والد صاحب نے روسی ادیب "ایوان ترگنیف" کا ناول " ایک کھلاڑی کی نوٹ بک" نکالا اور انہیں سنانے لگ گئے.
اگلے دن انکی وفات ہو گئی.
انکی وصیت جسے ہم دستاویز کہتے ہیں, جو کچھ دن بعد ملی, پہ لکھا تھا کہ ان کے تمام غلاموں کو زمین سمیت آزاد کر دیا جائے.

Advertisements
julia rana solicitors london

2. پاگل خانے میں
…….
اکثر ایسے بھی ہوتا ہے آپ سائکالوجسٹ بن جاتے ہیں. آپ انٹرنشپ کرنے لگتے ہیں. شاید اس کیلئے ہاؤس جاب ایک بہتر لفظ ہے. لیکن آپ ان دونوں میں سے کچھ بھی کریں, کیا فرق پڑتا ہے. آخر کار آپ نے رہنا تو پاگلوں کے بیچ ہی ہے.
یا یوں بھی ہوتا ہے آپ ڈرائیور بن جاتے ہیں. آپ خود کو جہاں دیدہ سمجھنے لگتے ہیں. آپ بین الاقوامی ادب نہیں پڑھتے. آپ دعوئ کرتے ہیں آپ لوگوں کے تاثرات پڑھ سکتے ہیں. آپ ان دونوں میں سے کچھ بھی پڑھیں, اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ آخر کافکا کو سمجھنا یا انسان کو سمجھنے کا دعوئ کرنا کتنا آسان ہے ؟ آپ اندازہ کرسکتے ہیں.
اور یہ بھی ہوتا ہے آپ بورخیس کی کہانی کا کوئی کردار ہیں اور ایک ہی وقت آپ سائکالوجسٹ اور ڈرائیور بن جاتے ہیں.
آپ پاگل خانے جاتے ہیں. آپ ایک ڈرائیور ہیں اور خود کو وہاں سائکالوجسٹ بنا دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں. آپ تب پریشان ہوتے ہیں جب آپ خود کو اندر داخل ہوتے دیکھتے ہیں. آپ اپنی ہستی میں گم ہو کر ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ تم یہاں کیسے. آپ دونوں ہی ایک دوسرے کو پاگل سمجھ رہے ہوتے ہیں.
ذات میں گم رہنا کتنا تلخ عمل ہے؟
3. ہم جانتے ہیں آسمان نیلا کیوں ہے
………….
ہمارے پاس وقت ختم ہو چکا تھا. کسی بھی کام کیلئے. ناشتہ کرنے اور اخبار پڑھنے کیلئے بھی.
ہم نے ٹیکنالوجی میں ترقی کی. ہم نے گھر بیٹھے گاڑیاں منگوائیں, سبزیاں اور کتابیں. لیکن ہمارے پاس وقت ختم ہو چکا تھا. صرف تجربات باقی تھے. اس کا احساس ہمیں تب ہوا جب ایک سائنسدان نے ایسی ایپ تیار کی جسے ڈاؤنلوڈ کرنے پر بغیر پڑھے ہمیں کتابوں کے مندرجات کا پتہ چل جاتا. ہم سب سے زیادہ ڈان کہوٹے پر ہنستے ہیں.

Facebook Comments

جنید عاصم
جنید میٹرو رائٹر ہے جس کی کہانیاں میٹرو کے انتظار میں سوچی اور میٹرو کے اندر لکھی جاتی ہیں۔ لاہور میں رہتا ہے اور کسی بھی راوین کی طرح گورنمنٹ کالج لاہور کی محبت (تعصب ) میں مبتلا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply