حسینیت کے دور میں حسین کی تلاش ۔۔۔۔ رانا تنویر عالمگیر

سیدنا امام حسین رض کے پاس جب اہل کوفہ کے خطوط پہنچے تو آپ کی ہمت اور غیرت دینی جوش میں آگئی. آپ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے علم جہاد بلند کرنا فرض سمجه لیا. اس پر عبداللہ ابن عباس رض، آپ کے اعزہ و اقارب اور کئی جلیل القدر صحابہ اور تابعین نے آپ کی خدمت میں گزارش کی کہ حضرت! آپ کوفہ نہ جائیں. کوفہ کے لوگ بیوفا ہیں، جفاکار ہیں. انهوں نے آپ کے والد محترم سے بیوفائی کی تهی اور انهیں شهادت کے انجام تک پہچایا تها اور پهر یہ لوگ وہ ہیں کہ اپنے ظالم امیر کو تخت سے ہٹا کر دعوت نہیں دے رہے، تاحال اس کی اطاعت کا قلادہ ان کے گلے میں ہے، پهر بهی آپ کو بلائے جارہے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ حسب سابق آپ سے بهی بیوفائی کرجائیں.

سیدنا حسین رض نے یہ سب سنا اور فرمایا کہ “اب مجه پر امربالمعروف و عن المنکر کی خاطر جہاد فرض ہوچکا ہے. یہ لوگ بیوفا یا وفادار ہوں، مجهے اس سے سروکار نہیں. میں قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں پیشی کے وقت اس سوال سے ڈرتا ہوں کہ تجهے دعوت حق ایسے وقت میں دی گئی جب ظلم و بربریت کا بازار گرم تها اور سنت نبوی کے خلاف سرکشی ہو رہی تهی. دین اسلام میں بدعات و خرافات کو رواج دیا جارہا تها. لوگوں کے حقوق سلب ہورہے تهے. آزادیاں چهینی جارہی تهیں. اسلامی شعار نشانہء تضحیک بن رہے تهے. اسلامی حکومت و قانون کا تصور مزاق بن کے رہ گیا تها. حسین! اس وقت تونے اس بغاوت کے خلاف جہاد کا علم بلند کیوں نہ کیا؟ پهر یہ بهی بتاو کہ اس وقت میں کیا جواب دوں گا جب کوفیوں نے قیامت کے روز بارگاہ الہی میں کہا کہ ہم نے تو بہت کوشش کی تهی مگر امام بیعت کے لیے راضی نہ ہوئے تهے لہذا ہمیں یزید کے ظلم و تشدد سے مجبور ہو کر بیعت کرنا پڑی تهی، اگر امام ہاته بڑهاتے تو ہم اپنی جانیں فدا کرنے کو تیار تهے”.

پهر اس کے بعد زمین نے دیکها….آسمان نے دیکها…. کائنات نے دیکها….. آدمی کے وجود پر اعتراض کرنے والے فرشتوں نے دیکها…. آدمی کو گمراہ رکهنے کا دعوی کرنے والے ابلیس نے دیکها…. کہ کس طرح حسین رض نے اپنے نانا کے وعدے کو وفا کرتے ہوئے زمینی خداوں کا غرور خاک میں ملا دیا…. آدمی کے وجود پر اعتراض کرنے والے فرشتوں نے بهی وہ سب دیکه لیا جو صرف خدا جانتا تها… گمراہ رکهنے کا دعویدار ابلیس بهی سر پیٹ کے رہ گیا…. حسین رض زمینی خداوں کے لیے خوف کی علامت بن گئے… یزیدیت تاقیامت رسوائی و ذلت کی علامت بن گئی…

پهر اس کے بعد یزیدیت نے چال بدلی…. حسینیت کا لباس پہنا… اور حسین کے زمانہ میں حسین کے لباس میں یزیدیت پهر برسر اقتدار آگئی… مگر اس بار اسے حسین کا خوف نہیں تها کیونکہ اس نے حسینی لباس پہنا تها…. یہ بهی حقیقت ہے کہ یزید تها، حسین ہے…. یہ بهی سچ ہے کہ زمانہ حسین کا ہے… یہ بهی سب دیکه رہے ہیں کہ ہر قوم پکار رہی ہے کہ ہمارے ہیں حسین…. مگر یہ بهی تلخ حقیقت ہے حکومت آج بهی یزید کی ہے… آج بهی ظلم و بربریت کا بازار ویسے ہی گرم ہے… آج بهی ہر عدالت میں انصاف کی قیمت لگ رہی ہے…. آج بهی خدا کے قوانین کا مذاق بنایا جارہا ہے….. آج بهی اسلامی حکومت و قوانین مذاق بن گئے ہیں… لیکن فرق یہ ہے کہ آج یہ سب حسینیت کے لباس میں ہورہا ہے اس لیے کہیں سے کوئی بغاوت نہیں ہورہی.

وااااہ میرے حسین… آپ اس طرح سے حق کا استعارہ بنے کہ یزیدیت بهی آپ کے دامن میں چهپنے پر مجبور ہے… حسینیو….! یہ یزیدیت کی چال ہے کہ حسینیوں کو آہیں… نوحے… ماتم…. سوگ…. کے نشے میں مدہوش رکهو اور زمین پہ یزید کی حکومت قائم رکهو…. آج پهر حسین کی ضرورت ہے جو حسینیت میں چهپے بهیڑیوں کو بےنقاب کرے اور حسین کے زمانہ میں حسین کی حکومت قائم کرے.

Advertisements
julia rana solicitors

حوصلے ہم میں کہاں جرم بغاوت والے
ہم وہی لوگ ہی کوفے کی روایت والے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply