مسیحا کی شہادت،ذمہ دار کون؟

مسیحا کی شہادت ، ذمہ دار کون؟
تحریر نعیم الدین جمالی.
ہم بڑے بے حس لوگ ہیں، بلکہ اس میں کچھ حد تک ہمارا بھی قصور نہیں. پے درپے ناخوش گوار واقعات، حادثات، خود کش دھماکوں نے ہمیں بے حسی کی معراج پر پہنچا دیا ہے.
واقعات پر واقعات ہوتے ہیں خاندان، گھر، گاؤں بستیاں، شہر اجڑتے ہی چلے جاتے ہیں لیکن ان واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں ہوتے ۔واقعہ رونما ہونے سے پہلے خفیہ ذرائع سے ہمیں اطلاع تو مل جاتی ہے لیکن مجرموں کی گرفتاری کا عمل ہم سے نہیں ہو پاتا. ان واقعات میں حادثاتی واقعات بھی بے شمار ہوتے ہیں، جن میں ہوٹلوں اور سرکاری دفاتر اور فیکٹریوں میں آگ کا لگنا شامل ہے واقعات کا ازالہ سوائے مذمتی لفاظی اورکھوکھلے بیانات کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔
ایسا ہی ایک واقعہ گذشتہ ماہ کراچی کے ایک مشہور ہوٹل میں ہوا ،جس میں ملکی اور غیر ملکی ستر افراد زخمی ہوئے جبکہ بارہ افراد جان سے بھی گئے. گذشتہ روز پولیس نے جاں بحق ہونے افراد کے متعلق دائر شدہ کیس کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جس میں واقعے کی ذمہ داری ہوٹل انتظامیہ پر عائد کی گئی ۔چالان میں کہا گیا ہے کہ ہوٹل کے انتظامات انتہائی ناقص اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ناکافی تھے.جبکہ ہوٹل کے لیے منظورہ شدہ حفاظتی انتظامات پر عمل نہیں کیا گیا گیس اور اے سی سپلائی بند کرنے کا سسٹم موجود ہی نہ تھا فائر الارم سسٹم بھی مکمل کام نہیں کر رہا تھا اس کے علاوہ ہوٹل انتظامیہ نے حادثہ کی بروقت اطلاع بھی نہیں کی.یہ حادثہ جہاں اپنی جگہ دیگر بارہ جاں بحق افراد کے اہل خانہ کے لیے ایک قیامت صغریٰ تھا وہیں میرے ضلع بدین کےغریب عوام کے لیے ایک بڑا جان کنی حادثہ تھا جس نے پورے علاقے کو غمزدہ کردیا جس میں علاقہ کے مسیحا انسان دوست اور غریبوں کے ہمدرد ڈاکٹر محمد عالم جمالی بھی اس حادثہ میں ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے۔مرحوم نے اپنی بچپن کی زندگی یتیمی میں گذاری غربت میں محنت کر کے ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کی، کمیشن کا امتحان پاس کرکے ڈاکٹری کی شعبے سے منسلک ہو گئے، کئی اہم سرکاری عہدوں پر بھی فائز رہے.دو بجے کے بعد ان کے کلینک پر غریبوں کا ایک تانتا بندھ جاتا تھا۔ ایک معقول فیس کے ساتھ ایک چھوٹےسے کلینک میں بیس سال تک انہوں نے غریب عوام کی خدمت کی ۔وہ ایک ایسے شعبے سے منسلک تھے جہاں دوائیوں کے دو صفحے لکھ کر وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کما سکتے تھے۔کئی ملکوں کے وزٹ بھی کر سکتے تھے لیکن وہ تو مال و زر کے لالچ سےمکمل آزاد تھے۔جو یتیمی اور غربت کا دور ان پر بیتا تھا وہ غریبوں اور لاچاروں کا دکھ درد سمجھتے تھے۔روزانہ کئی ایسے مریض ہوتے جن کا علاج وہ فری کرتے اور دوائی اور گھر جانے کا کرایہ بھی دیتے
انہوں نے ہمیشہ انسان دوستی کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا۔
انہوں نے علاقہ میں رنگ ونسل کے امتیازات سے بری ہوکر بلاتفریق مذہب انسانیت کی خدمت کی۔ڈاکٹر مرحوم کی طبعیت سادگی کا مجموعہ تھی.اخلاص ملنساری وصف خاص تھا، لکھنے پڑھنے شعر وشاعری کا بھی ذوق رکھتے تھے.میری اکثر ان سے ملاقات رہتی تھی اور ہمیشہ کسی نہ کسی کتاب کا تذکرہ ہوتاتھا،زندگی میں بہت سے جنازوں میں شرکت ہوئی لیکن ان کے جنازے میں مجھے عجیب مناظر دیکھنے کو ملے ۔صرف اہل خانہ، عزیز واقارب نہیں بلکہ مسلمان، غیر مسلم اپنے پرائے دوست و دشمن سب کی آنکھیں نم تھیں، اس حادثے کو چالیس دن گذر گئے لیکن سندھ حکومت نے کسی قسم کا تعاون نہیں کیا۔ انکے ورثاء کےساتھ قسم کی مالی یا اخلاقی ہمدردی تک نہیں کی گئی۔ہم حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے ورثاء کی مالی امداد کی جائے.انکے اہل خانہ میں پڑھے لکھے افراد موجود ہیں ان کو سرکاری نوکری دی جائے۔پولیس رپورٹ کے مطابق ہوٹل انتظامیہ نے غفلت برتی تھی ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔اور جتنے افراد بھی اس ہوٹل حادثہ میں جاں بحق ہوئے ان کے اہل خانہ کو بھی مالی امداد دی جائے۔

Facebook Comments

نعیم الدین
لکھنے پڑہنے والا ایک ادنی طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply