ڈمی اور ہماری اخلاقیات ۔۔۔ ڈاکٹر طفیل ہاشمی

ایک پروگرام میں حامد میر کو دیکھا. اس نے مولانا فضل الرحمن کی ڈمی، اینکر اور چینل کی وہ چھترول کی کہ لگتا تھا ابھی اینکر چھوڑ چھاڑ کر بھاگ جائے گی. حامد میر نے مولانا کا اتنا زبردست دفاع کیا اور داڑھی سنت رسول (ص) کی توہین پر اس قدر شدید اور موثر لیکن شائستہ اور مہذب احتجاج کیا کہ خود مولانا کی جماعت کا کوئی فرد ایسا مدلل اور مہذب دفاع نہ کر پاتا. بلاشبہ یہ ہی ہے اصل صحافت. . . . . نہ کہ پگڑیاں اچھالنا، بد تمیزی کرنا اور گالم گلوچ میں رواں ہونا. صحافت سے دلچسپی رکھنے والے دینی فضلاء کو کچھ عرصہ ایسے باوقار صحافیوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنا چاہیے.

کسی کے دھڑ پر کسی دوسرے کا سر لگا کر اس کی تذلیل کا سامان کرنا انسانیت سے گری ہوئی حرکت ہے. پہلے پہل میں نے 1970 کے الیکشن میں مولانا کوثر نیازی کے ہفت روزہ “شہاب” میں ایک فلم ایکٹریس، ڈانسر کی تصویر دیکھی جس پر مولانا مودودی کا سر لگایا گیا تھا. مولانا کوثر نیازی نے اس کا جواز ان الفاظ میں بیان کیا :

“ہم نے ایک بکنے والے بدن پر بکا ہوا سر لگا دیا “

بعد میں مولانا کوثر نیازی نے اپنی ایک کتاب میں اس پر ندامت کا اظہار کیا اور بتایا کہ میں نے مولانا سے معافی مانگ لی تھی اور ان کی عظمت ہے کہ انہوں نے معاف کر دیا.

چودھری شجاعت حسین ایک معزز فرد ہیں،. ان کی سیاست سے اختلاف کرنا بلاشبہ ایک صحت مند رویہ ہے اور ہر فرد کو اس کا حق ہے. لیکن گزشتہ سالوں میں غالباً فالج کے باعث ان کی گویائی متاثر ہوئی اور وہ اظہار ما فی الضمیر میں دقت محسوس کرتے ہیں جبکہ ان کی گفتگو سمجھنا بھی مشکل ہے۔ لیکن اس صورت حال کے وہ خود ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ اللہ کی طرف سے آزمائش ہے. ان کی سماجی خدمات کے بارے میں جو خبریں زبان زد عام ہیں وہ قابل فخر اور لائق تقلید ہیں. آپ نے TV چینلز پر ان کی ڈمی دیکھی ہو گی جس میں ان کے انداز تکلم کو ہدف استہزا بنایا جاتا ہے

اگر ہمارے دل میں ایمان کی کوئی رمق باقی ہے تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب کسی فرد کو کسی مصیبت مشکل بیماری یا آزمائش میں دیکھو تو اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمہیں اس تکلیف میں مبتلا نہیں کیا. نیز ان کی اولاد، عزیز رشتہ دار بھی یہ پروگرام دیکھتے ہونگے، ذرا سوچیے ان کی کتنی دلآزاری ہوتی ہو گی. ہمیں تو لوگوں کے کافر آباء و اجداد کا برائ سے ذکر کرنے سے روکا گیا مبادا ان کی مسلمان اولاد کو اذیت ہو.

میں تو صرف اس وجہ سے یزید کو کچھ نہیں کہتا کہ اس کی اولاد کبیدہ خاطر نہ ہو،ورنہ میرے اکابر نے جو جو کہا ہے اس کا ایک ایک لفظ مجھے یاد ہے اور میں اس سے متفق بھی ہوں. علماء دین کو اپنے خطبات جمعہ وغیرہ میں اس قسم کے منکرات کو بھی ایڈریس کرنا چاہیے کہ اب تو چینلز پر اس نوع کی حرکات عام ہو گئی ہیں.

کسی دور میں شرفاء کے گھرانوں کی خواتین کے نام بتانے کو بے غیرتی یا بے حجابی سمجھا جاتا تھا. فوٹو تو مرد بھی شاذ ہی بنواتے، کچھ تو فقہی عدم جواز کی وجہ سے اور کچھ معاشرتی روایات کی بنا پر لیکن تمدن کی تبدیلی نے ایک طرف فقہی روایات پر نظر ثانی کر کے فوٹو گرافی کو اس قدر مقبول علماء کردیا کہ سوشل میڈیا پر لگتا ہے کہ ہر کوئی نسلوں کی قضا ادا کرنے پر کمر بستہ ہے۔ دوسری طرف معاشرتی روایات بھی دم توڑ گئیں اور تعلیمی، سفری اور ازدواجی ضروریات نے خواتین کو بھی فوٹو گرافر کی شاپ پر پہنچا دیا. موبائل نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی اور اب نوزائیدہ غسل پیدائش سے قبل ہی زینت سکرین ہو جاتا ہے.

فوٹو شاپ نے اسے ممکن بنا دیا ہے کہ مختلف تصاویر کے اعضاء کو با یک دگر تبدیل کر کے ایک نیا امیج تشکیل کر دیا جائے. ہم بکثرت اس کے مظاہر دیکھتے ہیں کہ انسان کے بدن پر کتے یا گدھے کا سر لگا کر کسی بھی انسان کی تذلیل کی کوشش کی جاتی ہے. اس وقت کوئی گھر ایسا نہیں کہ جس کی خواتین کی تصاویر قومی شناختی کارڈ یا دوسری دستاویزات کے حوالے سے کہیں نہ کہیں موجود نہ ہوں. ہمارے ہاں اخلاقی اقدار کی پامالی کے باعث سوشل میڈیا، ٹی وی چینلز پر معزز افراد کی ڈمی یا ایسی تصاویر گردش کرتی ہیں جو کسی بھی معزز معاشرے کے لئے باعث عار ہیں.

مجھے اندازہ ہے کہ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی نصیحت کارگر نہیں ہو گی لیکن مجھے اس وقت سے خوف آتا ہے جب ہماری ماؤں، بیویوں، بہنوں اور بیٹیوں کی برہنہ تصاویر آوارہ گردی کی گواہی دے رہی ہوں گی اور خواتین مکمل طور پر معصوم ہونے کے باوجود اپنے والدین شوہروں، بچوں اور معاشرے کا سامنا نہیں کر سکیں گی اور جرم بے گناہی کے عذاب میں جل رہی ہوں گی. کتنے خاندان ٹوٹ جائیں گے، کتنی زہرا زادیاں خود کشی کر لیں گی، کتنے آبگینے خود شکستگی کےعذاب میں مبتلا ہو جائیں گے.

 قبل اس کے کہ تاریخ ہمارے شہروں کو سدوم اور پٹرا کے سلسلہ نسب میں پرو دے اور مستقبل کا مورخ الوہی الفاظ میں ہماری تاریخ لکھتے ہوئے کہے

“تلک مساكنهم لم تسكن من بعدهم الا قلیلا “

(یہ ہیں ان کے شہر جن میں ان کے بعد شاذ ہی کوئی آباد ہوا ہوگا)

آئیے، اس نا شائستہ روئیے کا کوئی موثر حل تلاش کریں.

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈاکٹر طفیل ہاشمی نامور اسلامی سکالر اور استاذ الاساتذہ ہیں۔ آپ دین کو سماج کے رواں مسائل کا بھی حل سمجھتے ہیں۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ڈمی اور ہماری اخلاقیات ۔۔۔ ڈاکٹر طفیل ہاشمی

Leave a Reply