• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • عوام پریشان،احتجاج ناکام اور سیاستدان خوشحال۔۔ڈاکٹر ابرار ماجد

عوام پریشان،احتجاج ناکام اور سیاستدان خوشحال۔۔ڈاکٹر ابرار ماجد

پاکستان کی سیاست میں احتجاج، دھرنے اور انقلاب کے نعرے معمول کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں۔ ہر آئے روز کسی نہ کسی سیاسی جماعت نے احتجاج کی کال دی ہوئی ہوتی ہے۔ مگر مشاہدے میں یہ آرہا ہے کہ کال دینے والی سیاسی جماعت کے کارکنوں کے علاوہ عوام میں سے کوئی بھی توجہ نہیں دیتا۔

اس کی دو وجوہات ہیں ایک تو عوام کا سیاسی جماعتوں کے قائدین سے اعتماد اٹھ چکا ہے اور دوسرا ان کے اندر اس ملک اور اس کی املاک کی ملکیت اور اہمیت کا احساس ابھی تک نہیں جاگا۔ اس لئے وہ سیاست کو اتنا سنجیدہ نہیں لیتے۔

آج کل مہنگائی، بیروزگاری اور غربت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں مگرعوام سخت پریشان ہونے کے باوجود کسی بھی سیاسی جماعت کی آواز پر باہر نہیں نکل رہے۔ حالانکہ یہ وہ محرکات ہیں جو قوموں کی تاریخ میں انقلاب کا سبب بنتے ہیں۔ جب عوام دیکھیں کہ ملک معاشی حالات خراب ہوتے جارہے ہیں اور حکمران اس کو سنبھالنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں تو کسی کا انتظار نہیں کرتے، پوری طاقت سے نکلتے ہیں اور اس سمندر کے سامنے کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی کھڑی نہیں ہوسکتی۔

اسی مہنگائی کا نعرہ لے کر اپوزیشن جماعتیں بھی پچھلے کئی سالوں سے نکلنے کی کوشش کرتی رہی ہیں مگر ان کوبھی مایوسی ہوئی۔ اب عمران خان نے بھی یکے بعد دیگرے کئی کالیں دی ہیں مگر توقعات کے مطابق عوام نہیں نکلے۔ جماعت اسلامی تو اکثر اس طرح کے علامتی احتجاج کرتی ہی رہتی ہے اور ابھی انہوں نے بھی ٹرین مارچ کا اعلان کیا ہوا ہے۔ سب عوام کی نبض کو ٹٹولتے رہتے ہیں لیکن ابھی عوام مست ہے جس سے سیاستدانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ عوام جتنا مہنگائی سے پریشان ہیں اتنے ہی ان کے رویوں سے بیزار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ احتجاج کا عمل بھی پشیمان ہوکر رہ گیا ہے۔

پچھلے الیکشن میں کرپشن کے خلاف عمران خان کا نعرہ کام کرگیا اور عوام نے تحریک انصاف کو ایک موقع دیا تھا۔ مگر اب سارے برابر صفوں میں کھڑے ہیں بلکہ تحریک انصاف امامت کرتے دکھائی دیتی ہے۔ سیاست کاروبار بن چکا ہے اور ہے کوئی سیاستدان ایسا جس کے اثاثوں میں کمی آئی ہو بلکہ عدالت عظمیٰ سے صادق و امین پانے والوں کے اثاثوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے کیونکہ پاکستان کا سیاسی ماحول ان کی یہ تربیت کر رہا ہے کہ سیاست نیک اور مالی طور پر کمزور لوگوں کے بس کا کام نہیں۔ لہذا وہ اپنی سیاست کو قائم رکھنے کے لئے جب بھی وقت ملتا ہے خوب ہاتھ پاؤں مار لیتے ہیں۔

قریب تاریخ میں کامیاب احتجاج کی مثال عدلیہ کی بحالی کی ہے جس میں وکلاء اور سول سوسائٹی کا بہت بڑا کردار تھا اور اس کے لئے جب نواز شریف نکلا تھا تو عوام کا ایک سمندر امنڈ آیا تھا ور اس کے گوجرنوالہ پہنچنے سے پہلے ہی حکومت سمجھ گئی تھی کہ اس سیلاب کو سنبھالنا ان کے بس کی بات نہیں یوں انہوں نے فوراً مطالبات مان لئے تھے۔

اب اس موجودہ شوروغل میں نہ تو وکلاء نے اور نہ ہی سول سوسائٹی کے قائدین نے کوئی توجہ دی ہے۔ بلکہ ان کی طرف سے تحریک انصاف پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ اس ساری صورتحال کے وہ ذمہ دار ہیں اور ان کی جماعت اور کارکنوں کی طرف سے غیر آئینی اقدامات نے بھی ان کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔ دو دن قبل وکلاء کے کنونشن سے خطاب کے دوران وکلاء کی طرف سے بہت مشکل سوالات اٹھائے گئے تھے جن کا وہ خاطر خواہ جواب نہ دے پائے تھے۔

محض سوشل میڈیا کے ٹرینڈز کو دیکھ کر امیدیں وابسطہ نہ کرلیں بلکہ حالیہ بلدیاتی الیکشنز اور قومی و صوبائی ضمنی الیکشنز کے نتائج کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں۔

عوام کے توجہ نہ دینے یا نکلنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کبھی بھی سیاستدانوں نے ملک میں اس طرح کی روایات کو پنپنے نہیں دیا اور ایک طرف وہ خود احتجاج کے لئے نکلے ہوئے ہوتے ہیں تو دوسری طرف ان کی اپنی ناکامیوں اور نااہلیوں کے خلاف بھی احتجاج کا سلسہ جاری ہوتا ہے۔ جب وہ خود کسی کے مطالبات کو اہمیت نہیں دے رہے ہوتے تو پھر ان کے مطالبات کو کوئی کیسے اہمیت دے۔

کل عمران خان پہاڑی پر پورے ملک میں احتجاج کی کال دے کر خطاب کر رہے تھے اور ٹھیک اسی وقت کے پی کے سے اساتذہ اپنے نوکریوں کی مستقلی کے لئے ان کے گیٹ کے سامنے بارش میں بھیگ کر احتجاج کر رہے تھے۔ جو ابھی تک دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح پچھلے سال جب ان کی حکومت تھی تو پورے ملک سے آئے ہوئے سرکاری ملازمین پر آنسو گیس، لاٹھی چارج اور گولیاں چلائی گئیں، کئی خواتیں اور مرد زخمی بھی ہوئے تھے۔ اسی تضاد نے دھرنوں کے عمل کو ناکام بنا دیا ہوا ہے۔

تو ایسے حالات میں جب کوئی خود ایسے احتجاجوں کو اہمیت نہیں دیتا تو پھر ان کے احتجاج کی کال پر کون توجہ دے گا۔

اگر بہتری کی کوئی توقع کی جاسکتی ہے تو وہ آئینی حدود کے اندر رہ کر کوشش سے ہی ممکن ہے۔ جس طرح تمام اپوزیشن جماعتوں نے احتجاج کے شوق پورے کرکے آخر عدم اعتماد کے زریعے ہی پارلیمان کے اندر تبدیلی کی کوشش کرکے حکومت کو گھر بیھجا ہے۔ اگر سیاستدان آج بھی مخلص ہوں تو سب ملک کر الیکشن کے بغیر بھی کوئی حل ڈھونڈھ سکتے ہیں مگر ان کو عوام کی فکر نہیں بلکہ اپنے اقتدار کی ہے۔

جب حکمران اقتدار میں رہ کہ ان کے مسائل کی طرف توجہ نہیں دیتے تو پھر عوام بھی ان کے احتجاجوں کو تفریح کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے اور وہ اب اس طرح کی تفریحات اور سرپرائزز کے عادی ہوچکے ہیں۔ اب وہ ہر روز پہلے سے بڑی تفریح اور سرپرائز کو دیکھنے کے شوق میں انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ لہذا اگر تو حکمران اسے تفریح سمجھ کر جاری رکھنا چاہتے ہیں تو ان کی مرضی اور اگر ان کا خیال ہے کہ اس سے وہ حکومت کو مجبور کرکے گھر بیجھنے میں کامیاب ہوجائیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام ہی سرچشمہ طاقت ہوتے ہیں مگر وہ عوام تماشبین نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ اتنی غیر سنجیدہ سوچ کے حامل ہوتے ہیں کہ غربت، مہنگائی اور بیروزگاری بھی ان کو حکومت کے خلاف نکالنے میں ناکام ہوجائے۔ یا پھر ممکن ہے وہ موجودہ حکومت کو بھی تھوڑا سا وقت دینا چاہتے ہوں۔

مسلم لیگ پر سابقہ ادوار کی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کی ان سے امیدیں وابسطہ تھیں جو اب مانند پڑتی جارہی ہیں۔ لوڈ شیڈنگ اور ڈالر کنٹرول میں نہیں آرہے۔ اور اگر بروقت بندوبست نہ کیا گیا تو گیس جو ابھی جون میں بھی قلت کا شکار ہے اس کا سردیوں میں کیا حال ہوگا۔ پہلے گیس اسٹیشن حد مارچ تک کھل جایا کرتے تھے اور اب جون بھی ختم ہونے کو جارہا ہے۔

انقلاب کے لئے ضروری ہے کہ قائدین خود عوام کی رہنمائی کے لئے ان کے آگے آگے ہوں اور ہر آنے والی سختی کو سہنے اور مقابلہ کرنے کے لئے خود پیش پیش ہوں۔ اگر عوام پیدل چل رہی ہو تو وہ بھی پیدل چل رہے ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب سیاستدانوں کو خواہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں اپنے اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے اپنا محاسبہ خود کرنا چاہیے اس سے پہلے کہ عوام کا خود ساختہ کوئی ریلہ ان تمام کو بھا کر لے جائے۔ اب اگر عوام نکلے تو پھر کسی کی کہنے پر نہیں بلکہ خود ہی نکلیں گے اور پھر کسی کی بھی خیر نہیں ہوگی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply