• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • فوج اور سول تعلقات میں تازہ تناؤ۔۔۔۔۔ ظفر ندیم داود

فوج اور سول تعلقات میں تازہ تناؤ۔۔۔۔۔ ظفر ندیم داود

کہا جارہا ہے کہ فوج اور سول حکومت میں سب ٹھیک نہیں ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ایک نئے آرمی چیف کا اعلان متوقع ہے پاکستان میں کوئی بھی سول حکومت ہو، وہ اپنے اعصاب پر سخت دبائو محسوس کرتی ہے۔ آرمی چیف پاکستان کی سب سے مضبوط پوزیشن سمجھتی جاتی ہے اس لئے نئے آرمی چیف کی تقرری کے وقت مختلف لابیاں اور پریشر گروپ نامحسوس طریقے سے حرکت میں آجاتے ہیں۔

سیرل المیڈا کا معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا سمجھا جارہا ہے نواز شریف اپنے دور حکومت میں دوسرے آرمی چیف کی تعیناتی کررہے ہیں جو کہ پاکستان میں ایک غیر معمولی عمل ہے یہاں گذشتہ بیس سالوں میں تین آرمی چیف کی تقرری ہو سکی ہے اور ان میں سے دو کی تقرری میاں نواز شریف نے ہی کی تھی۔ مگر اس سے پہلے سول حکومت اپنی گرفت کو مضبوط کرنے کے چکر میں ہے۔

پوری دنیا میں فوج سول حکومت کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں پر اثرانداز ہوتی ہے مسئلہ ان کو مطمن رکھنے اور شریک کرنے کا ہوتا ہے۔ مگر جہاں سول حکومت کی طاقت اس کی سیاسی پارٹی سے زیادہ اس کا خاندان اور چند مخصوص لوگ ہوں وہاں یہ پریشر بڑھ جاتے ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب ملک مختلف طرح کے داخلی اور خارجی چیلنجز کا سامنا کررہا ہے وہاں ایک صحافی کو ایک انتہائی اعلی سطحی مِٹینگ کے خاص نکات ایک خاص زاویہ نظر کے ساتھ جاری کردیئے جائیں اور ان کی اشاعت کے بعد سوشل میڈیا میں موجود ایک خاص لابی شور و غوغا شروع کردے۔ اس معاملے کو جب حساس حلقے کی طرف سے اٹھایا گیا تو ایک خاص صحافی اور ایک خاص اخبار کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ معاملے کو سلجھانے کی بجائے مزید الجھانے اور نمایاں کرنے کی کارروائی لگتی ہے یہ خبر یوں شائع کی گئی جیسے حکومتی حلقوں سے اس ٹاپ سیکرٹ میٹنگ کے منٹس اسے فراہم کیے گئے، سیرل المائیڈہ نے ان منٹس کو یوں‌ ہی روانی میں شائع کر دیا۔ لوگوں کے نام تک انتہائی قطعیت سے بیان کر دیے گئے۔

نظر آتا ہے کہ اس خبر کی اشاعت کے لئے سیرل المیڈا کو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ یہ اس طرح کی خبر تھی، جس کی تردید آنا لازم تھا، یہ بھی یقینی تھا کہ جن لوگوں سے بقول اس کے اس نے بات کی، ان میں سے بعد میں کوئی بھی اسے کنفرم نہیں‌کرے گا، ایسے میں احتیاط کرنا چاہیے تھی، جو نہیں کی گئی۔

جہاں‌تک اس خبر کا تعلق ہے جس میں سول ملٹری کے مابین اختلافات کی نوید سنائی گئی اور یہ بتلایا گیا کہ فوج اور ایجنسیوں کی وجہ سے سویلین حکومت کو عالمی سطح پر تنہائی کا سامنا ہے۔ اس خبر کے بارے میں دو باتیں ہوسکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ خبر غلط ہے، دوسری یہ کہ خبر درست ہے اور اس انتہائی اہم ملاقات کی تفصیلات کسی نے رپورٹر تک لیک کی ہیں۔ اگر یہ خبر درست ہے تو یہ نہایت پریشان کن بات ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہماری حکومت اتنی غیر ذمہ دار ہے کہ اداروں کو نقصان پہنچانے کے لیے وہ انتہائی خفیہ معلومات بھی لیک کر دیتی ہے۔ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے ۔

اگر یہ خبر درست نہیں ۔ ایک انتہائی اہم کلاسیفائیڈ میٹنگ کی تفصیل ایسے من گھڑت انداز میں بنا کر، فرض کر کے لکھنا، چھاپنا انتہائی سنگین جرم ہے۔

اگر یہ خبر درست ہے اور حکومت نے خود لیک کرائی تاکہ قومی اداروں کو دبائو میں‌ لیا جا سکے تب یہ معاملہ بہت زیادہ سنگین ہو جاتا ہے۔

اس خبر کو اس انداز سے شائع کرنے کا مقصد ملک کے اہم معاملات میں سول حکومت کی بےبسی کو ظاہر کرنا کہ حساس ادارے اس کے ان اقدامات کو ناکام بناتے ہیں جو وہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کرتے ہیں۔ حالانکہ پنجاب میں سول حکومت نے ہی فوج کو ایک موثر آپریشن سے روکا ہوا ہے۔ سول حکومت پر الزام عائد ہوتا رہا ہے کہ وہ مختلف معاملات میں ان کالعدم تنظیموں سے مدد لیتے رہے ہیں پنجاب حکومت کی اہم شخصیتوں کے بعض مخصوص افراد سے مبینہ طور پر گہرے روابط رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ بھی درست ہے کہ فارن پالیسی بنانے کا حق پارلیمان کا ہے لیکن ایک موثر خارجہ پالیسی نہ بنانے کی ذمہ داری صرف کسی ایک ادارے پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ایک کل وقتی خارجہ وزیر کا تقرر نہ کرنا بہرحال حکومت کی کوتاہی ہی تصور ہوگا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply