اب پیپلز پارٹی بھی اپوزیشن کرے گی! ۔۔۔۔اداریہ

طاہر یاسین طاہر کے قلم سے

Advertisements
julia rana solicitors

یہ بات باعث ِ اطمینان ہے کہ پارلیمان کے اندر جس جماعت کا اپوزیشن لیڈر ہے وہ  سیاسی جماعت اب کھل کر حزب مخالف کا کردار ادا کرے گی۔مگر یہ اپوزیشن سر گرمیاں مشروط کر دی گئی ہیں۔ یعنی اگر پیپلز پارٹی کے مطالبات تسلیم کر لیے گئے تو ممکن ہے پاکستانیوں کو پیپلز پارٹی کی جانب سے حزب مخالف کی جارحانہ سرگرمیاں  دیکھنے کو نہ ملیں ۔گذشتہ روز  پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کے سامنے چار مطالبات رکھتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ مطالبات پورے نہ کیے گئے تو وہ لانگ مارچ کریں گے۔ بلاول بھٹو زرداری اتوار کو سنہ2007 میں کراچی میں کارساز کے مقام پر بم دھماکے میں شہیدہونے والے 150 سے زائد افراد کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے منعقد کی گئی ’سلام شہدا‘ ریلی سے خطاب کر رہے تھے۔پیپلز پارٹی کی جانب سے نکالی گئی یہ ریلی بلاول چورنگی سے شروع ہوئی جو کارساز چوک پر پہنچ کر ختم ہوئی۔ریلی کے اختتام پر خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹونے حکومت سے چار مطالبات کیے اور کہا کہ مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ لانگ مارچ بھی کرسکتے ہیں۔
انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ، سابق صدر آصف زرداری کے دور میں اقتصادی راہداری پر ہونے والی اے پی سی کی قرار دادوں پر عمل ہونا چاہیے۔ پاناما لیکس پر پیپلزپارٹی کے بل کو منظور کیا جائے۔
فوری طور پر ملک میں مستقل وزیرخارجہ کو تعینات کیا جائے۔ پارلیمنٹ کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کو ازسر نو تشکیل دیا جائے۔انھوں نے  مزیدکہا کہ اگر عوام ان کا ساتھ دیں تو وہ انھیں دہشت گردوں سے آزادی دلائیں گے۔پیپلزپارٹی کےچیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم پر الزامات کی بارش کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف نیشنل ایکشن پلان پرعمل درآمد کرانے میں ناکام ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے ملک کمزور ہورہا ہے۔انھوں نے کہا کہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے سی پیک متنازع بنتا جا رہا ہے۔
اس امر میں کلام نہیں کہ ملک کے داخلی و خارجی حالات نازک ہیں،اور اس مرحلے پر پاکستان سیاسی عدم استحکام کا بھی شکار ہے۔پیپلز پارٹی کے مطالبات اگر فرض محال تسلیم کر لیے جاتے ہیں،تو پیپلز پارٹی اپنی سیاسی بقا کے لیے کیا کرے گی؟جب وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور آصف علی زرداری ملک کے صدر تھے تو نون لیگ اپوزیشن میں تھی۔نون لیگ کو فرینڈلی اپوزیشن بھی کہا جاتا تھا،اگرچہ بعض ایشوز پر نون لیگ نے جارحانہ سیاست کی،جیسے میمو گیٹ سکینڈل اور بجلی بحران،دہشت گردی وغیرہ،اس کے باوجود نون لیگ فرینڈلی اپوزیشن ہی کہلائی۔اسی طرح جب نون لیگ کی حکومت آئی تو پیپلز پارٹی نے پارلیمنٹ کی اور جمہوریت کی مضبوطی کے نام پر کئی معاملات پت نون لیگ کی حکومت کا بھر پور ساتھ دیا۔ حتی کہ جب اسلام آباد میں ملکی سیاسی تاریخ کا سب سے طویل دھرنا جاری تھا اس وقت بھی پیپلز پارٹی نے ہی حکومت کو سہارا دیا اور ’’جمہوریت‘‘ کو بچا لیا۔جبکہ پاکستان تحریک انصاف شروع دن سے ہی جارحانہ سایسی سرگرمیوں کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔یہ امر واقعی ہے کہ پی ٹی آئی کی جارحانہ سیاست کو نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی جمہوریت بچائو پالیسی نے کسی حد تک بے اثر کیا ہوا ہے۔2013کے انتخابات کے دوران میں یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ کالعدم تحریک طالبان و دیگر دہشت گرد تنظیموں نے ایم کیو ایم،اے این پی اور پیپلز پارٹی کو انتخابی جلسے نہیں کرنے دیے ۔پیپلز پارٹی اس امر کو اپنی انتخابی ہار کا سبب تصور کرتی ہے۔ مگر یہ سوال بھی ہے کہ اگر پیپلز پارٹی پنجاب اور سندھ میں کھل کر انتخابی جلسےکر بھی لیتی تو اس کے پاس تھا کیا جو عوام کو بتاتی؟بے شک انیسویں،بیسویں،اکیسویں آئینی ترامیم،صوبائی خود مختاری،58-2Bکا خاتمہ اور عدلیہ کی مداخلت کا ذکر کیا جاتا مگر سوال یہ ہے کہ عام آدمی کو اس سے کیا غرض کہ یہ آئینی ترامیم کیا ہیں؟ عام آدمی کا کل بھی مسئلہ بجلی کی لوڈشیڈنگ ،مہنگائی اور بیروزگاری تھی اور آج بھی عام آدمی کا مسئلہ یہی ہے۔دہشت گردی اس کے سوا۔
یہ امر بھی واقعی ہے کہ پیپلز پارٹی غریب اور عام آدمی کی جماعت کہلاتی ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس سیاسی جماعت نے بھی نظریاتی کارکنوں کو نظر انداز کیا جس کا خمیازہ بہرحال پیپلز پارٹی کو بھگتنا پڑا۔بلاول بھٹو نوجوان ہیں،جذبہ بھی ہے مگر سیاسی جماعتوں کے پاس واضح پالیسی ،متحرک اور تجربہ کار ٹیم ہوا کرتی ہے۔ عمران کان صاحب اگرچہ ایک انقلابی پروگرام رکھتے ہیں مگرعوام الناس کو ان کی جماعت اور خان صاحب کے بے لچک رویہ پر تحفظات ہیں۔ نون لیک پانامہ،بہاما،اقربا پروری اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے دبائو کا شکار ہے۔پیپلز پارٹی اپنی غلطیوں اور میڈیا ٹرائل کے باعث سیاسی فیصلہ سازی میں کشمکش کا شکار ہے۔ایسے میں جب کہ عوام کی خواہش ہے پیپلز پارٹی حقیقی جمہوریت کرے بلاول بھٹو کی جانب سے لانگ مارچ کا عندیہ حزب مخالف کی جماعت کی ایک اچھی سیاسی سرگرمی ہو گی ،لیکن اس کے لیے مشروط باتیں کسی بھی طور پیپلز پارٹی کو زیبا نہیں۔ ملک کا مسئلہ کرپش،بیروزگاری،میرٹ کا قتل،اقربا پروری،دہشت گردی اور ان کے سہولت کار ہیںنیزتوانائی بحران اور بالخصوص خطے کے بدلتے ہوئے سیاسی و معاشی منظر نامے میں ایک بالغ نظر سیاسی قیادت ملک کی اہم ضرورت ہے۔دیکھا دیکھی کی اپوزیشن بہر حال پاکستانی عوام کا مسئلہ یا ضرورت نہیں۔پیپلز پارٹی کو اپوزیشن کی سیاست کرنا ہے تو اسے آج کے حالات کے تناظر میں اپنا معاشی و سیاسی پروگرام از سر نو ترتیب دینا ہو گا،روٹی ،کپڑا،مکان والا نعرہ اب سود مند نہیں ہوگا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply