بھگوڑا کامریڈ –افسانہ ۔ ۔ ۔عامر حسینی

رازق بگتی بی ایس او کے سابق رہنماء اور بلوچ قوم پرست سیاست کا اہم کردار تھے پھر وہ مشرف دور میں بلوچ حکومت کے مشیر مقرر  ہوگئے اور ان کے ہاں کرانتی کاری بارے نظریات بھی بدل گئے ، ایک دن وہ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے اور ایک بلوچ گوریلا گروپ نے ان کی ہتھیا کی زمہ داری قبول کرلی ، یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ کسی مظلوم قوم کا کوئی فرد کرانتی کاری بنا ہو اور بندوق اٹھاکر ریاست سے لڑنے چلا گیا ہو اور پھر وہ ہتھیار  ڈال کر پرامن سیاسی جدوجہد کا داعی بن جائے اور اس کو اس کے بعض پرانے کامریڈز غدار نہ کہیں ، الجزائر میں جب چینیوا اچیبے کے قبیلے نے اپنے علاقے کو الجزائر سے آزاد کرانے کے لئے لڑی جانے والی گوریلا وار میں ھتیار اٹھانے کے بعد ایک خاص وقت میں مسلح جدوجہد ترک کی تو ان پر انقلاب سے غداری کے فتوے لگے ہوں-

پاش سندھو نے بھی مشرقی پنجاب کو آزاد سوشلسٹ ریاست بنانے کے لئے نکسل باڑی تحریک کو جوائن کیا ، بندوق اٹھائی اور پھر رکھ دی اور ماو واد راستہ ترک کردیا تو اسے بھی غدار کہا گیا اور ایک دن اس کو گولی مار کر قید حیات سے نجات بھی اس کے اپنے کامریڈز نے دلائی- نہ جانے کسی کو حزب المجاہدین کے کمانڈر اور سربراہ عبدالمجید ڈار بھی یاد ہیں کہ نہیں کہ جنھوں نے مشرف دور میں سیز فائر بند کرنے اور کشمیر کا ایشو بات چیت سے حل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بندوق رکھ دی تو ایک دن اپنے گھر کے برآمدے میں ان کو گولیاں مارکر ھلاک کردیا گیا ، یہ سارے کردار مرے زھن میں تھے اور پاش کی نظم ” کامریڈ دے نال گل ” نے مجھے ان کرداروں کی ایک جھلک اپنی کہانی میں دکھانے پر مجبور کیا – عامر حسینی

رازق حسب معمول تربت کے مرکزی بازار سے کھانے پینے کی اشیاء لینے کے لئے گھر سے نکلا تو تھوڑا ہی فاصلہ طے کرپایا تھا کہ ایک شخص ساتھ والی پتلی سی گلی سے نکلا اور اس نے فوری طور پر رازق کو ایک کاغذ پکڑایا اور خود واپس اسی گلی میں غائب ہوگیا جہاں سے اچانک وہ نمودار ہوا تھا رازق ہکا بکا کھڑا تھا ، تجسس کے ھاتھوں مجبور ہوکر اس نے کاغذ کھولا تو اس میں ایک عبارت لکھی تھی:

 رازق ! تم سے ملنا ہے ، آوران چلے آنا ، آگے ہمارے لوگ تمہیں ہم تک پہنچادیں گے –

مکتوب از بالاچ

رازق اس طرح کی پیغام رسانی سے بخوبی واقف تھا-

اور اسے زرا بھی حیرت نہیں تھی کہ خط کے شروع اور آخر میں کہیں بھی اس کو ” لال سلام ” نہ لکھا گیا تھا ،بھلا ایک بھگوڑے کو لال سلام کیوں لکھا جاتا ،لیکن یادوں کا ایک ریلہ اس کے دل و دماغ پر فلم کی طرح چلنے لگا تھا –

وہ اور بالاچ پہلی مرتبہ ” مست توکلی سائیں ” کے میلے میں ملے تھے جو ہرسال تربت میں ہوتا تھا ، رازق اپنے والد علی بخش بلوچ کی انگلی پکڑے ایک سٹال کے پاس رکا تو اس کی نظر ایک رنگلے مٹی کے گھوڑے پر جمی تھی جوکہ ایک اور لڑکے کو اس کا باپ دلوارہاتھا ، رازق نے اپنے بابا کو کہا کہ یہ گھوڑا ہر حال میں اسے دلایا جائے -اور یہ الفاظ اس نے اسقدر زور سے بولے کہ اس لڑکے کو بھی سن گیا ، اس لڑکے نے رنگلا گھوڑا خرید تو لیا اور پھر تحفے میں وہ رازق کے سپرد کردیا-

اور یوں بالاچ کے ایثار سے وہ دونزن  رشتہ دوستی میں بندھ گئے- آج بہت برسوں بعد بالاچ کا پیغام ملا تو بچپن ، لڑکپن اور نوجوانی میں بیتے دنوں کی یادوں نے اس کو گھیر لیا –

وہ اور بالاچ ایک ساتھ ہی اسکول داخل ہوئے ، وہاں سے کالج میں داخلہ اکٹھے لیا- اور پھر وہاں سے میڈیکل کالج تک کا سفر بھی اکٹھے کیا اور دونوں کاشروع دن سے سیاست میں  بلوچ قوم پرستی سے تعلق جڑ گیا اور ابھی مارکسزم زرا دور تھا پھر ڈاکٹر شاہ ملے اور انہوں نے کارل مارکس ، اینگلس ، ولادیمیر لینن کی چاٹ لگائی- رازق کو یاد آنے لگا کہ کیسے اس نے اور بالاچ نے اینگلس کی مالکی ، خاندان اور ریاست اکٹھے پڑھی تھی ، یہ کوئی حسن اتفاق تھا یا کوئی خون خوار اتفاق ، اب وہ ٹھیک سے کچھ کہہ نہیں سکتا تھا

مگر اسے اتنا یاد تھا کہ اس کتاب کو پڑھتے دونوں کو ملکیت سے نفرت ہوچلی تھی اور دونوں ہی ریاست جس کی بنیاد مالکی پر ہو کو مٹانے کی خواہش رکھتے تھے اور اینگلس کے ہاں جب مزدروں ، کسانوں اور دیگر مظلوم و کچلے و پسے ہوئے گروپوں کی ایکتا کا زکر آیا تھا تو ان کو ایسے لگا تھا جیسے یہ ایکتا وہ دونوں بنانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں پھر ایک دن وہ دونوں ریاست کو ختم کرنے  کے لئے پہاڑوں پر مورچہ زن سرمچاروں کے ساتھ جاملے تھے ، ایک جوش تھا جو دونوں کو وہاں لے گیا تھا لیکن رازق کو کچھ ماہ بعد ہی بندوق کی نالی کے زریعے سے ریاست ختم کرنے  کا خواب یوٹوپیا لگنے لگا تھا ، پہلے پہل تو وہ کھویا ، کھویا رہا ، پھر اس نے اپنے احساسات بالاچ سے شئیر کئے –

لیکن اس نے کہا کہ وہ واپس جانے کا نہ سوچے وگرنہ مفت میں مارا جائے گا- ماردئے جانے کی دھمکی اسے لطیفہ ہی لگی ، کیونکہ وہ تو پہلے ہی فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑے کئے جانے جیسی صورت حال سے دوچار تھے اور کسی بھی وقت کوئی گولی آکر کسی بھی سمت سے کسی کا بھی کام تمام کرسکتی تھی تو پھر ایک دن منہ اندھیرے وہ سرمچار کیمپ سے بھاگ نکلا تھا اور چپکے سے کئی برس وہ پہلے دبئی ، پھر مسقط اور اس کے بعد کئی سالوں تک جرمنی رہا تھا ، اس دوران بھٹو کو پھانسی ہوگئی ، پہاڑوں پر جانے والے سرمچار افغانستان چلے گئے اور پھر وہاں سے واپس بلوچستان اسلام آباد  پہ قابض جالندھری پنجابی ارائیں فوجی آمر کے فراہم کردہ ھیلی کاپٹرز اور طیاروں میں آئے- اس دوران وہ واپس تربت چلا گیا اور جب اپنے گاوں پہنچا تو نئے مسائل اس کے سامنے کھڑے تھے ، بالاچ اور اس کے والد اور بھائیوں کو فوج لیکر گئی تھی-

اور پھر کسی نے بتایا کہ قلی کیمپ میں ان کو ازیتیں دیکر ماردیا گیا اور لاشیں کئی اور لاشوں کے ساتھ اجتماعی قبر میں دفنادی گئیں تھیں – پیچھے بالاچ کی ماں تو بالکل اکیلی ہوگئی تھی جبکہ رازق کی ماں کے پاس اس کو سنبھالنے کے لئے فرزانہ موجود تھی جسے وہ پیار سے گڈو کہتا تھا رازق بالاچ کے گھر پہنچا تو گھر کی ویرانی اسے کاٹ کھانے کو دوڑی تھی ، ایک چارپائی پر بالاچ کی ماں لیٹی ہوئی تھی ، اس نے جب اماں سموں کو پکارا تو کہنے لگی ،

بالاچ !تم آگئے ، دیکھو یہ وردی والے تمہارے بابا اور زاھد کو لیکر گئے ہیں ، کہتے ہیں کہ بالاچ غدار اور دہشت گرد ہے ، زرا ان کو جاکر بتاؤ کہ تم کوئی دھشت گرد تھوڑا ہی ہو ، تم تو ڈاکٹر ہو جو اس گاؤں میں مریضوں کو مرنے نہیں دے گا –

رازق اماں سموں کی یہ بات سنکر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تھا – اس کی آمد کے ایک ہفتے کے اندر اندر اماں سموں چل بسی تھی اور اسے آخری وقت تک اپنے شوہر اور گمشدہ بیٹے بلکہ کسی گمنام قبر کا حصہ بن گئے باپ ، بیٹے کی آمد کا انتظار تھا -اس نے معلوم کیا کہ بالاچ کے ساتھ کیا بنی تو معلوم پڑا کہ اس نے ضیاء الحق کے بھیجے طیارے میں واپس جانے سے انکار کیا اور فیصلہ کیا کہ سرمچاروں اور بلوچ جدوجہد کو پھر سے سرمچاروں کی لڑائی میں بدل دے گا ، وہ کابل میں تھا اور وہاں آنے والے بلوچوں کی تربیت میں لگا ہوا تھا ، اس نے کسی نہ کسی طرح سے بالاچ کو سارے حالات لکھکر بھیجنے کا انتظام کرلیا -بالاچ کا اسے جواب موصول ہوا-شروع میں لکھا تھا

“اے بلوچوں کی بہادری پر داغ بن جانے والے اے عین جنگ میں پیٹھ دکھاکر ،رات کی تاریکی میں فرار ہونے والے”

 اور آگے بہت کچھ تھااس نے بالاچ کو ایک جوابی خط لکھا:

کامریڈ ! ایک غدار سرمچار کی جانب سے سرخ نہ سہی زرد سلام قبول کرو- تم کیا جانو کہ اس دور کی دیگ میں کتنے وقت بیک وقت ابل رہے ہیں ، اور اس پرندے میں جو گولی کھانے کے بعد لڑھکتا ہوا زمین پر آگرا ہے کو دیکھ کر  کیسے نیلا امبر آسمان جم سا گیا ہے- تمہارے ہاں بورژوازی جیسے لفظوں کی جگالی دیکھ کر مجھے کچھ حیرانی نہیں ہوئی ، تمہیں کیا معلوم کہ یہ بورژوازی ، سرمایہ داری پرانی شراب جیسی ہوگئی

ہے -جو بہت تیز اور سریع الاثر ہوا کرتی ہے اور میرے اور تیرے جیسے سابق اور حاضر سروس سرمچار گوشت کے اس ٹکڑے کی مانند  ہیں جس پر بورژوازی شراب کے چند قطرے گریں تو فوری طور پر گل سڑجائیں-

کامریڈ ! تمہیں شاید خبر نہیں ہے کہ اس دن جو قاصد تربت سے آیا تھا ، میں نے اس کی ساری باتیں سن لیں تھیں کہ ہمارے پہاڑوں پر چلے آنے کے بعد کیسے خفیہ والے تمہارے گھر کے سب مردوں کو لے گئے تھے اور کسی ایک کا بھی پتہ نہیں چلا ، جبکہ تمہاری ماں اکیلی پہاڑ جیسا جیون کاٹ رہی تھی اور مجھے بھی اپنی بہن گڈو اور ماں کی یاد ستانے لگی تھی ، مجھے لگتا تھا کہ جیسے ان سب کی مصبیتوں کا سبب میں ہوں ، ویسے بھی جس دن میں نے وہاں آر سی ڈی شاہراہ پر ایک بس سے اتارکر مزدوروں کو گولیاں کھاکر مرتے ہوئے دیکھا تھا تب سے میرا وشواس اس گوریلا جنگ کی افادیت سے اٹھ سا گیا تھا ، راتوں کو مجھے وہ مزدور خون آلود کپڑوں کے ساتھ مرے گرد گھومتے دکھائی دیتے تھے ،

میں بھگوڑا ضرور ہوں کامریڈ ! مگر میں کسی میدان جنگ سے بھاگ جانے والا بھگوڑا نہیں ہوں بلکہ ایک پاگل خانے سے فرار ہوجانے والا ساتھی ہوں اور تمہارے ساتھی مجھے مارنے کے لیے بالکل وردی والوں کی طرح ڈھونڈتے رہے اور میں نے پھر بھی کسی قسم کی دشمنی ان سے محسوس نہیں کی ، کئی بار وردی والوں نے مرے زریعے سے تمہیں ڈھونڈ نکالنے کی کوشش کی لیکن میں نے کسی ایک کو بھی تمہارا سراغ لگنے نہیں دیا ، تمہیں میں ایک بھگوڑا لگتا ہوں لیکن کبھی تم سے ملاقات ہوئی تو بتاؤں گا کہ تمہارا میدان جنگ میں کھڑا رہنا اور میرا پیٹھ دکھاجانا دونوں ہی ٹھیک تھے لیکن جانتا ہوں تم کبھی سمجھ نہیں سکو گے ، کیوں کہ تم تو ایک ہی مینی فیسٹو سے واقف ہو اور وہ ہے ” بندوق کی نالی سے نکلنے والے انقلاب کا مینی فیسٹو  “، لیکن تمہیں بتاؤں کہ گھر آکر پہاڑوں سے اتر کر مجھے معلوم پڑگیا کہ مینی فیسٹو ایک نہیں کئی ہوتے ہیں-اور ہر ایک کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں ، اسی لیے اب مجھے سرمچآریوں کے خفیہ اسکولوں سے کہیں زیادہ ” سماج ” بارے باتیں وہ لوگ سکھارہے ہیں جو روز زندگی کے عذاب کو پورے جوبن سے بھگتے ہیں ، میں معافی چاہتا ہوں کہ مجھے اتنی سخت باتیں لکھنا پڑیں لیکن کبھی خود کو مری جگہ رکھکر سوچوگے تو تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ غلط میں بھی نہیں تھا اور غلط تم بھی نہیں ہو

فقط تمہاری نظر میں ایک بھگوڑا کامریڈ

یہ سب لکھکر اس نے خط کو لپیٹا اور واپس الماری میں رکھ دیا اور سوگیا ، اگلے دن وہ بازار میں ایک ہوٹل تک گیا ، یہ واجہ ظفر کا ہوٹل تھا اور اسے معلوم تھا کہ یہ ہوٹل سرمچاروں کے لیے رابطے آفس کا کام کرتا ہے ، وہ ظفر کی طرف بڑھا ، آؤ رازق ، کیا حال ہیں ؟

ظفر کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ تھی جب اس نے رازق کو اپنی جانب آتے دیکھا ، وہ کاؤنٹر کے پیچھے ایک سٹول پر براجمان تھا ٹھیک ہوں واجہ ۔۔۔۔ رازق نے مضمحل سی آواز میں جواب دیا اور غیر محسوس طریقے سے خط اس کی جانب کاؤنٹر کے نیچے سرکادیا اور ہلکی سی آواز میں کہا کہ بالاچ تک پہنچا دینا اور پھر اونچی آواز میں کہا کہ واجہ ! ایک پیالی قہوہ کی پلادو یہ کہہ کر رازق تھوڑے فاصلے پر پڑے بینچ پر بیٹھ گیا- اور تھوڑی دیر بعد واجہ ظفر کے بھتیجے طارق مراد نے اس کو قہوہ کی پیالی پکڑادی لیکن اس کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات تھے جیسے وہ بادل ناخواستہ یہ خدمت سرانجام دے رہا ہو ، رازق اس کے چہرے کے بکڑے تاثرات دیکھکر پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ٹھنڈی سانس بھرنے لگآ ، اس نے جلدی جلدی قہوہ کے گھونٹ لئے اور پھر تیزی سے ہوٹل سے باہر نکل گیا-

وہ گھر جانے کی بجائے ویسے ہی تربت کے ہموار اور ناہموار راستوں پر چلنے لگا ،اس کے ذھن میں گزرے وقت کی یادیں آندھیوں کی طرح چل رہی تھیں ، اس کو یاد آیا کہ جب وہ واپس لوٹا تھا تو دوسرے ہی دن سادہ لباس میں اور چند خاکی وردیوں میں ملبوس لوگ اس کے محلے میں آکر اس کے گھر کے سامنے رک گئے تھے اور انھوں نے اسے گریبان سے پکڑکر ٹرک میں بیٹھا لیا تھا اور اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی اور جب پٹی اتری تو اس نے اپنے آپ کو ایک اندھے غار کی طرح کے کمرے میں پایا تھا اور وہاں پر پہلے تو اس سے نرمی سے اس کے باقی ساتھیوں کے ٹھکانوں کے بارے میں پوچھا گیا ، پھر جب اس نے انکار کیا کہ وہ تو بس افغانستان سیر کے لیے نکل گيا تھا اور اس کا کوئی تعلق سرمچاروں سے نہیں ہے تو اس پر تشدد کی انتہا کردی گئی تھی ، وہ چھے ماہ اذیتیں سہتا رہا ، آخرکار اس کو لانے والوں کو یقین آگیا کہ اس کے پاس بتانے کے لیے کچھ نہيں ہے تو اسے چھوڑ دیا گیا لیکن اس دوران خفیہ والے اس کے پیچھے سائے کی طرح لگے رہے کہ دیکھیں کس سے ملتا ہے-اور کس سے نہیں لیکن وہ کس سے ملتا ، اس کے سب جاننے والے تو اس سے نفرت کرنے لگے تھے ، ان کے خیال میں رازق ایک بھگوڑا تھا جس نے اپنی قوم کے گوریلوں سے غداری کی اور جب جنگ عروج پر تھی تو میدان سے بھاگ آیا تھا -جب وہ گھر واپس لوٹا تھا تو اس نے اپنے کمرے کو اسی  حالت میں پایا جیسا چھوڑ کر گیا تھا ،-اس کی چھوٹی بہن فرازانہ جسے وہ پیار سے گڈو کہتا تھا نے اس کے کمرے کو صاف ستھرا رکھا تھا ، لکڑی کی ایک میز جو اس کی چارپائی کے سرہانے کے ساتھ لگی تھی اس پر ٹائم پیس اور اسکی ایک تصویر جو بالاچ کے ساتھ تھی ویسے ہی دھری ہوئی تھی لیکن اس کے کمرے میں سرخ جلدوں والی ایک بھی کتاب موجود نہیں تھی اس نے گڈو کی طرف منہ کیا اور پوچھا گڈو ! وہ میری کتابیں کدھر گئیں کونسی کتابیں ، مجھے کیا پتہ ؟ گڈو نے اس سے آنکھیں چار نہ کرتے ہوئے ،اٹک اٹک کر بولتے ہوئے کہا ، اس کا لہجہ اس کے لفظوں کا ساتھ نہیں دے رہا تھا –

دیکھو گڈو !مجھے پتہ ہے کہ پہلے بھی تم ان کتابوں کو اپنے پاؤں تلے چھپانے کی ناکام کوشش کرتی تھیں جب میں پہلے پہل ان کو لیکر آیا تھا -اس نے گڈو کی طرف شکائتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا-

 گڈو اس پر ایک دم پھٹ پڑی اور کیا کرتی ان کتابوں کے ساتھ ، گھڑا کھود کر دفنادیا ان کتابوں کو -امڑی کہتی ہے کہ ان کتابوں ميں وہ جو گنجا شیطان (لینن ) اور وہ خبیث تھانیدار ( ماؤزے تنگ ) ہیں نا یہی مرے بچوں پر کسی بلا کے مسلط ہونے کا سبب بنے ہیں اور ان کتابوں کی نحوست کی وجہ سے تو ہمارے شہر سے یکے بعد دیگرے نوجوان غائب ہوتے جارہے ہیں –

امڑی گئی تھیں  امام مسجد کے پاس تو انھوں نے کہا تھا:

” ان کتابوں کی نحوست نے پورے محلے پر آسیب کررکھا ہے جتنی جلدی ہوسکے ان کو گڑھا کھود کر دفنا دیا جائے”

 تو میں نے ان کو گراؤنڈ کے پاس ایک گڑھا کھود کر دفنا دیا تھا- رازق گڈو اور اماں کی اس سوچ اور حرکت پر ایک مرتبہ تو کافی تلملایا لیکن پھر اس کی ہنسی چھوٹ گئی تھی-

اور اس نے اس وقت یہ بھی سوچا تھا کہ ” گنجے شیطان اور خرانٹ تھانےدار کی کتابیں جو پڑھ لیتا ہے اس کو پھر حریت فکر کے آسیب سے نکالنا بہت مشکل ہوجاتا ہے ، کتابیں دفن کرنے سے فکر تو دفن نہیں ہوجاتی-

 رازق کے لیے وہ دن بڑے صبر آزما تھے ، بالاچ کی ماں اکیلی ایک شکستہ سے مکان میں رہتی تھی اور ہوکے ، ٹھنڈی آہیں بھرتی رہتی تھی ، اس کی بینائی پر اثر پڑا تھا ، اس کا شوہر اور تین بیٹے بالاچ کے جانے کے بعد سرکار کے ہرکارے اٹھاکر لے گئے اور آج تک ان کا کچھ پتہ نہیں تھا ، سنا تھا کہ قلی کیمپ میں وہ رکھے گئے تھے ، بالاچ کو یاد کرتی اس کی ماں نے جب کبھی وہ اس سے ملنے گیا تو اس سے پوچھتی تھی کہ اکیلے کیوں آگئے ہو بالاچ کو بھی لے آنا تھا ، رازق نے گڈو کے زمے لگایا کہ وہ بالاچ کی ماں کی روز دیکھ بھال کرے یہ سب سوچتا ہوا وہ کب واپس گھر کے راستے کی طرف ہولیا اور کب گھر پہنچ کر اپنے کمرے میں آکر لیٹ گیا-

اس کو خبر نہ ہوئی ، یہ تو گڈو نے اس کو آکر جھنجھوڑا تو اسے گردوپیش کا ہوش آیا ماہ و سال یونہی گزرتے جارہے تھے ، اس نے تربت میں اپنے اوپر اٹھنے والی نظروں سے بچنے کے لیے ایک دن ماں اور بہن کے ساتھ کوئٹہ جانے کے لیے کمر کس لی ، گھر کو تالہ لگایا اور تین افراد کا یہ مختصر سا قافلہ کوئٹہ میں ایک کرائے کے گھر میں منتقل ہوگیا ، اس نے وہاں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کرلی اور ساتھ ہی ایوننگ شفٹ میں کوئٹہ یونیورسٹی میں انگلش ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لے لیا اس کی ماں آنکھوں کے کسی مرض میں متبلاء ہوئی تو وہ اس کی آنکھیں چیک کرانے سول ہسپتال لے گیا ، وہاں آنکھوں کے وارڈ میں جو ڈاکٹر مریضوں کو چیک کررہی تھی جب اس کے کمرے میں ماں کو لیکر وہ پہنچا تو ٹھٹھک کر رہ گيا ، یہ ڈاکٹر زرینہ  تھی ، ان کی بولان میڈکل کالج کی کلاس فیلو اور بالاچ و سموں کی دوستی سارے کالج میں مشہور تھی –

سموں نے بھی رازق کو پہچان لیا ، وہ اماں کو بھی جانتی تھی کیونکہ بالاچ کے ساتھ وہ ایک مرتبہ تربت آئی تھی ، اس نے اماں سے سلام لیا اور اماں نے سموں کے سر پر ہاتھ پھیرا اور دعا دی ، اماں کے چیک اپ کے بعد اس نے رازق اور اماں کو اپنے ایک سرونٹ کے ہاتھ ہسپتال کے ساتھ بنے ڈاکڑز کی کالونی میں گھر بھجوایا اور کہا کہ وہ بس آدھے گھنٹے تک آتی ہے ، گھر میں سموں کی والدہ بھی موجود تھیں ، اماں سموں کی والدہ سے باتیں کرنے لگیں اور رازق سموں کے ڈرائنگ روم میں دائیں طرف ایک کونے میں پڑی شیلف میں سجی کتابیں دیکھنے لگآ اور کتابیں دیکھتے دیکھتے جب اس نے ایک کتاب زرا سرکائی تو پیچھے سے سرخ جلد کی ایک ڈائری آگے کو گرپڑی اور رازق نے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ڈائری نکالی اور اس کے ورق پلٹنے لگا ، ایک صفحے پر اس کی ںظریں جم گئیں کہ اس صفحے پر ایک خط چپکا ہوا تھا اور خط کی مخاطب زرینہ  تھی

 پیاری زرینہ!

مجھے افسوس ہے کہ میں تمہیں ملے بغیر ہی اس سفر پر جارہا ہوں جس کا کوئی انت نہیں ہے -مجھے اس بات کا بھی افسوس ہے کہ تم تو زرینہ کے روپ میں “سموں ‘” ہو  مگر  ایک ایسے آدمی کے ساتھ نتھی ہوگئی تھیں جو کسی بھی لحاظ سے مست توکلی نہیں تھا ، میں اس قدر بدنصیب آدمی ہوں کہ تمہارے لیے وہ ںظم کبھی نہ لکھ سکا جو مجھے مکمل مست توکلی نہ سہی کم از کم تھوڑا بہت تو مست توکلی بناہی دیتی -میں ایسی نظم لکھنے کا ہمیشہ سے جتن کرتا رہا جس میں بولان کی خوشبو ہوتی اور تمہارے آنچل کی سرسراہٹ کا زکر ہوتا اور کوئٹہ کی سرد جسم کو پتھرا دینے والی ہوا کا زکر ہوتا اور میں تمہیں بھیڑوں کی رکھوالی کرتی اس الہڑ مٹیار کے روپ میں تصویر کرتا جس میں تم بھیڑوں کا دودھ نکالتی اور برتن میں اس دودھ کا جھاگ نقش کردیتا اور تیرے جسم کے اندر جو کچھ میں نے دیکھا اس کو بھی تصویر کرتا اور تیرے چہرے کے خدوخال کی تصویر نقل بمطابق اصل کی طرح ہوتی ، میں اس نظم میں تیرے ہاتھوں کی مسکراتی لیکروں کو نقش کرتا-

اور اپنے بازوں کی پھڑکتی مچھلیوں کی تصویر جن سے میں نے تمہیں تھام رکھا ہوتا ، اور تیرے بالوں کی تصویر جن سے مرے بوسے کی خوشبو کی لپٹیں اٹھتی دکھائی دیتيں اور اس نظم میں تیرے اور مرے لیے زندگی کے سارے رنگ ہوتے- لیکن اس دوران ایک بہت بڑی بدمزہ بات ہوئی اور وہ یہ کہ مجھے اس دنیا کے الجھے ہوئے نقشے میں اپنی دھرتی کی شناخت کو تلاشنا پڑا ، اور مجھے نظم کی تشکیل کو درمیان میں ہی چھوڑنا پڑگیا ، یہ نقشہ جو بہت الجھا ہوا ہے تم جانتی ہو کہ اسے ٹھیک کرنے اور سلجھانے کے لیے بندوق کی سنگین سے کام لینا پڑے گا اور یہ جنگ ہے جس میں اب ہمیں کودنا ہی پڑے گا -ایسے میں جب جنگ کا میدان تیار ہو تو پھر محبوب کے لبوں کو چومنے کی خواہش اور اس سے گلے ملنے کی آرزو شدید تو بہت ہوتی ہے- لیکن  ان حالات میں جب دشمن کی فوج سر پہ ہے اور ہر طرف آتش و آہن کا بازار گرم ہے تو یہ سب خواہشیں  مذاق ہی لگتی ہیں – تو میں ایسا نہیں کرسکا تم نے اور میں نے اپنا گھر بسانے اور اس گھر کے صحن میں کھیلتے اپنے بچوں کو دیکھنے کی خواہش کی تھی لیکن اس خواہش کو اور جنگ میں کود پڑنے کی آرزو کو ایک ہی قطار میں کھڑا کرنا بہت مشکل ہے پیار کرنا ویسا ہی کام ہےجیسے ظلم کو سہتے ہوئے خود کو لڑائی سے زرا پرے رکھنے کی ناکام کوشش کرنا اور پھر بھی آپ لڑائی سے الگ نہیں رہ سکتے – گولی جسم کے اندر ہو اور یہ خواہش ہو کہ زخم بھرجائے گا ایک ناممکن سی بات کی خواہش کرنا ہے -پیار کرنا  اور لڑسکنا یہی جینے پر ایمان رکھنے کا عملی ثبوت ہے – جنگ میں دھرتی کی طرح کھڑے ہوجانا اور پھر اپنے آپ کو چیتے کی طرح سمیٹ کر حملے کے لیے تیار کرنا اور بارود کی طرح بھڑک جانا اور پھر ان عدالتوں میں پھٹ جانا جو ظالموں کو قانون کی چھتر چھایہ فراہم کرتی ہیں ، یہی تو جینے کا سلیقہ ہے –

جو ہمیشہ جوڑنے اور جمع کرنے جیسی عادت بد کا شکار ہوں ان کو جینے کا ڈھنگ کبھی نہیں آتا مجھے جینے کی بہت چاہ  تھی ، میں گلے تک ڈوب کر جینا چاہتا تھا ، لیکن اب شاید ایسا نہ ہو ، تم مرے حصّے کا بھی جی لینا اور مجھے بھول جانا –

فقط والسلام تمہارا جو کبھی تھا بالاچ

رازق جو اس خط کو پڑھنے میں مگن تھا ، اس کو خبر ہی نہ ہوئی کہ کب زرینہ  وہاں آگئی اور وہ اس کے پیچھے کھڑی تھی –

پھر زرینہ  نے اس کو آواز دی تو وہ چونکا اور ہڑابڑا کر ڈائری واپس شیلف میں رکھ دی -وہ شرمندہ شرمندہ نظر آنے لگا –

سوری ! مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئیے تھا- رازق نے کہا

معذرت کی کوئی ضرورت نہیں ، تم نے اچھا کیا جو خود سب کچھ پڑھ لیا اور مجھے تمہیں بتانا نہیں پڑے گا ،زرینہ  نے کہا

لیکن ایک بات تم سے ضرور کہنی ہے کہ سوچو کہ کیا ایک خط میں اس طرح کی باتیں لکھنے سے کوئی اپنے جیون کے سب سے حسین خواب کو بھول سکتا ہے اور کیا کسی کے کہنے سے کیا  کوئی  خواہش کردہ زندگی کوئی دوسرا جی سکتا ہے ؟

 نہیں تو ۔

رازق نے آہستہ سے کہا

تو پھر بالاچ کو یہ سب کچھ کیوں سمجھ نہیں آیا ؟ زرینہ  نے انتہائی درد بھری آواز میں پوچھا

زرینہ ! اصل میں ہم سب اپنے اپنے زمان و مکان کے اسیر ہوتے ہیں اور ہمیں سچائی اپنے اپنے زمان اور مکان کے مطابق دکھائی دیتی ہے- اور ہر ایک کا سچ وہی ہے جو اس کا زمان اور مکان ہے -تم ، اور بالاچ اور میں رازق سب اپنے اپنے سچ لیے گھوم رہے ہیں -جو میرا سچ ہے وہ سرمچاریوں کے ہاں بھگوڑے پن کے سوا کچھ نہیں -جو بالاچ کا سچ ہے وہ تمہیں گمراہ کن لگتا ہے اور بالاچ کو اپنا سچ ہی سب سے بڑا لگتا ہے – ہم اپنے اپنے سچ کی صلیب پر لٹکے رہنے اور فاصلوں پر پڑے رہنے کے سوا کربھی کیا سکتے ہیں –

رازق نے کہا-

” ارے رازق تم تو فلاسفر ہوگئے ہو “

ادیب بھی لگنے لگے ہو

زرینہ  نے اچانک موضوع تبدیل کیا- لگتا تھا کہ اب وہ اس موضوع پر اور بات کرنا نہیں چاہتی ہے

 یہ بتاؤ کرکیا رہے ہو ؟

یہ سنکر وہ ہنس پڑا اور کہا :

” ڈاکٹر بننے کا خواب تو تمہارے سرمچاری دوست کی وجہ سے پورا نہ ہوسکا  تو صبح ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں نوکری کرتا ہوں اور شام کو ایم اے انگریزی کی کلاسیں “

 “میں نے ٹھیک کہا تھا نا کہ تم میں فلسفیوں اور ادیبوں والے جراثیم آگئے ہیں ، انگریزی لٹریچر کا لگتا  ہے اثر ہونے لگا ہے تمہارے

 اوپر “زرینہ  نے کہا

اس دن شام تک رازق اور اس کی اماں ڈاکٹر زرینہ  کے گھر رہے اور پھر سرشام ڈاکٹر زرینہ  ان کو اپنی گاڑی میں ان کے گھر تک چھوڑنے آئی اور وہاں پر گڈو سے ملی اور رات گئے واپس ہوئی –

سالہا سال گزر گئے اور پھر وہ ڈکٹیٹر بھی آموں کی پیٹیوں کے ساتھ ہی ایک طیارے میں پھٹ گيا ، کئی نامی گرامی سرمچاری بعد میں اسلام آباد اور بلوچستان میں بننے والی حکومتوں ميں وزیر اعلی ، مشیر ، وزیر بنے اور کئی مغربی ممالک میں جاکر بزنس مین بن گئے اور کئی ایک گلف ریاستوں میں جابسے ، بالاچ کی کوئی خیر خبر کافی عرصہ تک نہ ملی ، رازق کا خیال تھا کہ اب وہ بھی جلد ہی معمول کی زندگی گزارنے لگ پڑا ہوگا –

لیکن بالاچ تو اور ہی راہ پہ چل پڑا تھا-پاکستانی بلوچستان میں اسے حالات موافق نہ ملے تو  وہ اپنے ساتھیوں سمیت ایرانی بلوچستان چلاگیا اور وہاں اس کے تعلقات جنداللہ سے استوار ہوئے ، رازق کو یقین نہیں آرہا تھا کہ بالاچ جیسا ماؤسٹ گوریلا ایک مذھبی جنونی جماعت کے ساتھ مل جائے گا اس کے اندر خیالات اور یادوں کا جو آتش فشاں تھا وہ بھی ایک دن نظموں اور افسانوں کی شکل ميں پھٹ کر باہر آگیا ، اس نے جو لکھا اسے بلوچ نوجوانوں ميں بے پناہ مقبولیت ملنے لگی ، اس کو پنجابی شاعر اور نکسلائٹوں ميں بھگوڑا کہے جانے والے پاش سے تشبیہ دی جانے لگی لیکن اس نے کبھی نہیں چاہا تھا کہ اس کا انجام پاش جیسا ہو دو سال مزید گزرے ہوں گے کہ بالاچ کا نام ایک مرتبہ پھر خبروں کی زینت بننے لگا ، رازق ان دنوں اپنی کنسلٹنٹ کمپنی چلارہا تھا-

جب اس کے دفتر کئی سالوں بعد خفیہ والے آئے تھے اور اس سے بالاچ کے بارے میں پوچھنے لگے تھے ، اس کو ظاہر ہے اتنا ہی پتہ تھا جتنا اخبارات میں چھپتا تھا ، اس لیے یہ پوچھ گچھ بیکار ثابت ہوئی لیکن رازق دیکھ رہا تھا کہ بلوچ نوجوانوں کے اندر اسلام آباد کے خلاف جذبات بہت بھڑک رہے تھے اور پھر جب وردی والوں نے اپنے ایک افسر کی ہوس کا نشانہ بننے والے لیڈی ڈاکٹر کی پکار پر کان نہ دھرے اور الٹا نجی محفلوں ميں یہ تک کہا کہ یہ قوم اسی سلوک کی مستحق ہے تو اس پر وہ بوڑھا بلوچ بھی بھڑک اٹھا جس نے 74ء میں خود بلوچستان کا سربراہ بنکر آزادی کا نام لینے والے بلوچوں کو موت کے سفر پر روانہ کیا تھا اور وہ سب بلوچوں کے لیے نفرت کا نشان بن گیا تھا ، اس بوڑھے بلوچ نے پہلی مرتبہ نوکریوں کے کوٹے ، گیس کی رائلٹی کی رشوت لینے سے انکار کرتے ہوئے پوری بلوچ قوم کے حقوق کی مانگ کی تو اس کے غار کو مزائیل مار کر تباہ کردیا گیا

اور وہ بھی وہاں اپنے ساتھیوں سمیت اسی غار میں دفن ہوگیا ، اس طرح کی موت نے وفاق کے ایک سابق وفادار کو راتوں رات پوری بلوچ قوم کا ھیرو بنادیا اور پہلی مرتبہ بلوچوں ميں قبائلی جنگ کی بجآئے باقاعدہ قومی تحریک آزادی کے آثار نظر آئے انہی حالات کے بیچ رازق کو بالاچ کا خط ملا تھا اور اسے آواران آنے کو کہا گیا تھا ، ایک دن وہ چپکے سے حلیہ بدل کر نکلا اور آوران پہنچ گیا اور آواران پہنچ کر وہ اس پتے پر گیا جہاں اس کو رابطہ کرنے کو کہا گیا تھا ، وہاں سے ایک آدمی اس کو لیکر انجانے راستوں پر چلتا ہوا پہاڑوں تک پہنچا اور وہآں ایک غار میں اس نے خود کو بالاچ کے سامنے پایا ، جو ویسے تو صحت مند نظر آتا تھا لیکن اس کے سر کے سارے بال سفید ہوگئے تھے بالاچ اور وہ گلے ملے اور اس کے بعد بالاچ اس کو لیکر زرا کھلی جگہ میں لے آیا ، دونوں ایک چٹان کی ٹیک لیکر بیٹھ گئے –

اس نے بالاچ کو حالات بتائے ، بالاچ نے سب سے پہلے اس سے پوچھا کہ کیا اس کی ماں کی ڈوب کر مرنے کی خبر سچی ہے ؟ پہلے تو رازق نے سوچا کہ اسے سچ بتادے لیکن پھر اس نے ایسا کرنے کا ارادہ ترک کردیا اور کہنا شروع کیا :

“بالاچ ! تمہیں اخبار کبھی کبھی ملتی ہے ، اور تم ان اخباروں میں چھپی ساری خبروں کو کبھی سچ نہ مان لینا ، وہ جو ماں کے جوہڑ ميں گر کر ڈوب مرنے کی خبر تھی ٹھیک نہیں تھی ، بلکہ کوئی اور چيز ہوگی جو جوہڑ ميں گری ہوگی ، تمہاری ماں خفیہ والوں کے ہاتھ کبھی نہیں چڑھ سکی ، اسے شاید تمہارے ہمدردوں نے چھاپے سے پھیلے ہی نکال لیا تھا ، تمہاری ماں مجھے تو گورگی کے ناول میں تیرتی ہوئی اب بھی نظر آجاتی ہے- اور وہ اس ناول کے کناروں کو گھورتی پائی جاتی ہے اور کبھی وہ اپنے سر کے بالوں کی طرح جھڑنے لگ جاتی ہے اور تم جانتے ہی ہوں گے ،تمہارے مخبروں نے خبر دی ہی ہوگی کہ میں نے بھی ٹارچر سیل میں اپنا منہ بند ہی رکھا ، درد کی اذیت سے چیخنے کے لیے تو منہ کھلا ہوگا ، کوئی راز بتانے کے لیے نہیں وہ یہ سب کچھ نجانے کس جذبے کے تحت بول گيا تھا-

تم روائتی  مڈل کلاسی شہری خيالی دنیا میں رہنے والے شاعروں کی طرح باتیں کررہے ہو رازق !

بالاچ نے مری بات سنکر کہا ، ویسے تم سے مڈھلی طبقاتی سوچ تو پہاڑوں پر آنے کے بعد بھی جدا نہیں ہوئی تھی ، اور تبھی تم مجھے چھوڑ کر بھاگ گئے تھے ، تمہارا وہ جذباتی خط میں نے پڑھ لیا تھا اور اپنے آدمیوں کو تمہاری نگرانی کو ترک کردینے کا حکم دیا تھا رازق بالاچ کی بات سنکر بس تھوڑا سا مسکرا دیا-

اور بولا

” میں نے تمہیں اس لیے بلایا تھا کہ تمہیں بتاسکوں کہ تمہارے پاس ماضی میں کی جانے والی بیوقوفیوں کا تدارک کرنے کا موقعہ ہے ، مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے شعروں اور افسانوں سے متاثر ہونے والے بلوچ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد ہے ، تم بلوچ قوم کی آزادی کے لیے بہت کام آسکتے ہو ، لیکن جس طرح کی شاعری اور افسانے تم لکھ رہے ہو ، وہ شکست خوردگی ، بے یقینی اور ناامیدی کی علامت ہیں ، تم بلوچ قوم کے لیے وہ کردار ادا کرو جو انقلاب کے دنوں ميں گورکی نے ادا کیا تھا ، اس قوم کے کام آؤ ، اسے راہ دکھاؤ ، راہ سے بھٹکاؤ نہيں”

بالاچ ایک ہی سانس میں یہ سب کچھ کہہ گیا تھا

“کامریڈ ! مجھے نہیں پتہ کہ تم کیسے مرے بارے میں وہ سب کچھ فرض کئے بیٹھے ہو جو تم نے ابھی بولا ، میں نے نہ تو شعر کسی کو متاثر کرنے کے لیے لکھنا شروع کئے اور نہ ہی افسانے ، یہ سب تو مرے اندر چل رہی خیالات کی کشاکش ہے حو باہر آگئی اور نظموں و افسانوں کا روپ دھارنے لگی تھی تم مجھے کہتے ہو کہ میں پہلے سے بنے بنائے سوچے سمجھے پلاٹ کے تحت اس کرافٹ میں اپنی ںظميں اور افسانے لکھوں جو سرمچاریوں کے مطابق ہوں تو مجھے تم سے معذرت کرنی پڑے گی-

 رازق نے اس سے کہا

“تم کیوں نہیں سمجھتے کہ اسلام آباد والوں کی ریاست کو اکھاڑے بغیر آزادی  ملنا ممکن نہیں ہے “

 بالاچ نے انتہائی تیز لہجے میں مجھ سے سوال کیا

بالاچ ! مجھے یہ سب نہیں پتہ ، میں تو اتنا جانتا ہوں کہ جب میں یہاں سے بھاگ کر واپس گیا تھا تو مجھ سے منہ پھیرنے والے ، مجھے دیکھ کر زمین پر تھوکنے والے اور کبھی کبھی تو ننگی گالیوں سے میرا سواگت کرنے والوں کو مرے اندر مچے بھانبھڑ کا پتہ تک نہیں تھا- تمہارے اور ان کے لیے یہ ریاست پانچ رومن اینٹوں والی ایک کھرلی ہوگی اور تمہیں لگتا ہوگا کہ تم اس سٹیٹ کو ویسے ہی اکھاڑ پھینکو جیسے پانچ رومن اینٹوں والی کھرلی کو پھینکا جاسکتا ہے – تم 74ء میں بھی ریاست کو پانچ رومن اینٹوں والی کھرلی سمجھ کر اکھاڑنے نکل چلے تھے اور آج بھی ایسا ہی سمجھ رہے ہو ، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ تم ایسا آج کرپاؤ گے کہ نہیں لیکن میں خود کو اس قابل نہیں پاتا –

میں ید ایک  آوارہ سیدھی دستاویز ہوں ، عدالتیں مرے لئے اب ایک شبد یا اجنبی بھاشا نہیں رہیں ، سچی بات تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے دروازے کٹھکٹھاتی مائیں ، بیٹیاں ، بچے اور بوڑھے سب ہی مجھے رات کو خوابوں ميں مل کر بھی ڈراتے ہیں اور یہ ان کی پیشی کے دن بانس کی سوئی کی طرح مرے اندر اگے پڑے ہیں اور ریاست کی بربریت سے جنم لیتی اجتماعی قبریں اور ان سے نکلنے والی باقیات اور پھر سپریم کورٹ کی غلام گردشوں میں گونج بنکر ابھرنے والی آواز فرزانہ ہمشیر مجید بلوچ بنام سٹیٹ ماما قدیر پدر جلیل بلوچ بنام سٹیٹ زوجہ غلام محمد بلوچ بنام سٹیٹ بالاچ ! ان آوازوں کو سننے کے بعد نہ کوئی رازق رہ سکتا ہےس نہ ہی سٹیٹ- مرے پاس تو ان سوالوں کا جواب نہیں ہے کہ ارسطو اور سٹالن صدیوں سے یہ جاننے کے لیے لمبی لڑائی میں مصروف ہیں کہ آدمی کس قسم کا جانور ہے ؟ بالاچ تم وقت کو قید کرنے کا اعلان آسانی سے کرسکتے ہو-لیکن وقت کو قید کرنے کے ہر اعلان کے بعد شرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہيں آتا-

 بالاچ ! مجھے تو افلاطون کے گن راج ، ارسطو کے دھرم راج اور ٹراٹسکی کے دماغ میں کھب جانے والی کامنٹرن کی کلہاڑی تینوں کی ٹھنڈے فرش پر ٹارچر سیل ميں پھیل جانے والے گرم خون کے درمیان کسی رشتے کی تلاش ہے جسے اچانک کسی بازار ، کالج ، یونیورسٹی کے ہاسٹل سے یا کسی ہسپال کے بیڈ سے فرشتوں نے اٹھايا تھا –

تم میری شاعری اور افسانوں کو مڈھلی طبقاتی سوچ کی پریشان خیالی کہتے ہو تو مجھے تمہاری رائے پر اعتراض نہیں ہے -لیکن تم بھی تو لفظوں کی تراش خراش کرنا سیکھو ہو ان کے اندر تہہ در تہہ چھپے معانی تک تو تم بھی نہیں پہنچے تم نے اگر لفظوں کے اندر چھپے معانی کی تہہ در تہہ پرتوں کو ایسے دیکھا ہوتا جیسے انڈوں کے اندر مچلتے ہوئے چوزے ہوا کرتے ہیں یا برستی بارش کے اندر سے آتی سانولی روپہر کے اندر گھلی دھوپ ہو تی ہے-میں نے زندگی کے لفظوں کو ان کی تیکھی ، تیکھی نوکوں کے ساتھ بھگتا ہے اور یہ تیکھا پن کسی بھی بندوق کی سنگین کی نوک  سے ختم نہیں کیا جاسکتا-

اور جن کو تم ںظمیں کہتے ہو وہ تو مرے اندر کا پل رہا آتش فشاں ہے جو کسی منصوبہ بند پلاٹ کے تحت باہر نہیں آیا

بالاچ ! تم جیسے سرمچاری ہارے ہوؤں سے نفرت کرنا ہی سیکھ سکتے ہیں ، ان کو جان نہیں سکتے جو بس جیت ہی تو نہیں سکے تھے -تمہیں کیا معلوم کہ تم اور تمہارے جیسے سرمچاریوں کی مائیں جب کبھی وردی والوں سے مڈبھیڑ میں مارے جانے کی خبر سنتی تھیں تو ہم جیسوں  کہنا پڑتا تھا کہ وہ تم نہیں تھے اور وہ مائیں سرد بڑھاپے کی معصومیت کے ساتھ کیا کہتیں ہیں ؟  تم کیا جانو :

“آنے دو ان نالائقوں کو ان کی خوب خبر لیں گی”

 یقین کرو اگر اب بھی تم کسی دن گھر لوٹو گے تو وہ تمہیں  گھر کی کسی بھی شئے کے ساتھ مارے گی اور پھر تمہارے منہ میں خشک ہوا دودھ ٹھونس دے گی ان ساری عذاب بھری یادوں کو اٹھائے پھرنے کے باوجود ، بالاچ تم نے بلایا تو میں حاضر ہوگیا ہوں ، تم نجآنے مجھے کیا سمجھ بیٹھے ہو ،

میں تو اس کبوتر کی طرح ہوں جو کسی ڈھے گئے گھر کے ملبے اور کھنڈرات ميں گھونسلا بنالے اور کوئی بھولا بھٹکا  وہاں جائے تو اسے گھونسلے سے جھانک کردیکھنے لگے ، میں تو پیار کا وہ خط ہوں جو سارا جل گیا ہو بس اس کا کوئی حرف جلنے سے بچ گيا ہو ، ميں تو وہ ہوں جو پردیس کمائی کرنے جائے اور اس کی بند تابوت میں لاش واپس آئے -میں پاش کی طرح سرمایہ داروں کی فوج کی ماردھاڑ سے بچ کر آیا ہوں اور اپنے بچھے کچھے جثے کے ساتھ ، اپنے تمام تر بھگوڑے پن کے ساتھ ، تم چاہو تو مرے سینے پر اپنا لال پستول آزما سکتے ہو اور میری اداس نظموں سے جھلکتی اداس بورژوازی پن کے سرچشمے کو ختم کرسکتے ہو ، دیکھو میرے اندر جو آگ ہے اس سے کوئی سیدھی سادھی نعرے باز ںظم تخلیق نہيں ہوگی ، کوئی کرانتی کار سپاٹ افسانہ نہیں نکلے گا  ، بہت گنجلک اور الجھی ہوئی نظمیں  اور افسانے نکلیں گے –

“میں وہ نہيں بن سکتا جو تم چاہتے ہو یا سٹیٹ چاہتی ہے”

 رازق ایک رو میں بولتا گیا اور جب وہ چپ ہوا تو اس نے دیکھا کہ بالاچ اس کی جانب مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا اچھا

 آؤ! کھانا کھاتے ہیں

بالاچ نے اس سے کہا

نہیں مجھے بھوک نہیں ہے ، بس واپس جانے کا انتظام کردو

رازق نے کہا

بالاچ نے اصرار نہیں کیا رازق واپس تربت پہنچا تو اس نے ایک ہوٹل ميں چائے پینے کا قصد کیا ، ہوٹل میں سناٹا تھا ، سب کے سب سامنے لگے ٹی وی کی طرف دیکھ رہے تھے ، ٹی وی سکرین پر بالاچ کی تصویر تھی اور ساتھ ہی کیپشن تھا پاکستانی شاہینوں کی بمباری سے خطرناک دھشت گرد بالاچ اپنے درجن بھر ساتھیوں کے ساتھ کيچ ضلع کے قریب بنی ایک کمین گاہ میں مارا گیا اس نے خبر سنی تو سکتے میں آگیا اور باہر نکلا تو دیکھ نہیں سکا کہ اس کے پیچھے پیچھے سرخ انگارہ آنکھیں لئے ایک نوجوان بھی نکلا –

جب وہ اس پتلی گلی کے قریب پہنچا جہاں سے ایک آدمی نے نکل کر اسے بالاچ کا خط دیا تھا تو اس انگاروں کی طرح دھکتی آنکھوں والے نے چادر ہٹاکر کندھے سے کلاشنکوف اتاری اور برسٹ مارا جو رازق کو لگا اور وہ لڑکھڑا کر گرا اور اس نے گردن موڑ کر نوجوان کو دیکھنا چاہا کہ ایک اور برسٹ نے اس کے سینے میں دوسرا شگاف کردیا اور اس کا دماغ گہرے اندھیروں میں گم ہونے سے پہلے ایک پاش کی نظم کے ایک فقرے سے لتھڑا ہوا تھا :

 کامریڈ ! بورژوازی پرانی شراب جیسی ہے جس میں ہمارے جیسے لوگ ایسے گل سڑ جاتے ہیں جیسے گوشت

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply