پوری عورت کی ادھوری کہانی۔۔۔ڈاکٹر خالد سہیل

ایڈیٹرز نوٹ:

ڈاکٹر خالد سہیل اپنی ذات میں اک انجمن اور انجمن آرائی پر یقین رکھنے والے ادب دوست انسان ہیں۔ ان کی بطور نفسیاتی معالج ، شاعر اور ادیب ہمہ جہت شخصیت نے ایک وسیع حلقہ کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے۔ایک اچھا معالج اور طبیب ہی مسیحا ہوتا ہے جو پوری رازداری کے ساتھ اپنے مریض کو بنا احساس دلائے اس کا علاج یوں کرتا ہے کہ روح تک اتر جائے تاثیر مسیحائی کی۔ ہزار ہا مریضوں کو شفایاب کرکے، معاشرے کا ایک کارآمد شہری بنا کر اور لوگوں کی زندگیوں میں کھوئی ہوئی خوشیاں لوٹا کر یقیناََ انہوں نے بطور معالج اپنا کردار پوری ایمانداری اور پروفیشنل ازم کے تقاضوں کے عین مطابق نبھایا ہے۔اردو اور انگریزی میں درجنوں کتب کی تصنیف ان کی ادبی اور علمی شخصیت کو بیان کرنے میں کسی لفظِ تحسین کی محتاج نہیں۔لوگ ان پر اعتبار کرکے اپنا حالِ دل بلا جھجک ان کو سنا ڈالتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب مریض کی تالیفِ قلب، اس کا حوصلہ بلند کرکے اور کسی تعمیری کام میں اس کی شمولیت کے ذریعہ بخوبی ادا کرتے ہیں۔زیرِنظر تحریر میری نگاہ میں اردو ادب میں ایک نئی صنف یا جہت کی طرف مراجعت کا وہ سفر ہے جو شاید  آنے والے دنوں میں مزید کئی اذہان کو متاثر کرکے ان کو بھی مہمیز کرے ۔ایک انسان ان کی تحریر پڑھ کر انہیں خط لکھتا ہے اور بزبان خط آہستہ آہستہ اپنی کہانی بیان کرنا شروع کرتا ہے جسے وہ آغاز میں کسی دوسری موصول شدہ معمول کی ڈاک کا حصہ گردانتے ہیں اور اس کو مشورہ دینے کے ساتھ ساتھ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔مریض اسے اپنی ذات کا جزوِ اعظم مان کو لگ بھگ 150 خطوط ان کو لکھ ڈالتا ہے اور ڈاکٹر صاحب کو اپنے طرز تحریر اور افکار سے اتنا متاثر کرتا ہے کہ وہ باقاعدہ ایک طویل تحریر کے ذریعہ اس شخصیت کا ‘خطاکہ'(خط+ خاکہ )میں اس صنف کو اس نام سے منسوب کرنے کی جسارت معمولی کا مرتکب ہوں) پیش کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں۔ ادبی دنیا ان کے  اس ‘خطاکہ’ کو کس نظر سے دیکھے گی یہ ہم ان کے قارئین اور ادب پر عمیق نظر رکھنے والے نقادان پر چھوڑتے ہیں،فی الحال ان کی اس نئی ادبی صنف سے محظوظ ہوتے ہیں۔احمد رضوان

میں کنول سے کبھی نہیں ملا لیکن پھر بھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں انہیں بہت اچھی طرح جانتا ہوں اور اس کا زیادہ کریڈٹ کنول کو جاتا ہے۔۔ انہوں نے مارچ ۲۰۱۸ میں مجھے فیس بک فرینڈ کی دعوت بھیجی جو میں نے قبول کر لی۔ انہوں نے مجھے خط لکھنے شروع کیے۔میں ان کے خط پڑھتا اور ایک جملے میں شکریہ ادا کر کے حوصلہ افزائی کرتا۔ میرا خیال تھا کہ چند دنوں یا ہفتوں کے بعد وہ تھک جائیں گی اور خط لکھنے بند کر دیں گی لیکن انہوں نے خط لکھنے نہ چھوڑے اور میں بھی ان کے خطوط بڑی دلچسپی سے پڑھتا رہا۔

پچھلے مہینے جب میں نے انہیں بتایا کہ میں ایک کتاب مرتب کر رہا ہوں جس کا نام۔۔۔ادبی محبت نامے۔۔۔۔ہوگا اور اس کتاب میں میں اپنے دوستوں کے خطوط شائع کروں گا تو انہوں نے بھی مجھے ایک ادبی محبت نامہ لکھا۔ میں اس خط سے اتنا متاثر ہوا کہ میں نے ان کے پچھلے ایک سال کے تمام خطوط پڑھے۔ میں وہ خط پڑھ کر بہت خوش ہوا کیونکہ ان خطوط میں مجھے کنول کے نفسیاتی سفر کے بہت سے سنگِ میل دکھائی دیے۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ ان خطوط کی بنیاد پر میں ایک تفصیلی مضمون لکھتا ہوں جس کا عنوان۔۔۔۔پوری عورت کی ادھوری کہانی۔۔۔ہوگا۔ وہ یہ سن کر بہت خوش ہوئیں۔ کہنے لگیں میرے عزیزوں کے نام بدل کر چھاپیں چنانچہ میں نے ان کا نام کنول۔۔۔ان کے شوہر کا نام۔۔۔عرفان۔۔۔بیٹی کا نام سویرا۔۔۔بیٹے کا نام۔۔۔یوسف۔۔۔ چنا۔ کنول نے ایک سال میں مجھے ۱۵۰ خط لکھے۔یہاں میں کنول کے پہلے تیس خطوط کے بارے میں اپنے تاثرات اور بقیہ خطوط کا خلاصہ پیش کرتا ہوں تا کہ آپ کو کنول کے نفسیاتی سفر کے چند سنگِ میل دکھائی دے سکیں۔

۱۰ اپریل ۲۰۱۸ کے پہلے خط ہی میں کنول کو احساس ہوا کہ وہ ایک سنجیدہ نفسیاتی مسئلے کا شکار ہیں۔ بچپن میں والد کے سائے سے محروم ہونے اور ماں سے محبت اور شفقت نہ ملنے سے ان کی شخصیت متاثر ہوئی ہے۔ لکھتی ہیں ‘سر جی ! میں اپنی عمر کے نویں سال کی قیدی ہوں۔۔۔تب جب میرا باپ فوت ہواتھا اور میری زندگی رک گئی تھی۔۔۔میری ذہنی اور جذباتی۔۔۔گروتھ وہاں جم گئی تھی۔۔۔میری ماں کے پاس وقت نہیں تھا۔۔وہ غمِ روزگار میں پھنس گئی تھی۔۔۔اور میں قیدی بن گئی تھی۔۔۔۔شدید ان سکیورٹیز میں گھری ۔۔۔۔طلب۔۔۔پیاس۔۔۔محبت شفقت بھرا لمس اور لہجہ۔۔۔میں اب بھی وہیں کھڑی ہوں۔۔۔۳۴ سال لگے مجھے ۔۔۔اپنا مسئلہ جاننے میں۔

دوسرے خط میں کنول نے میرے ساتھ ایک جذباتی تعلق اور ایک نفسیاتی رشتہ قائم کر لیا تھا۔مجھے اپنا مونس و غمخوار مان لیا تھا۔۔۔مجھے ایک ہمدرد اور بزرگ دوست کے طور پر قبول کر لیا تھا۔۔۔بزرگ دوست ہونے کا اظہار ان کے طرزِ تخاطب۔۔۔۔۔سر جی۔۔۔۔سے آشکارا ہے۔رقم طراز ہیں ‘ آپ بہت اچھے ہیں سر جی ! مہربان۔۔۔محبت کرنے والے۔۔۔وسیع القلب۔۔۔آپ جیسا انسان پہلے کبھی نہیں دیکھا۔۔

کنول کا مجھے سے وہ تعلق اہم ہے کیونکہ اگر وہ تعلق نہ ہوتا تو میں ان کی نفسیاتی مدد نہ کر سکتا۔

تیسرے خط میں کنول بتاتی ہیں کہ وہ یو ٹیوب پر میرے اور ڈاکٹر بلند اقبال کے پروگرام دیکھتی ہیں۔مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ مجھے ایک دوست کے علاوہ ایک ماہرِ نفسیات اور دانشور کے طور پر بھی قبول کر رہی ہیں۔ اسی لیے وہ میری عزت کرتی ہیں اور میری رائے کا احترام کرتی ہیں۔۔

جب میں نے کنول کا پانچواں خط پڑھا تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ ایک نثری نظم ہو۔اس خط میں ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا فنکارانہ اظہار ہوا ہے۔ مجھے یوں بھی محسوس ہوا جیسے ان کے دل میں روشنی کی کرن پھوٹی ہو اور تاریکی سے روشنی کا سفر شروع ہوا ہو۔لکھتی ہیں ‘روشنی۔۔۔آنکھوں کے رستے میرے وجود میں داخل ہو رہی ہے۔۔۔جدھر سے گزرتی ہے منور کرتی جاتی ہے۔۔۔جب دل تک پہنچتی تو۔۔۔دل پہلے ہی تیز روشنی سے جگمگا رہا ہے۔۔۔۔روشنی۔۔۔روشنی سے ملتی ہے اور ایک ابدی روشنی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔۔۔میری آنکھوں سے روشنی ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہی ہے پورے وجود سے جھڑ رہی ہے۔۔۔میرے چار سو روشنی کا رقص ہے۔۔۔۔میں یہ جسم کا لباس اتار کر روشنی کا لباس پہننا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔وہی میرا اصل ہے۔

چھٹے خط میں کنول میرا تعارف اپنی ازدواجی اور خاندانی زندگی سے کرواتی ہیں اور خود ترحمی اور احساسِ کمتری کا اظہار کرتی ہیں لیکن اس تکلیف دہ احساس کے ساتھ ساتھ ان کے دل میں میک اپ کرنے اور اپنے شوہر کے ساتھ محبت پیار کی باتیں کرنے کی خواہش بھی انگڑائی لیتی ہے۔

مجھے ایسا لگا جیسے آسمان پر بادلوں میں گھرے سورج کی چند کرنیں بادلوں سے نکل کر زمین تک پہنچنی شروع ہو گئی ہوں۔رقم طراز ہیں۔۔۔
رات بہت دنوں بعد۔۔۔ نہیں مہینوں بعد ہمارے بیچ پروان چڑھتی سرد مہری کی دیوار زمین بوس ہوئی۔۔۔ وہ بہت اچھا ہے۔۔۔ مجھ سے تو بہت بہتر ہے ۔۔۔ ہینڈسم ہے ۔۔۔ کیئرنگ اور محبت کرنے والا ہے ۔ اگر میں جگہ بدل کر دیکھوں تو شاید میں ایک دن نہ رہ سکتی اپنے ساتھ ۔ وہ خوبصورت ہونے کیساتھ زندہ دل بھی ہے  اور میں۔۔۔ سدا سے احساسِ محرومی اور احساسِ کمتری کی ماری عورت۔۔۔میں اسکو دل سے قبول نہ کر پائی کہ مجھے میچور مرد چاہیے تھا ۔۔۔ مگر حقیقت میں وہ مجھ سے زیادہ میچور ہے۔۔۔ سچ کہوں تو میں مجرم ہوں اسکی۔۔۔وہ مجھ سے بہت بہتر عورت ڈیزرو کرتا ہے۔۔۔۔ پتہ نہیں کس کس کی مجرم ہوں۔۔۔ بزدل عورت۔۔۔ شکل صورت تو چلو اپنے اختیار میں نہیں ۔۔۔ مگر امورِ خانہ داری میں بھی فیل ۔۔۔ بے ہنر ۔۔۔ بے سلیقہ۔۔۔۔ایسی عورت کا بھلا اچار ڈالے گا کوئی مرد۔۔۔ نہ جس کی شکل دیکھ کر خوشی ملے اور نہ کوئی سلیقہ ۔۔۔ ہم ایک ساتھ اچھے بھی نہیں لگتے ۔۔۔ وہ چاہتا میں اس کے ساتھ بن سنور کر باہر جاؤں ۔۔۔ کھانا کھانے جائیں ۔۔۔ زندگی جئیں ۔۔۔ مگر۔۔۔۔مجھ میں اتنی ہمت نہیں ۔۔۔ مہینوں گھر سے نہیں نکلتی۔۔۔آج جب اسکو کہا کہ میرے لیے بھی خریداری کیے لانا(بہن کا نکاح ہے)تو اسکی شکل دیکھنے والی تھی۔۔۔اس کے باوجود کہ آپ سے شئیرنگ کے بعد میری ذات کی بہت سی گتھیاں سلجھ رہی ہیں ۔۔۔ میں خود کو زیادہ بہتر سمجھ پا رہی ہوں۔۔۔۔مگر تیزی سے اپنی ذات کے دائرے میں سمٹنے سے خود کو نہیں روک پا رہی۔۔۔مجھ سے جڑے لوگوں کے لیے میری ذات باعثِ تکلیف ہے۔۔۔مگر ۔۔۔۔میں کچھ نہیں کر سکتی۔۔۔ ایک تبدیلی بہت حوصلہ افزا ہے۔۔۔میں نے خود پر قابو پانا سیکھ لیا ہے۔۔۔بھلے میں اندر سے جتنی بھی مضطرب ہوں ۔۔۔ الجھی ہوں۔۔۔ گھر پر ۔۔۔ بچوں پر اثر انداز نہیں ہونے دیتی ۔۔۔ بلکہ پتہ بھی نہیں چلنے دیتی کہ کیا سین ہے ۔۔۔ رات جب وہ لوٹا ۔۔۔ چار دنوں بعد(آفس کے کام سے لاہور تھے)تو میں گیٹ پر مسکرا کر ملی اس سے(لالی ۔۔پاؤڈر سمیت) تو وہ بہت خوش ہوا ۔۔۔ (میں نے ایسا کیوں کیا ۔۔۔ اسکا محرک نہیں معلوم)لیکن جب وہ مجھ سے زیادہ امیدیں باندھ لے تو خوفزدہ ہو جاتی ہوں۔۔۔پاگل عورت۔۔۔بس چند برس اور خیریت سے گزر جائیں(ہوش ٹھکانے رہیں)بچے تھوڑا اور بڑے ہو لیں۔۔۔پھر میں مکمل  آزاد ہو جاؤں گی سب فکروں سے۔۔۔(بچوں کی فکر۔۔ٹھیک سے دیوانہ بھی نہیں ہونے دے رہی)’

 

 

 

 

ساتویں خط میں کنول محبت کے بارے میں اپنے جذبات اور نظریات کا اظہار کرتی ہیں لیکن ان خیالات میں ایک طنز ہے۔ وہ محبت کا تعلق ضرورت۔۔۔مجبوری۔۔۔۔عادت سے جوڑتی ہیں۔ وہ اپنے شوہر عرفان پر بھی ترس کھاتی ہیں جس کا بچپن میں والد فوت ہو گیا تھا۔
اس خط کو پڑھنے سے مجھے پتہ چلتا ہے کہ کنول اور عرفان دونوں کے والد بچپن میں فوت ہو گئے تھے جس کی وجہ سے انہیں نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔دونوں نہیں جانتے کہ صحتمند محبت کیا ہے ۔۔۔ کیسے حاصل کی جاتی ہے اور شادی اور محبت کا کیا رشتہ ہے؟ کنول لکھتی ہیں۔

شاید ضرورت حد سے بڑھ جائے تو محبت کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے۔۔
یہ جملہ پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ کنول ایک صاحب الرائے عورت ہیں۔ وہ زندگی کے بارے میں سوچتی ہیں۔ غور کرتی ہیں اور اپنی رائے تخلیق کرتی ہیں۔وہ فنکارہ ہی نہیں ایک دانشور بھی ہیں۔
ساتویں خط تک پہنچتے پہنچتے مجھے احساس ہو گیا تھا کہ وہ عورت جسے میں ایک معمولی عورت سمجھتا تھا۔ ایک روایتی ماں۔۔۔بیوی۔۔۔بہن۔۔۔بیٹی سمجھتا تھا ۔۔۔ دراصل زندگی کے بارے میں غور و فکر کرنے والی ایک غیر معمولی عورت ہیں۔
اس خط کے بعد میں ان کے خطوط کو زیادہ سنجیدگی سے پڑھنے لگا۔

آٹھویں خط میں کنول مجھے بتاتی ہیں کہ ان کا مجھ پر اتنا اعتبار ہے کہ وہ مجھے اپنی ذات اور زندگی کے تاریک گوشے بھی دکھا رہی ہیں۔وہ مجھے اپنے دل کی وہ باتیں بتا رہی ہیں جو انہوں نے پہلے کبھی اپنے کسی قریبی دوست یا رشتہ دار کو بھی نہیں بتائیں۔
اس خط سے مجھے اندازہ ہوا کہ ان کا مجھ پر اعتماد بڑھ رہاہے۔لکھتی ہیں ‘ آپ واحد شخص ہیں جن سے بے جھجک ہو کر بات کر رہی ہوں ۔

نویں خط میں کنول اپنی والدہ کا تعارف کرواتی ہیں اور مجھے بتاتی ہیں کہ ان کی والدہ بہت چھوٹی عمر میں بیوی بھی بن گئی تھیں اور ماں بھی۔اسی لیے وہ ماں کا رول ادا کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں تھیں۔

اس خط سے مجھے اندازہ ہوا کہ کنول کا اپنی والدہ سے رشتہ صحتمند نہیں تھا۔کنول کو احساس تھا کہ ان کی والدہ کی خواہش تھی کہ لڑکا پیدا ہو لیکن لڑکی پیدا ہو گئی۔کنول اپنی والدہ کا ذکر کرتے ہوئے محبت’ شفقت اور پیار کی بجائے نفرت اور بیزاری کا ذکر کرتی ہیں۔ اس نفرت میں کچھ ہمدردی بھی شامل ہے کیونکہ وہ ان پڑھ تھیں اور ایک غیر صحتمند نظام کی وکٹم تھیں۔ کنول کو اندازہ ہے کہ عورتوں کے مسائل کا سلسلہ نسل در نسل چلتا آ رہا ہے۔ کنول اپنی والدہ کو اپنے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہتی بھی ہیں اور نہیں بھی۔
کنول کا خیال ہے کہ بچپن کی محرومیوں کی وجہ سے وہ ‘ کمزور۔۔۔دبو۔۔۔انٹرورٹ۔۔۔کم عقل’ بن گئیں۔ وہ اپنے احساسِ کمتری کا رشتہ اپنے بچپن اور ان پڑھ ماں کی ناقص تربیت سے جوڑتی ہیں۔
کنول کے نفسیاتی مسئلے میں شدت اس وقت پیدا ہوئی جب انہوں نے اس کا تعلق اپنے بھائی سے جوڑا۔انہیں احساس تھا کہ ان کی والدہ اپنے بیٹے سے اپنی بیٹیوں سے زیادہ محبت کرتی ہیں۔کنول اس نتیجے پر پہنچیں کہ ان کا بچپن ایک ‘ابنارمل فیمیلی سٹرکچر’ میں گزرا جس کی وجہ سے ان کے دل میں اپنی والدہ اور بھائی کے لیے ‘نفرت’ پیدا ہوئی۔
بچپن کے ان واقعات کا ردِ عمل یہ ہوا کہ جب کنول کے ہاں بچے پیدا ہوئے تو انہوں نے پہلوٹی کی بیٹی سویرا کو تو والہانہ محبت دی لیکن ان کے بیٹے یوسف کے حصے نفرت آئی۔ جس کی وجہ سے سویرا کے حصے میں اعتماد اور یوسف کے حصے میں عدمِ اعتماد آیا۔
کنول اس بات کر اعتراف کرتی ہیں کہ جب وہ نئی نئی ماں بنی تھیں تو انہیں ماں کے کردار کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ نہ تھا کیونکہ انہیں اپنے بچپن میں اچھا رول ماڈل نہ ملا تھا۔
لیکن جب کنول کو اپنی کوتاہی کا اندازہ ہوا تو انہوں نے اپنا رویہ بدلا اور دونوں بچوں پر پیار’ محبت اور شفقت نچھاور کرنی شروع کر دی۔

دسویں خط میں کنول میری دوستی اور ہمدردی کا شکریہ ادا کرتی ہیں اور ساتھ ہی پوچھتی ہیں کہ چونکہ وہ مجھ سے اپنے نفسیاتی مسائل اور اپنی زندگی کا تاریک رخ شیر کرتی ہیں تو کیا میں ان سے ‘نفرت’ تو نہیں کرنے لگ گیا۔اس خط کے بعد میں ان کو reassure کیا۔۔۔تسلی دی۔۔۔اور جب ان کی حوصلہ افزائی کی تو وہ خوش ہو گئیں۔

گیارھویں خط میں کنول مجھے بتاتی ہیں کہ وہ یو ٹیوب پر میرا پروگرام۔۔۔دانائی کی تلاش۔۔۔۔دیکھتی رہتی ہیں۔
اس خط میں انہوں نے خدا اور مذہب کے بارے میں اپنے خیالات بھی شیئر کیے جیسے ایک دانشور دوسرے دانشور سے کرتا ہے۔ مجھے اندازہ ہوا کہ ان کی خود اعتمادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

بارھویں خط میں کنول مجھےبتاتی ہیں کہ وہ میرے پروگرام دیکھ کر اور میری کتابیں پڑھ کر فخر محسوس کرتی ہیں۔ انہوں نے مجھ سے اجازت مانگی کہ وہ میرا یہ نیم مذاہیہ شعر
؎ میں اپنی اس بری عادت پہ خودہی مسکراتا ہوں
میں اپنے آپ کو اکثر کہیں پر بھول آتا ہوں
اپنی فیس بک وال پر لگانا چاہتی تھیں۔
مجھے اس خط سے محسوس ہوا کہ بزرگ دوست کا بزرگ پیچھے جا رہا ہے اور دوست آگے آ رہا ہے۔ احترام میں بے تکلفی کے رنگ بھی ابھر رہے ہیں۔

کنول مجھے یہ بھی بتاتی ہیں کہ وہ اپنے خاندان میں مس فٹ ہیں آؤٹ سائڈر ہیں۔
اس احساس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ بھی اندازہ ہو رہا ہے کہ ان کا احساسِ کمتری ان کا خود ساختہ ہے۔ میری نگاہ میں یہ احساس ان کے لیے ایک اہم
realization تھی۔ اس آگہی کے بعد انسان اپنی زندگی’ صحت اور خوشی کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ مجھے خوشی ہوئی کہ کنول کے ذہن میں ایک نئی کھڑی کھلی ہے جس سے تازہ ہوا اور سورج کی روشنی اندر جا سکے گی۔

کنول جو پہلے صرف دکھ اور درد محسوس کرتی تھیں اب مسرت اور انبساط بھی محسوس کرتی ہیں۔۔۔ لکھتی ہیں۔۔۔‘ میں آپ سے بات کر کے خوشی محسوس کرتی ہوں’

تیرھویں خط میں کنول مجھے پہلی بار بتاتی ہیں کہ وہ ایک زمانے میں ایک نرس تھیں ایک کامیاب نرس۔ وہ اپنے مریضوں کی خدمت ہی نہیں ان سے بے لوث محبت بھی کرتی تھیں۔ ان کا خیال رکھتی تھیں۔ وہ نرس کے رول میں مسیحا بن جاتی تھیں۔ لکھتی ہیں ‘ میں سسٹر نہیں رہتی تھی۔۔۔ماں بن جاتی تھی’
یہ محبت یہ خدمت انہیں خوش رکھتی تھی۔
پھر وہ مجھے یہ بھی بتاتی ہیں کہ وہ پیشہ ورانہ طور پر خوش لیکن ازدواجی طور پر ناخوش رہتی تھیں۔
میرے لیے یہ تعجب کی بات تھی جب انہوں نے مجھے بتایا کہ چونکہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رومانوی تعلقات نہیں رکھنا چاہتی تھیں اس لیے انہوں نے شوہر کو اجازت دے دی کہ وہ اپنی گرل فرینڈ بنائیں اور ان سے جنسی تعلقات قائم کریں۔

مرد’ جنس اور رومانس سے بیزاری کی وجہ۔۔۔؟ وہ لکھتی ہیں
بچپن میں ہوئے چند برے واقعات نے میری سائیکی  کو  ٹوٹل تباہ کر دیا۔۔۔۔مرد ذات سے نفرت اور سیکس سے گھن آتی تھی مجھ کو ۔۔۔
کنول نے مجھے بتایا کہ وہ دل کی باتیں کسی سے شیئر نہیں کرتیں لیکن میری دوستی۔۔۔اعتماد۔۔۔اعتبار۔۔۔کی وجہ سے وہ اب شیر کر رہی ہیں۔ مجھے اس شیرنگ میں ان کی خود اعتمادی کی جھلک نظر آ رہی تھی، لکھتی ہیں
‘ بہت کچھ کھو کر۔۔۔پہلے سے زیادہ مضبوط ہوں۔

چودھویں خط میں لکھتی ہیں ‘ آپ کا ہر جملہ میرے لیے اہمیت رکھتا ہے۔۔۔آپ کا وجود غنیمت ہے’
مجھے اس خط میں کنول میں ایک نمایاں ’ اہم اور مثبت تبدیلی محسوس ہوئی۔ وہ دھیرے دھیرے ذہنی صحت کی طرف قدم بڑھا رہی تھیں۔ ان کے مایوسی‘ ناامیدی اور محرومی کے سائے چھٹ رہے تھے اور امید کا سورج طلوع ہو رہا تھا۔ اسی لیے خط کے آخر میں لکھتی ہیں کہ میں ‘پر امید’ ہوں۔

پندرھویں خط میں کنول کے اندر چھپے ہوئے فنکار اور دانشور پھر سطح پر اور لاشعور سے شعور میں آ جاتے ہیں۔ وہ اپنے خیالات۔۔۔جذبات۔۔۔نظریات۔۔۔۔کا بڑے اعتماد سے اظہار کرتی ہیں۔لکھتی ہیں
‘ خواہش خود رو پودے کی مانند اگتی۔۔۔بڑھتی۔۔۔چلی جا رہی ہے۔۔۔اگر میری منزل درد کے اس پار ہے۔۔۔تو میں درد کی حدوں سے گزرنے کو تیار ہوں۔۔۔
اس جملے میں ایک دلیر اور بہادر عورت کا پرتو نطر آتا ہے جو اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے ہر قسم کے مصائب کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے۔وہ جانتی ہے ؎ لمبی ہے غم کی رات مگر رات ہی تو ہے
وہ یہ بھی جانتی ہے
؎ نہیں ایسی کوئی بھی رات جس کا
کہیں سورج کوئی نہ منتظر ہو

سولہویں خط میں کنول تنہائی اور دیوانگی کے رشتے کے بارے میں غور کر رہی ہیں۔ وہ بخوبی جانتی ہیں کہ تنہائی کا رشتہ دانائی سے بھی ہے اور دیوانگی سے بھی۔ وہ دانائی کو گلے لگانا چاہتی ہیں لیکن دیوانگی سے گھبراتی بھی ہیں۔

سترھویں خط میں کنول انسان کا اپنے ماضی سے رشتہ جوڑتی ہیں۔ چونکہ انسانوں کا ماضی جانوروں’ پرندوں اور مچھلیوں سے جڑا ہوا ہے اس لیے وہ سب ہمارے اندر ہمارے لاشعور میں رہتے ہیں۔
اس خط سے مجھے پتہ چلا کہ کنول ادب اور فلسفے سے ہی نہیں سائنس سے بھی گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔

اٹھارھویں خط میں کنول مجھے اپنے اندر کی آواز سناتی ہیں جو انہیں کہتی ہے ‘ تم ایک مردہ عورت ہو’ ۔ وہ ایک دفعہ پھر منفی سوچ کے بھنور میں پھنس جاتی ہیں اور احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتی ہیں۔انہیں یہ فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ مستقبل میں ان کے بچے ان پر فخر کرنے کی بجائے کہیں نادم نہ ہو جائیں۔ وہ اپنے ماضی حال اور مستقبل کو ایک لڑی میں پرونا تو چاہتی ہیں لیکن فکرمند ہیں۔۔۔

انیسویں خط میں کنول کے ملے جلے جذبات ہیں ۔ وہ بچوں کے ساتھ وقت گزار کر خوش بھی ہیں اور خوف زدہ بھی کہ کہیں وہ انہیں عضوِ ناکارہ نہ سمجھ بیٹھیں۔
وہ اپنے بچوں کی ماں بن کر خوش ہیں
لیکن کام نہ کرنے کی وجہ سے ناخوش
کنول خواب میں پہاڑ دیکھتی ہیں۔ پہاڑ ان کی زندگی کا استعارہ ہیں۔ کبھی وہ پہاڑ پر چڑھ جاتی ہیں اور کبھی اس سے نیچے اتر آتی ہیں۔

بیسویں خط میں کنول انسانی آنکھ اور اس کی خوبصورتی کا ذکر ایسے انداز سے کرتی ہیں جیسے ان کے اندر ایک شاعر‘ دانشور اور سائنسدان یکجا ہو گئے ہیں۔ کنول کی تصورات کی دنیا ایک فنکار کی دنیا ہے۔ لکھتی ہیں
‘ یہ جہاں ایک حیرت کدہ ہے’
‘کاش میں ہوا ہوتی’
یوں لگتا ہے کنول اپنے ذہن کے دروازے‘ کھڑکیاں اور روشن دان کھول رہی ہیں تا کہ تازہ ہوا اندر جا سکے اور اندر کی روشنی باہر آ سکے۔

اس خط میں وہ پہلی دفعہ مجھے بتاتی ہیں کہ ان کی جوب چھوڑنے کی وجہ ان کی بیماری تھی۔ انہیں نوجوانی میں ریومیٹک فیور ہو گیا تھا جس سے بہت سے لوگ معذور و مجبور ہو جاتے ہیں۔ لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور تعلیم مکمل کی۔ نرس بن کر ملازمت بھی کی لیکن پھر ماں بننے کے بعد ملازمت چھوڑنی پڑی تاکہ وہ کل وقتی ماں بننے کی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔
کنول کو فکر ہے کہ میں ان کے خطوط کو مجموعہِ تضادات نہ سمجھوں۔ وہ ایک مخلص دوست ہیں جو جی میں آتا ہے لکھ دیتی ہیں۔
میں نے ایک دفعہ پھر ان کو تسلی دی اور حوصلہ افزائی کی کہ لکھتی رہیں۔

کنول کے خطوط میں سادگی ہے۔۔۔ سچائی ہے۔۔۔ بے ساختگی ہے۔ کیونکہ وہ کسی لالچ یا درپردہ مقصد کے لیے نہیں لکھتیں۔ وہ اپنے سچ کے اظہارکے لیے لکھتی ہیں اور سچ شش پہلوصداقت ہے۔

اکیسویں خط میں کنول کو اندازہ ہوا کہ مجھے خطوط لکھنے سے انہیں فائدہ ہو رہا ہے ۔ لکھتی ہیں ‘آپ بہت اچھے ہیں سر جی۔۔۔۔جس وسیع القلبی سے سنا میرا حوصلہ بڑھایا۔۔۔میری اپنی ذات ہی مجھ پر کھلتی چلی گئی۔۔۔بہت سے خوف دور ہوئے۔۔۔اب پر امید اور پرجوش ہوں۔۔۔’
بائیسویں خط میں کنول نے اپنی بہنوں کی بات کی۔۔۔۔پانچ بہنیں۔۔۔دس بازو۔۔۔جو ایک دوسرے کی مدد کو تیار رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں ۔ایک دوسرے کی ہمت بندھاتے ہیں۔
مجھے اس خط سے پہلے بالکل اندازہ نہ تھا کہ وہ اپنی بیماری کی وجہ سے chronic pain کا شکار رہتی ہیں اور درد کےلیے مختلف دوائیں کھاتی رہتی ہیں۔مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ جوں جوں وہ ذہنی طور پر بہتر محسوس کر رہی ہیں انہوں نے دوائیں کھانی کم کر دی ہیں۔۔۔یہ صحت کی طرف ایک مثبت قدم ہے۔

تئیسویں خط میں قدرے نوسٹلجیا ہے۔ وہ اس زمانے کی بات کرتی ہیں جب وہ کام کرتی تھیں۔۔ مالی طور پر آزاد و خود مختار تھیں۔پھر بچے پیدا ہوئے اور انہوں نے خاندانی ذمہ داریاں اٹھائیں اور ملازمت چھوڑ دی۔ انہیں شوہر پر معاشی طور پر انحصار کرنا اچھا نہیں لگتا۔
مجھے اندازہ ہوا کہ کنول کے اندر ایک خوددار انسان بستا ہے جو کسی پر حتیٰ کی اپنے شوہر پر بھی بوجھ نہیں بننا چاہتا۔یہ خط پڑھتے ہوئے مجھے عارف عبدالمتین کا شعر یاد آیا
؎ ناداں ہیں جو کہتے ہیں کہ مغرور ہے عارفؔ
ہم نے تو اسے پایا ہے اک بندہِ خوددار

چوبیسویں خط میں وہ اپنی اور میری دوستی کے بارے میں لکھتی ہیں ‘ ایک ایتھییسٹ اور ایک صوفی کی دوستی۔۔۔ایک آپ ہیں کہ آپ کو کبھی خدا ملا ہی نہیں ۔۔۔اور ایک میں ہوں۔۔۔کہ اس کے سوا کبھی کچھ دکھا ہی نہیں۔۔۔
اس جملے میں فلسفہ بھی ہے۔۔۔مزاح بھی۔۔۔۔ادبی چاشنی بھی۔۔۔
کنول کے اندر ایک سنت ۔۔سادھو۔۔۔صوفی بننے کی خواہش ہے اور ساری دنیا کے سفر کی آرزو۔۔۔لیکن بچوں کی ذمہ داری پائوں کی زنجیر ہے۔۔۔

پچیسویں خط میں کنول اپنا موقف بیان کرتی ہیں کہ ہر عورت کے اندر ماں کا جذبہ۔۔۔ممتا کا پیار۔۔۔بلٹ ان ہوتا ہے۔۔۔وہ اس کی سرشت میں شامل ہوتا ہے۔

چھبیسویں خط میں کنول کم ظرف لوگوں کے بارے میں اپنی رائے رقم کرتی ہیں اور اپنے آپ سے پوچھتی ہیں کہ مذہبی لوگ منافقت کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟ کنول اپنے خطوط میں ذاتی مسائل کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل پر بھی اظہارِ خیال کرتی ہیں جسے میں خوش آمدید کہتا ہوں۔

اٹھائیسویں خط میں کنول اعتراف کرتی ہیں کہ وہ بچپن سے دو دنیاؤں میں زندگی گزار رہی ہیں۔ ایک حقیقی دنیا اور ایک خیالی دنیا۔۔۔تصورات کی دنیا۔۔۔ڈے ڈریمنگ کی دنیا۔۔۔جس میں وہ اپنی حقیقی دنیا کی محرومیوں۔۔۔کمزوریوں۔۔۔ناکامیوں۔۔۔کا ازالہ کرتی ہیں۔
اس خیالی دنیا میں جانے اور رہنے کے لیے انہیں تنہائی چاہیے اور دوسری کی موجودگی اس تنہائی اور یکسوئی میں حائل رہتی ہے۔

تیسویں خط سے ایک سو پچاسویں خط تک کنول دھیرے دھیرے ایک صحتمند سوچ اور طرزِ زندگی کی طرف بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ ان کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ خیالوں کی دنیا سے حقیقی دنیا کی طرف سفر کرتی ہیں۔
پھر ایک دن وہ ‘ ہم سب’ میگزین میں میرا ۔۔۔لمس کی نفسیات۔۔۔ مضمون پڑھتی ہیں اور بے ساختہ مجھے بتاتی ہیں کہ بچپن مین وہ sexual abuse کا شکار رہی ہیں۔جن لوگوں نے ان کا جنسی استحصال کیا تھا ان میں ان کے اپنے خاندان کے بزرگ بھی شامل تھے۔

اس یاد کے بعد ان کے دل میں ماں کے خلاف نفرت کے جذبات میں شدت پیدا ہوتی ہے کیونکہ ماں نے   کنول کو اس اذیت سے نہیں بچایا۔
کنول کے ماضی کے ان تلخ اور تکلیف دہ واقعات کو جاننے کے بعد مجھ پر بطور ماہرِ نفسیات منکشف ہوا کہ وہ کیوں مردوں اور جنس سے متنفر ہو گئی تھیں اور شادی کے بعد بھی وہ اپنے شوہر کے ساتھ رومانوی تعلقات سے محظوظ نہ ہوتی تھیں۔ وہ شوہر سے بھی جنسی تعلقات فرض سمجھ کر قائم کرتی تھیں خوشی سے نہیں۔
کنول کی نفسیات کی یہ گتھی ایک سال کی دوستی کے بعد کھلی۔۔۔شاید اس وقت تک وہ مجھ پر کلی طور پر اعتماد کر سکتی تھیں۔
کنول نے ایک سال میں نفسیاتی اور فنی سفر کی کئی منازل طے کی ہیں۔ میں یہاں ایک ماہرِ نفسیات دوست ہونے کے ناطے تین منازل کا ذکر کرنا چاہتا ہوں ۔

پہلی منزل یہ کہ ان کا اپنے بچوں کے ساتھ تعلق بہت بہتر ہوا ہے۔اب وہ مل کر موسیقی سنتے ہیں اور ہنستے کھیلتے مسکراتے ہیں۔ خوش ہوتے ہیں۔ لکھتی ہیں ‘ صنم۔۔۔بینڈ۔۔۔ہم تینوں۔۔۔۔سویرا۔۔۔یوسف۔۔۔اور میرا فیورٹ بینڈ ہے۔۔۔رات کو سونے سے پہلے سنتے ہیں۔۔۔بچوں کو بہت کم عمری سے اس سب میں انوولو کرنا چاہیے۔۔۔فن و ادب۔۔۔گانا بجانا۔۔۔۔ڈانس۔۔۔کہانیاں کھیل۔۔۔جتنے کرییٹیو کام ہیں۔۔۔بچوں کے مزاج پر بہت فرق پڑتا ہے۔۔۔۔یوسف بہت ایگریسیو مزاج کا تھا۔۔۔بہت انٹرسٹ نہیں لیتا تھا۔۔۔فسادی سا ڈیمانڈنگ سا بچہ تھا۔۔۔جب سے ہم نے مل کر میوزک سننا۔۔۔ڈسکس کرنا۔۔۔موویز ڈرامے۔۔۔کھیل کود۔۔۔شروع کی۔۔۔وہ بہت بدل گیا ہے۔۔۔بہت فرینڈلی۔۔۔برداشت بھی بڑھ گئی ہے۔۔۔۔
یہ وقت بہت قیمتی ہے۔۔۔اپنی نمو کرنی ہے۔۔۔اور اپنے بچوں کی۔۔۔ان کو ایک خوبصورت منزل کا مسافر بنانا ہے۔۔۔ان کے دل جسم روح کو رنگوں سے سجانا ہے۔۔۔۔بھرپور بنانا ہے۔۔۔اور خود کو بھی۔۔۔کھل کر مہکنا ہے۔۔۔’

دوسری منزل یہ کہ میرے ساتھ دوستی میں ایک میچورٹی آئی۔وہ ایک ۹ سال کی بچی کی دوستی کی بجائے ایک ۳۴ سالہ عورت بنیں اور ایک عاقل و بالغ انسان کی طرح مجھ سے دوستی کی۔
انہوں نے نظریاتی اختلافات کے باوجود دوستی قائم رکھی۔ وہ اسے ایک دہریے اور صوفی کی دوستی کہتی ہیں۔ایک خط میں لکھتی ہیں ‘ میں یہ سوچ کر ہنستی ہوں کہ۔۔۔میں نے اخلاق۔۔۔ایک ایسے شخص سے سیکھی جو لامذہب ہے’۔
وہ ہمارے رشتے کے بارے میں رقم طراز ہیں ‘ آپ کی باتیں اچھی لگتی ہیں۔ میں آپ کی محبت (ایز اے فرینڈ) دوستی اور توجہ کی مقروض رہوں گی۔ آپ بالکل ٹھیک وقت پر ۔۔۔میری زندگی میں آئے۔۔۔۔اور میری رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی۔جب کبھی زندگی کا حساب کرنے بیٹھی تو۔۔۔یہ کہہ سکوں گی کہ ایک بہت اچھا انسان دوست۔۔۔۔زندگی نے میری جھولی میں ڈالا’

تیسری منزل یہ کہ ان کا اپنی ذات سے رشتہ بہتر ہوا۔وہ ایک خیالی دنیا سے نکل کر ایک حقیقی دنیا میں زندہ رہنے لگیں۔لکھتی ہیں
‘ مجھے لگتا ہے میں طویل بے ہوشی کے بعد ہوش میں آ رہی ہوں۔ وہ خیالی دنیا۔۔۔جو تیس سال سے گھڑی ہوئی تھی وہ۔۔۔چھو منتر ہو رہی ہے’
مجھے اس بات کی بہت خوشی’ مسرت اور خوشگوار حیرت ہوئی کہ کنول نے ایک سال میں انسانی شعور کے ارتقا کا وہ سفر طے کیا جو کئی لوگ کئی دہائیوں میں طے نہیں کر پاتے۔میں ان کا مشکور و ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھے سات سمندر پار ہونے اور کبھی بالمشافہ نہ ملنے کے باوجود اپنا دوست اور تخلیقی ہمسفر ہونے کا شرف بخشا۔

اب میں آپ سے وہ ادبی محبت نامہ شیر کرنا چاہتا ہوں جس نے مجھے یہ طویل مضمون لکھنے کے لیے انسپائر کیا۔ ایک سال اور ۱۵۰ خطوط کے بعد یکم مئی ۲۰۱۹ کو لکھتی ہیں
‘پیارے دوست !
سر جی۔۔۔آپ سے دوستی۔۔۔محبت۔۔اعتماد اور اعتبار۔۔۔۔سے بھری ہے۔۔۔۔ہر رشتے کی طرح۔۔۔ہماری دوستی بھی ارتقائی منازل طے کرتی یہاں تک پہنچی ہے۔یہ شروع سے ایسی نہیں ہے۔گزشتہ مارچ۔۔۔۔جب آپ کو میرا میسج ملا ہو گا تو آپ کے لیے شاید یہ معمول کی بات ہو گی۔آپ سوشل میڈیا پر تیزی سے مقبول ہوتی شخصیت،لوگوں کا آپ کی طرف بڑھتا التفات ۔۔۔مختلف وجوہ رکھتا۔آپ بیک وقت ماہرِ نفسیات،علمی ادبی شخصیت۔۔۔دانائی کی تلاش،آپ کی پہچان بن چکی تھی،جب میں آپ سے متعارف ہوئی یہ ٹھیک وہ دن تھے جب میں اپنی زندگی کے اعصاب شکن دنوں کا سامنا کر رہی تھی۔شعوری بیداری زندگی کے ایک نئے فیز میں داخل ہونے ،تیزی سے ہوتی تبدیلی نے میری ذات کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا تھا۔وحشت اور اضطراب  نے نیم دیوانہ بنایا ہوا تھا ،نہ  راستہ تھا نہ    منزل۔۔۔ایسے میں ایک دن آپ کا مضمون۔۔۔ہم سب۔۔۔پر نظر سے گزرا۔۔مجھے شک تھا کہ شاید میں نفسیاتی الجھنوں میں گھر رہی ہوں ایسے میں آپ سب سے بہتر شخص لگے رہنمائی کے لیے۔۔۔

آپ سے دوستی کے بعد بہت جلد مجھے اندازہ ہوا آپ ایک انسان دوست۔۔۔محبت رکھنے والے شفیق انسان ہیں۔۔۔اسی کا اثر تھا کہ میں جو اندروں بیں(انٹرورٹ)تھی۔۔۔دوستی کرنا۔۔۔گھلنا ملنا یا اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کرنا پسند نہیں کرتی تھی۔۔۔دھیرے دھیرے بدلتی چلی گئی ۔۔۔آغاز میں جب آپ نے اپنی کتاب”کریٹیو مائی نارٹی بھیجی”۔۔تو اپنے اضطراب کو لے کر۔۔۔میری سوچ کا رخ تبدیل ہوا۔۔۔جب دوست۔۔۔نفسیات کا ماہر بھی ہو اور داناوحکیم بھی۔۔۔تو وہ کیسے منتشر خیالی پریشان حالی کو مثبت تواناٸی میں بدل دیتا ہے۔۔۔اس کا اندازہ گزرتے وقت کے ساتھ ہو رہا ہے۔۔۔ایک اچھے استاد کی طرح۔۔۔میری ذات کی تعمیرِ نو میں۔۔۔مجھے پہلی صف پر کھڑا رکھا۔۔۔میری تحلیل ِ نفسی۔۔۔مجھی سے کرائی۔۔۔مجھے میری ذات کی پرتیں کھوجنے،جانچنے پرکھنے میں رہنمائی کی۔سب سے اچھا پہلو یہ تھا کہ آپ نے آگے بڑھ کر  مجھے اپنے اختیار میں کرنے یا سہارا دینے کی بجائے  مجھے میرے قدموں پر کھڑا ہونا،اپنی جنگ خود لڑنا سیکھایا۔۔۔میں نے یہ جانا کہ تبدیلی لمبے واعظوں سے یا ڈر خوف لالچ ، تقریروں سے نہیں آتی۔۔۔بلکہ نپے تلے الفاظ اور اخلاقی کردار سے آتی ہے۔آپ کی تحریریں اور آپ کا ذاتی حیثیت میں دوست کا کردار بالکل ایک جیسا تھا۔۔۔تحمل مزاجی،بردباری،وسعت قلبی۔۔۔اس کا اندازہ مجھے تب ہوا۔۔۔جب میرا اعتماد بحال ہونے کے بعد۔۔۔سوشل میڈیا پر ہی۔۔۔مختلف طرح کے لوگوں سے سامنا ہوا۔۔۔

مجھے مختلف قسم کے احساسات کا سامنا ہوا۔۔۔۔کسی نے صنفی لحاظ سے تو۔۔۔کہیں پر۔۔۔میری ٹھیک بات کو کم عمری اور کم علمی کا کہہ کر جھٹلایا گیا۔۔۔بے جا انا،ردِعمل کی نفسیات۔۔۔ایسا نہیں ہے کہ میں ہمیشہ ٹھیک ہوں،کم عمری اور کم علمی،زندگی کا تجربہ نہ ہونے کے برابر۔۔۔یہاں پر بات قابلیت کی نہیں،بلکہ اخلاقی قدر کی ہو رہی۔آپ نے میری لایعنی باتوں،بہت بار تو بس آپ کو اشتعال دلانے کے لیے باتیں کہہ جاتی۔۔۔مگر آپ نے ہمارے بیچ کبھی لائن نہیں کھینچی۔۔۔مجھے احساس نہیں ہونے دیا کہ۔۔۔ہمارے بیچ کتنا فرق ہے۔۔۔برابری کی سطح پر دوستی رکھی۔۔نہ صرف دوستی بلکہ کسی استاد کی طرح۔۔۔میری ذات کی خوبیوں کو اجاگر کرنے اور نکھارنے میں مسلسل میری حوصلہ افزائی۔رہنمائی کی۔۔۔دو بالکل مختلف لوگ دوستی کے بندھن میں بندھ سکتے ہیں۔۔محبت اور احترام کے ساتھ۔۔اس کے باوجود کے ہم دو مختلف عقیدوں کے حامل انسان ہیں۔۔۔مگر،ہمارا مذہب ۔۔۔ایک ہی ہے،انسانیت سے محبت،اور یہ وجہ کافی ہے ۔۔۔ایک دوسرےپر بھروسہ کرنے اور محبت رکھنے کو۔۔۔۔ میں جب کبھی۔۔۔حٕساب ِزندگی کروں گی۔۔۔کیا کھویا کیا پایا۔۔۔میں اس پر ناز کروں گی کہ زندگی نے آپ جیسے دوست سے نوازا۔۔۔۔جس نے زندگی کے خوشگوار۔۔۔مثبت پہلو۔۔۔اور عمدہ اخلاق سے روشناس کروایا۔۔۔میری دعائیں اور محبت۔۔۔آپ کے ساتھ رہیں گی۔۔۔ کنول

ماضی کی ایک یاد
میں جب کنول کے بے ترتیب خطوط کو ترتیب دے رہا تھا۔۔۔منتشر خیالات کو جمع کر رکھا تھا۔۔۔ان خطوط کو علیحدہ علیحدہ کر رہا تھا۔۔۔ان خطوط کے نفسیاتی اور ادبی پہلوؤں پر غور کر رہا تھا تو مجھے اپنی دوست لوئیس کا آخری خط یاد آ رہا تھا جو انہوں نے مشرقِ وسطیٰ سے شمالی امریکہ آ کر اور ایک سال کی تھیریی کے بعد اپنے نیویارک کے تھیرپسٹ کو لکھا تھا اور میں نے اپنی نفسیات کی ایک کتاب کے لیے اس کا اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ میں وہ خط آپ سے شیر کرنا چاہتا ہوں تا کہ آپ کو اس خصوصی تعلق کا اندازہ ہو جو میں کنول کی شخصیت اور ان کی جدوجہد کے حوالے سے محسوس کرتا ہوں۔امید ہے وہ خط آپ کو بھی پسند آئے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

لوئیس کا آخری خط
ایک بہت چھوٹی اور پرانی کتاب تھی جو کہ لائبریری کے ایک کونے کے شیلف میں رکھی رہتی تھی۔اس کے بہت سے صفحے آپس میں چپکے ہوئے تھے اور کچھ پھٹے ہوئے بھی تھے۔سرِ ورق پر کافی داغ دھبے تھے جس کی وجہ سے اس کے مصنف کا نام بھی نہیں پڑھا جا سکتا تھا۔ کسی کو نہیں پتہ تھا کہ اس میں کیا لکھا ہے۔کچھ لوگوں کی اس پر نظر بھی پڑی مگر انہوں نے اس کو نہیں اٹھایا۔ کچھ نے اٹھایا بھی مگر جلد ہی اس کی جگہ پر واپس رکھ دیا۔ کچھ لوگوں کو مصنف کے نام جاننے کی جستجو بھی ہوئی مگر چند بے کار کوششوں کے بعد ہمت ہار گئے۔
ایک دن تم اس لائبریری میں آئے۔ تمہاری اس کتاب پر نظر پڑی۔تم نے اسے الٹ پلٹ کر اس کی اصلیت جاننے اور اور اس کے مصنف کا نام دریافت کرنے کی کوشش کی۔تم نے فیصلہ کیا کہ تم پتہ کرو گے کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ تمہارے پاس جتنے اوزار تھے وہ تم لے آئے۔بلکہ وہ بھی جن کی تمہیں ضرورت پڑ سکتی تھی۔ پانی۔۔۔بہت سا پانی۔۔۔کیل۔۔۔سوئی۔۔۔دھاگہ۔۔۔برش۔۔۔تم نے ہر صفحے کو شہکار کی طرح جانا۔ تم نے ساری گوند دھو ڈالی۔ پھر اس کے خشک ہونے کا انتظار کیا۔ تم نے مٹے الفاظ کو پھر سے لکھا۔ اور پھر جب ہر ہر صفحہ تیار ہو گیا تو تم نے ان کو اصل ترتیب سے جمایا۔ اور پھر تم نے ان کی سلائی کی۔
یہ سب کرنے کے ساتھ ساتھ تم اس کہانی میں بھی منہمک رہے۔ اک اک لفظ کو توجہ دی کیونکہ تمہارے لیے ہر ہر لفظ اہم تھا۔تمہیں اس کے عظیم حقائق کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے پہلوؤں نے بھی متوجہ رکھا۔ تم نے پوری کہانی جان لی۔تم اس کے بہت قدردان ہو کیونکہ تم اس کی حیثیت ’اہمیت اور افادیت سے واقف ہو۔اب کتاب مکمل ہو چکی ہے۔کہانی بالکل واضح ہے۔ابتدا سے انتہا تک۔۔پہلے جملے سے آخری جملے تک۔۔۔اور اب یہ کتاب اوروں کے پڑھنے کے لیے تیار ہے۔۔۔۔لوئیس۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پوری عورت کی ادھوری کہانی۔۔۔ڈاکٹر خالد سہیل

Leave a Reply to Jawaid Danish Cancel reply