کیا عمران خان کی معافی مسائل کا حل ہے/ارشد بٹ

بظاہر ۹۔ مئی ۲۰۲۳ کے پر تشدد مظاہرے اور عسکری مقامات و تنصیبات کا گھیراو اور توڑ پھوڑ عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن کا سبب بنے ہیں۔ ریاستی کریک ڈاؤن کی وجہ سے ملک میں بالخصوص پنجاب میں پی ٹی آئی کے لئے سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے راہنماؤں اور بیسیوں کارکنوں کو ۹۔ مئی مقدمات میں قید کی سزائیں ہو چکی ہیں۔ جبکہ جیلوں میں قید متعد کارکن عدالتی فیصلوں کے منتظر ہیں۔ عسکری ذرائع نے ۹۔ مئی کے پر تشدد ہنگاموں پر پی ٹی آئی قیادت سے معافی مانگنے کا عندیہ دیا تھا۔ عسکری قیادت کا یہ موقف آج تک نہیں بدلا۔ مقتدرہ کے اس مطالبے کی شہباز حکومت بھر پور حمائت کرتی ہے۔

عمران خان ملک کے مقبول سیاسی راہنما ہیں اور سابق وزیر اعظم رہے ہیں۔ وزارت عظمیٰ سے محرومی کے بعد عمران خان کی جارحانہ سیاسی حکمت عملی اور کجرویوں کے باوجود وہ عوام میں اپنی مقبولیت برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں۔ انکی جماعت پی ٹی آئی پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اور وفاقی پارلیمنٹ میں ایک بڑی اکثریت رکھتی ہے۔ صوبہ خیبر پختون خوا  میں اس جماعت کی حکومت ہے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کو ریاستی کریک ڈاؤن، قانونی یا غیر قانونی حربوں سے سیاسی عمل سے باہر رکھنا جمہوری اقدار کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ جابرانہ ریاستی ہتھکنڈوں سے سیاسی عدم استحکام، آئینی حکمرانی کی پسپائی اور جمہوری آزادیوں پر قدغنیں ملک کا مقدر ٹھہریں گی۔۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی گھٹن سے اٹھتا ہوا غبار ملک کی معاشی ترقی اور خوشحالی کو نگل جاتا ہے۔

یاد رہے عمران خان نے مئی ہنگاموں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے عدالتی تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ سیاسی مذاکرات سے عدالتی یا پارلیمانی تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کے امکانات پیدا ہو سکتے تھے۔ جس سے سیاسی مفاہمت کا راستہ نکالا جا سکتا تھا۔ مگر عمران خان کے آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کے خلاف جارحانہ بیانات نے حالات کا رخ بدل دیا۔ رہی سہی کسر بیرون ملک پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کارکنوں نے پوری کر دی۔ دلچسپ بات ہے کہ آرمی چیف کے خلاف کھلی محاذ آرائی کے باوجود عمران خان صرف عسکری قیادت سےمذاکرات کرنے کا مطالبہ دہراتے رہتے ہیں۔ مگر عسکری ذرائع کھلے عام بار بار اعلان کر چکے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ مذاکرات نہیں کرنا چاہتے۔

عمران خان آج تک شہباز حکومت اور حکومتی سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرنے سے اجتناب کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ دوسری طرف مقتدرہ عمران خان سے معافی کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو بظاہر تیار نظر نہیں آتی۔ عمران خان کی سیاسی مذاکرات نہ کرنے کی ہٹ دھرمی اور مقتدرہ کے عمران خان سے معافی کے تقاضے کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام اور تناو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ وفاقی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں اپنی افادیت اور قدرکھوتی جا رہی ہیں۔ پارلیمان میں اپوزیشن اپنا جمہوری کردار ادا کرنے سے گریزاں ہے۔ افسوس ناک حقیقت ہے کہ جمہوری ادارے عوام کی نظروں میں بے توقیر ہو ر ہے ہیں۔ جمہوری سیاست کے لئے سپیس دن بدن کم اور ہائی برڈ نظام پر مقتدرہ کی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔

کیا ملک اور عوام کو درپیش مسائل کا حل عمران خان کے معافی مانگنے میں پوشیدہ ہے۔ اگر معافی مانگنے سے ملک میں جمہوریت، ترقی اور خوشحالی کے طبل بجنے لگیں گے تو ہر باشعور پاکستانی کو عمران خان سے درمندانہ اپیل کرنی چاہیے کہ وہ قوم کے وسیع تر مفاد میں متعلقہ افراد یا ادارے سے غیر مشروط معافی مانگ لیں۔ مگر معافی کے طلبگاروں کے سامنے معافی منگوانے کا مقصد بڑا واضع ہے۔ وہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ معافی سے نہ جمہوری عمل آگے بڑھے گا اور نہ ہی عدم برداشت اور نفرت کی سیاست کا خاتمہ ممکن ہے۔ جیل میں قید سیاستدانوں کی معافیوں سے نہ ہی سیاسی رواداری پروان چڑھتی ہے اور نہ ہی جمہوری اقدار کی آبیاری ہوتی ہے۔ معافی کے ذریعے مفاہمت کا کھیل کھیلنا ناپختہ غیر جمہوری ذہنوں کا تخیل کہا جا سکتا ہے۔ عمران خان جانتے ہیں کہ جیل سے معافی نامہ سیا ستدان کی مقبولیت کے خاتمے اور سیاسی زندگی کے زوال کا پروانہ ہوتا ہے۔ حکمرانی کے نشہ میں سرشار سیاستدان اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہیں کہ عمران خان کی عوامی مقبولیت کو ریاستی طاقت سے ختم کرنے سے ہائی برڈ نظام پر غیر جمہوری قوتوں کی گرفت بتدریج مضبوط ہو رہی ہے۔

julia rana solicitors

تیزی سے تبدیل ہوتے عالمی منظر نامے اور ملک کے اندرونی حالات کے پیش نظر حکمران اتحاد، مقتدرہ اور پی ٹی آئی یعنی  عمران خان کو اپنے سخت گیر موقف میں لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ فریقین کو ایک قدم پیچھے ہٹ کر ماضی کی غلطیوں ، کوتاہیوں اور حال کی تلخیوں سے درگزر کر تے ہوئے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا ہو گا۔ ملک اور عوام کے وسیع تر مفاد میں حکمران قوتوں اور اپوزیشن کو ہٹ دھرمی، انانیت پرستی، مفاد پرستی اور طاقت کے گھمنڈ سے باہر نکل کر آئینی جمہوری عمل کے ذریعے سیاسی مذاکرات اور سیاسی مفاہمت کی جانب قدم بڑھانے چاہیں۔ سیاستدانوں سے معافی طلب کرنے اور سیاسی قوتوں کے باہمی مذاکرات کا انکار کرنے سے نہ آئین و قانون کی حکمرانی کے در کھلتے ہیں، نہ سویلین بالادستی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہے اور نہ ہی جمہوری اقدار پروان چڑھتی ہیں ۔انسانی حقوق کی پاسداری، آزاد عدلیہ اور اظہار رائے کی آزادی بھی آئینی جمہوری نظام کے بطن سے جنم لیتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply