سُنو سب کی کرو اپنی ۔ ۔ ۔ شاہد ملک

اگر تو سینے میں کامل ایمان والا دل موجود ہوا تو وہ آپکو غلط درست کی خود ہی نشاندہی فرمادے گا اور اُسے خود ہی ایک کھٹکا لگا رہے گا یہ اشارہ اس بات کی واضح دلیل ہوگا کہ آپ غلط راستے یا کسی غلط سمت پر جارہے ہیں۔
ہم جس فرقے یا مسلک کو فالو کرتے ہیں ہمارے نزدیک اُنکے پیشوا اُنکے مولویوں کی ہر بات سو فیصد سچ اور حقیقت پر مبنی ہوتی ہے چاہے وہ غلط ہی کیوں نا کہہ رہے ہوں یاد رکھیں بنا تحقیق اورسمجھ کے غلط کو صحیح سمجھ لینا اور پھر اُس پر عمل کر لینا سخت عذاب کا باعث بن سکتا ہے۔
غلط کو غلط کہیں اور درست کو درست چاہے وہ کوئی اپنا ہے یا غیر اسلام میں افضل وہی ہے جسکا ایمان کردار اور تقویٰ دوسرے سے بہتر اور فضیلت کا حامل ہے۔

لکیر کا فقیر ہوجانا اپنی سوچ کو دوسروں پر مسلط کرنا عزت اور احترام کے نام پر کسی انسان کو نبی جتنا مقام دے دینا اور نبی کو اللہ سے ملا دینا۔
یاد رکھیں اس میں اللہ کا کوئی حکم نہیں ہوتا بلکہ شخصیت پرستی ہوتی ہے جو حق اللہ کا ہوتا ہے وہ ہم بندوں کو دے دیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ سو فیصد سچ انسان نہیں بلکہ ایک اللہ کی ذات ہے۔

اس لیئے جو غلط ہو اُسکی ایک بھی بات نا سُنو چاہے وہ اپنے مسلک عقیدے کا ہو یا دوسرے کسی مسلک عقیدے کا اور اچھی بات پر کان دھرو اُسکو اچھا سمجھو خوب سوچ بچار کے بعد عمل بھی کرو چاہے وہ بات کسی دوسرے فرقے یا مسلک کے عالم کے مُنہ سے ہی کیوں نا نکلی ہو۔

ہر مسلمان کی نظر اللہ پاک پر ہے سب اُسکے قرب حاصل کرنے کی تلاش میں لگے ہیں سب نے ایک دن اُسکی طرف لوٹ کر جانا ہے اس لیئے سب کی منزل آخرت ہے جہاں اچھے بُرے کا حساب ہوگا سزاو جزا کا فیصلہ ہوگا اس لیئے ہر کوئی اللہ کو راضی کرنے اور اپنی آخرت کو سنوارنے کی محنت میں لگا ہے۔ اُسکا عقیدہ اُسکا مسلک فرقہ چاہے جو بھی ہے وہ اپنے نظریے اور سوچ کے اعتبار سے حق اور سچ پر ہیں اگر آپ اُن سے کہو کہ آپ غلط اور میں ٹھیک ہوں تو وہ آپکی بات سننے کی بجائے سخت کھا جانے والی نگاہوں سے دیکھے گا۔ جبکہ آپ اُسے اللہ کا حکم سُناؤ قرآن کی آیتیں سامنے رکھو اور اپنے آپ کو فرقوں سے الگ کر کے ایک ادنا گناہگار مسلمان پیش کرو تو یقین کریں وہ آپکی بات سُنے گا بھی اور سمجھے گا بھی۔ اسی کا نام تبلیغ ہے جسکا حوالہ ہمیں نبوت کی 23 سالہ زندگی سے ملتا ہے کہ پتہ ہونے کے باوجود بھی کہ میں اچھا ہوں پھر بھی دوسروں کو خود سے بڑھ کر عزت اور فضیلت دینا خود کو حقیر سمجھنا کیونکہ ہم نے بندوں سے نہیں صلہ اللہ پاک سے لینا ہے کہ وہ ہمیں کتنا اچھا سمجھتا ہے اور اللہ پاک ہمارے رگوں میں دوڈتے ہوئے ایک ایک خون کے زرے سے خوب اچھی طرح واقف ہیں۔

میرے والد صاحب کہتے ہیں بیٹا میں نے فرقوں کو بہت سمجھا پرکھا جگہ جگہ کی خاک چھانی سب کو سُنا فقط یہ انتخاب کرنے کیلئے کہ کون درست ہے اور کون غلط ہے تو میں نے دیکھا ہر ایک میں کچھ نا کچھ اچھائی یا بُرائی موجود ہے جسکو دیکھتے ہوئے ہم اُسکو صاف الفاظ میں مشرک یا جہنمی کہنے کا حق نہیں رکھتے کیونکہ سب کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ایک اللہ تک پہنچنا اور ایک رسول کی اتباہ کرنا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اس مقصد میں کم یا ذیادتی کا شکار ہو کر خود کو غلط تسلیم نھیں کرتا۔

اب کوئی اس مقصد میں حق کے مطابق یا میانہ روی کے ساتھ رہتا ہے اور اللہ اُسکے رسول کا جو مقام ہے اُس میں کمی یا زیادتی نہیں کرتا اُسکی بات سُنو اس سے تمھارا عقیدہ مضبوط ہوگا اور علم کسی ایک فرقے یا نسل کی میراث نھیں یہ جہاں سے ملے حاصل کرلو۔
اگر کوئی حد سے کم یا حد سے تجاوز کر جاتا ہے یاد رکھیں وہ اللہ پاک کی زد میں بھی آسکتا ہے اس لیئے حقیقی محبت اور اللہ کا حکم میانہ روی اور خوب سمجھنے غور و فکر کرنے میں ہے۔

حدیث پاک کا مفہوم ہے اللہ پاک نے امت محمدیہ کو امت وسطہ یعنی میانہ روی درمیان والی امت بنایا ہے اس لیئے جو لوگ ہر چیز کو اُسکی شان اور مرتبے کے اعتبار سے عزت اور اہمیت دینگے وہ کامیاب ہونگے شرط ایک اللہ کی رسی کو پکڑنا کامیابی کی ضمانت ہے نہ کہ فرقوں کی رسی کو پکڑنا کامیابی کی ضمانت ہے۔ پھر بھی کوئی فرقوں میں پڑا اور اللہ کی رسی کو بھی نا چھوڑا میانہ روی کے مطابق ہر چیز کو اُسکے جائز حق پر رکھا عمل کیا دوسروں پر اپنی ناقص سوچ کی بنا پر فتوے بازی سے بچا رہا تو میرا خیال ہے اللہ پاک اُسکو بھی بخش دینگے کیونکہ فرقہ درست ہونا درست ہونے کی دلیل نہیں نظریہ سوچ اور عقیدہ درست ہونا ضروری ہے۔

سارے اختلاف اسی صورت ختم ہو سکتے ہیں اگر علماء اکرام امت کو فرقے سکھانے کی بجائے دین سکھائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(نوٹ)
پوسٹ کا مقصد فرقوں میں بٹی نفرت اور فتویٰ بازی سے یکسر آزاد ہو کر مل بیٹھنا اور خود کو قرآن سُنت کے تابع لانا ہے. اگر ہم فرقوں میں بٹ ہی گئے تو کلمہ گو مسلمان بھائیوں کو مشرک منافق بدعتی یا جہنمی نا کہیں بلکہ احکامات اپنے خُداوندی کی روشنی میں اپنے علم کی بنا پر جتنا ہو سکے اُنکے زہنوں میں درست بات کو ڈالیں ایک دوسرے کی سُنیں تاکہ ہم اور وہ آسانی سے بات سمجھ سکیں ایک دوسرے کی اصلاح کرسکیں تاکہ نفرتیں محبتوں میں یکسر تبدیل ہو جائیں اور بہتر یہ ہوگا ہم فرقوں سے نکل کر سچے اور پکے مسلمان بن جائیں.. میں کوئی عالم تو نھیں پھر بھی موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے دل دُکھ سے معمور ہوا اس لیئے اپنی بساط کے مطابق کچھ لکھنے کی جسارت کی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply