نظام ِ مصطفیٰ نا گریز کیوں۔۔حافظ عثمان علی معاویہ

نظام مصطفیٰ کے ناگریز ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں۔میں یہاں سب کا تو ذکر نہیں کر سکتا ،پھر بھی کچھ نا کچھ کا  ذکر کر کے ان کی دلیلیں بھی پیش کرتا ہوں تاکہ بات آسانی سے سمجھ آجائے۔ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نظام مصطفیٰ ایک مکمل نظام حیات ہے جو کہ زندگی کے ہر شعبہ میں انسانیت کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ یہ دوسرے ادیان کی طرح چند عقائد و نظریات یا اخلاقی اصولوں کا نام نہیں بلکہ جیسے عیسائیت،یہودیت اور ہندومت وغیرہ ان تمام ادیان میں چند عقائد و اصول اور بہت کم ایسے احکام مذکور تھے جو خاص معاشی،معاشرتی یا سیاسی کردار ادا کریں اور جو مذکور تھے وہ اجمالاًتھے ،جیسے سود کا مسئلہ ،سود تمام ادیان میں حرام ہے مگر کسی بھی دین میں اس کی تفصیل مذکور نہ تھی جبکہ نظام مصطفیٰ میں نہ  صرف اس کی تفصیل ہے بلکہ اس کے متبادل معاشی نظام بھی بالتفصیل مذکور ہے اور نہ ہی یہ نظام چند عقلی،سیاسی اور معاشی مفرضوں کا مجموعہ ہے بلکہ یہ انسانیت کو دیے جانے والا وہ جامع مانع نظام ہے جس کا تعلق روح کی اصلاح اور جسم کی فلاح دونوں کے ساتھ ہے۔ یہ نظام شعبہ ہائے زندگی جیسے سیاست و حکومت، قانون و تجارت،عقائد و عبادات، اخلاق و آداب،معاملات و معاشرت میں مکمل رہنمائی ہی نہیں کرتا بلکہ انفرادی،اجتماعی،دینی اور دنیاوی مسائل کا حل بھی پیش کرتا ہے۔

اس نظام کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ نظام ہیومن رائٹس کی وہ صحیح ترین بنیادیں فراہم کرتا ہے جس سے انسانیت کے تمام افراد بیک وقت جان مال، ابرو، عقیدے اور کسب معاش کا تحفظ حاصل کرسکتے ہیں۔یا یوں کہا جائے کہ یہ نظام افاقیت کو اپنے اندر سمو سکتا ہے اور عالمی قیادت کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہ صرف قلم کی نوک سے سپرد قرطاس کیے جانے والے نظام کا تذکرہ نہیں ہے بلکہ ایسے نظام کا تذکرہ ہے جو تاریخ سے اب تک انسانیت کو سے روشن کرتا ہے ،لہٰذا ایسا نظام جو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔اس کے نفاذ کی سخت ضرورت ہے اور وہ نظام اسلام کا نظام ہے۔

رائج الوقت نظام ہائے عالم میں سے کچھ تو  جزوئی اور کچھ کُلی طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔جو نظام کُلی طور پر ناکام ہوچکے ہیں ان میں سے دو نظام اٹلی اور جرمنی میں سر اٹھانیوالے فاشزم اور نازی ازم ہیں جو کہ صرف ایک یا ڈیڑھ صدی میں ہی اپنی موت آپ مرگئے اورکچھ نظام ایسے ہیں جو ناکام ہونے کے باوجود اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں البتہ ان سب نظاموں میں دو چیزیں مشترک ہیں۔پہلی چیز انسانیت کے مسائل کا حل کرنے میں ناکام ہونا ہے جیسے کہ اشتراکیت کا دعویٰ تھا کہ ہم عدل و انصاف اور اجتماعی کفالت پر مبنی معاشرہ قائم کریں گے اور لبرل ازم کا دعویٰ تھا کہ وہ غربت،بیماری اور جہالت کا خاتمہ کر دے گی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ لبرل ازم نہ غربت، بیماری اور جہالت دورکر سکی اور نہ ہی اشتراکیت عدل و انصاف اور اجتماعی کفالت پر مبنی معاشرہ وجودپذیر کرسکااور رہی جمہوریت جس کا منشور یہ تھا کہ وہ ہر فرد کو آزادی فراہم کرے گی۔جمہوریت اپنے اس مقصد میں کافی حد تک کامیاب رہی اور افراد آزاد ہوگئے مگر قومیں اور معاشرے یتیم اور غلام ہوگئیں ، کیونکہ جمہوریت کی بیان کردہ آزادی اس وقت تک حاصل نہیں کی جاسکتی جب تک کہ اولاد والدین سے،مذہب سیاست سے اور عوام حکمرانوں سے متصادم نہ ہو جائیں۔

خلاصہ یہ نکلا کہ یہ نظام انسانیت کے مسائل حل کرنے اور کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے وہیں ان نظاموں سے انسانیت کو مزید خطرناک مسائل سے دو چار کردیا گیا۔اقتصادی بدحالی،روحانیت کا قتل، عالمی جنگی جنوں، متشدد تحریکات اور اخلاقی تنزل و انحطاط جیسے خطرناک جراثیموں نے انہی نظاموں کی کوکھ سے جنم لیا ہے اگرچہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان نظاموں نے کچھ وقتی کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں مگران نظاموں کی ناکامیاں اور تباہ کاریاں ان کی کامیابیوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ان کے وجود کے اضرارو نقصانات ان کیفیوض و برکات سے کہیں زیادہ ہیں۔سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا وقتی کامیابیاں اور کچھ فوائد و ثمرات اس عظیم خسارے سے عمومی تباہی کی صورت میں پیدا ہونے والے نقصان اور خلا کو پورا کر جا سکتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ نظام مصطفیٰ جب اسفہان کی چوٹی پر طلوع ہوا اس وقت بھی کچھ ایسی حالت تھی۔اس وقت بھی سیاسی،معاشی،مذہبی اور معاشرتی مسائل درد سر بن چکے تھے۔دنیائے قدیم کا پایہ تخت رہنے والا یونان اپنے ہی نظام کے مہلک عناصر سے تباہ ہوچکا تھا۔ہندوستان”آریہ“کے ہاتھوں اور چین ”بان“ کے ہاتھوں برباد ہوچکے تھے۔مصر کی عوام چار ہزار سال سے 70 سے زائد بادشاہوں کے رحم و کرم پر تھے اور فارس کے مقہور و مجبور جمہور نے اپنے چھ بادشاہوں کو قتل کر دیا تھا۔بابل کے سلسلہ نمرود 50 بادشاہ ایک عرصہ سے قتل و غارت کا بازار گرم رکھے ہوئے تھے،خود عرب کی آپس میں قتل و غارت،معاشرتی برائیوں میں گھرا ہوا تھا پھر نظام مصطفیٰ کا سورج طلوع ہوا اور اس نظام نے ایک عظیم اور کامیاب زندگی کی نوید سنائی عا لمیت کی قیادت کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا اور بہت جلد آفاقیت کو اپنے اندر سمو گیا اور نظام ہائے عالم کا نعم البدل بن گیا۔صرف پون صدی ہی میں سیاسی، معاشی اورمعاشرتی قوت بن کر ابھرا یہ ایک تاریخی شہادت ہے جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ جب انسانیت کو چودہ سو سال پہلے تک ایسی صورتحال میں نظام مصطفیٰ نے سہارا دیا تھا تو آج بھی ایسی ناگفتہ صورت حال کا نظام مصطفیٰ ہی واحد سہارا ہے لہٰذا ہمیں نظام مصطفیٰ کے نفاذ کیلئے جدو جہد کرنی ہوگی۔آنے والے وقتوں میں ہمیں ایسے لوگوں کو چننا ہوگا جو نظام مصطفیٰ نافذ کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

موجودہ صورت حال اور وقت کا تقاضا بھی یہ ہے آج ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جو سائنسی ترقی کے لحاظ سے سے تو روشن ترین دور ہے مگر انسانیت کے لحاظ سے تاریخ انسانیت کا سیاہ ترین دور ہے اور انسانیت جس خطرناک صورت حال سے گزرہی ہے وہ شاید ہی کبھی گزری ہو، جو مسائل آج درپیش ہیں، شاید ہی کبھی درپیش ہوئے ہوں۔جن میں گروہی تصادم،باہمی منافرت،فکری جدول، نزاع،سیاسی اور مذہبی ٹکراؤ،حکام اور رعایا میں بڑھتی خلیج پیدا ہوچکی ہیں۔دوسری طرف معاشی مسئلہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ انسان بنیادی سہولیات لباس،مکان، تعلیم سے بھی محروم ہوچکا ہے۔قومیں تباہ ہوچکیں ہیں۔نظام ہائے عالم انسانیت کو درپیش مسائل کے حل کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔بیماریاں اتنی بڑھ گئیں ہیں کہ صرف کینسر، تمباکو نوشی اور دل کے عارضے میں مرنے والوں کی سالانہ تعداد 31 ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔لاکھوں کڑوروں لوگ بے یار ومددگار کھلے آسمان تلے سسک رہے ہیں۔عالمی تباہی کا خطرہ سر پر منڈرا رہاہے۔تیسری جنگ عظیم کی تیاریاں شروع ہیں کوئی بھی انسان اپنے جان و مال، عزت و نفا اور کسب معاش کے بارے میں مطمئن نہیں لہٰذا اب یہ وقت ایسے نظام کا تقاضا کرتا ہے جو انسانیت کے مسائل کو حل کرسکتا ہے۔اور اس کے چیلنج کو توڑ سکتا ہے اور مذہبی سیاسی،معاشی اور معاشرتی بگاڑ کو درست کر سکتا ہے اور اس ہمہ گیر تباہی سے بچا سکتا ہے جو قریب سے قریب تر ہوتی جا رہی ہے۔ ایسا نظام جو انسانیت کی امیدوں پر پورا اتر سکتا ہو اور وہ نظام صرف اور صرف نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے اور اب ہمیں اس کے نفاذ کے لیے ہر پلیٹ فارم پر کوشش کرنی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply