• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سیرل المیڈا ساگا اور جعلی لبرل بت کا انہدام۔۔۔۔۔عامر حسینی

سیرل المیڈا ساگا اور جعلی لبرل بت کا انہدام۔۔۔۔۔عامر حسینی

مرے انتہائی قابل احترام دوست ریاض ملک نے مجھے شرمندہ ہی کردیا ،جب انھوں نے سیرل المیڈا ساگا پہ لکھے مرے آرٹیکل پہ تبصرہ کرتے ہوئے مجھے پیغام بھیجا، ” عامر صاحب! پاکستان میں اب ایکٹو ازم گھٹ کر ایک موقعہ پرستانہ کورس اور طوطے کی طرح پاپولسٹ لائن کی راگنی بجانا ہی رہ گیا ہے-اور آپ بھی آج کہیں کہیں اپنے اس آرٹیکل میں اسی طرح کی لائن کا شکار بن گئے-ان کا کہنا ٹھیک ہی ہے کہ چار ہزارہ شیعہ عورتیں ایک بس سے اتار کر سپاہ صحابہ پاکستان کے دہشت گردوں کا نشانہ بنادی جاتی ہیں لیکن اس پہ اس طرح کا ہنگامہ کھڑا نہیں ہوتا جیسے سیرل المیڈا کے نام کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے پہ کھڑا کردیا گیا ہے-اور اس کے لئے ہمدردیوں کا ایک سیلاب ہی آگیا ہے-ڈان کی ویب سائٹ بتارہی ہے کہ ان کا سب سے ٹاپ کا لکھاری اس وقت سیرل المیڈا ہے-اور ٹوئٹر پہ ان کے نام کا ایک ٹرینڈ بتدریج اوپر جارہا ہے۔ 

 میں نے اگرچہ اپنے آرٹیکل کے آخر میں نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف کا پاکستان میں سلفی ودیوبندی جہادیوں کی گرم جوش سپورٹ اور ان جہادیوں کی ان دونوں بھائیوں کی سپورٹ بارے کھل کے اشارہ دیا تھا لیکن ریاض ملک نے اپنی تازہ لکھت میں سیرل المیڈا سمیت ان لکھاریوں کا پول کھولا ہے جو پی ایم دفتر کی ابتدائی پریس ریلیز کے ابہام کو لیکر انٹرنیشنل میڈیا کو یہ غلط تاثر دینے میں لگے ہوئے تھے کہ میاں برادران دیوبندی اور سلفی دہشت گردوں کو جہادی پراکسیز کے طور پہ استعمال کرنے کی پرانی پالیسی سے جان چھڑانے میں سنجیدہ ہیں

میں ریاض ملک کی اس بات سے سہمت ہوں کہ شریف برادران جہادی پراکسیز کو خیرباد کہنے میں ہرگز سنجیدہ نہیں ہیں اور وہ پاکستان میں سعودی تلوے چاٹنے والی حکومت کے طور پہ موجود ہیں-ان کا ملٹری اسٹبلشمنٹ کی جہادی توسیع پسندی کی پالیسی سے کوئی اختلاف بھی نہیں ہے بلکہ وہ اس پہ راضی ہیں-سعودی عرب ، امریکہ ، ترکی اور قطر میں اپنے سپائی ماسٹرز اور حامیوں کی طرح پاکستانی ملٹری اسٹبلشمنٹ اور شریف بھی جہادی پراکسیز کے سوال پہ ایک ہیں-معمولی سے اختلافات نظر انداز کئے جاسکتے ہیں-سیرل رضامندی سے آلہ کار بنا یا استعمال ہوا بےخبری میں یہ سوال اہم نہیں ہے اور نہ ہی یہ کہ اسے اب استعمال کے بعد ایک طرف پھینک دیا گیا ہے-میں نے اسی لئے کہا تھا کہ اب وہ سوگوار بیسوا کی طرح ٹوئٹ پہ ٹوئٹ کررہا ہے-اور ان کا بنایا ہوا نواز شریف کا لبرل بت دھڑام سے گرگیا ہے۔

ریاض ملک کا کہنا ہے کہ بڑی خبر یہ نہیں ہے کہ سیرل المیڈا استعمال ہوگیا بلکہ بڑی خبر یہ ہے کہ کوئی بھی پاکستان میں سلفی-دیوبندی دہشت گردی سے نمٹنے میں سنجیدہ نہیں ہے-سیرل المیڈا کے حامی حامد میر اور نجم سیٹھی وغیرہ بھی بدنام زمانہ دیوبندی مولوی طاہر اشرفی وغیرہ کے حامی ہیں جو بدلے میں جہادی گروپوں ، پاکستان مسلم لیگ نواز اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان رابطے اور پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔

مرے ایک اور سوشل میڈیا فرینڈ پیجا مستری ہیں-جب میں سیرل المیڈا پہ آرٹیکل مکمل کرلیا اور اپنے قاری کو لبرل مافیا کے گاڈ فادر نواز شریف کے اسٹبلشمنٹ مخالف بت کے مسمار ہوجانے کی اطلاع فراہم کی تو انھوں نے بھی بڑی بے رحمی سے سیرل المیڈا ساگا پہ تبصرہ کیا،

“سیرل بارے مری رائے کبھی بھی بہت اچھی نہیں رہی، مرے لئے وہ بھی اسی بااثر اسٹبلشمنٹ ٹاؤٹ صحافتی گروپ سے تعلق رکھتا ہے جس میں نجم سیٹھی ، حامد میر ، انصار عباسی وغیرہ شامل ہیں-جس طریقے سے اسے آزاد میڈیا کی تحریک کی علامت بناکر پیش کیا جارہا ہے اور اس کے نام کی ایک بے اثر ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شمولیت کا چرچا ہورہا ہے ، اس سے مجھ یہ شک ہورہا ہے کہ اس سٹوری کے اندر اور بھی بہت کچھ سننے اور دیکھنے کو جتنا ہم سن رہے اور دیکھ رہے ہیں۔

اس ملک میں جب سلیم شہزاد،خرم زکی جیسے صحافی ملٹری جرنیلوں کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیں اور دوسرے کئی اغواء ہوچکے ہوں تو ایسے میں ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں محض نام ڈالے جانے کی بات ایک مذاق ہی لگتی ہے-

دوہزار گیارہ میں سیرل المیڈا نے کیا لکھا تھا ؟ کیا کسی کو اس شور شرابے میں یاد بھی ہے؟ان کو 15 ستمبر 2011ء کو اسی ڈیلی ڈان میں ‘انسا‎ئیڈ زرداری’ز مائینڈ ، دی اپ ڈیٹ ‘ پڑھنا چاہئیے

“Only two things can stop him: Sharif, if he wises up and somehow stops the election from being stolen; the army, if it decides the costs of non-intervention are higher than the benefits of the status quo.”

“Inside Zardari’s mind, the update”, (DAWN September 15, 2011, link provided in comments section)

میں کہتا ہوں کہ سیرل المیڈا کا ماضی میں اس سے بھی بڑا ایک اور جرم ہے جس پہ جب تک وہ معافی نہیں مانگتا ، اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے-اس نے 2011ء میں ہی اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا تھا ،

“When asked about the allegations that Dashtiyari had been killed by the intelligence agencies, a senior security official responded defiantly, “Who owned his death? BLA did. They put out statements eulogising him. Who was he close to? What were his politics?”

Multiple sources confirmed to Dawn that Dashtiyari, while never having taken up arms himself, was close to insurgent groups and at various times had exhorted violence against the state and other ethnicities living in Balochistan.”

سیرل المیڈا کو زرا بھی شرم نہیں آئی تھی جب اس نے یہ لکھا تھا ” ڈان کو کئی ایک زرائع سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ پروفیسر صبا دشتیاری نے کبھی ہتھیار نہ اٹھائے لیکن وہ کئی شورش پسند گروپوں کے بہت قریب تھا اور کئی مرتبہ اس نے ریاست اور بلوچستان میں رہنے والے دوسرے نسلی ثقافتی گروپوں کے خلاف تشدد کی حوصلہ افزائی کی” گویا اس نے خود ہی پروفیسر صبا دشتیاری کی ہلاکت کے بارے میں جواز کا فتوی دے ڈالا تھا-ہمارے لبرل جوکہ ملک اسحاق اور دیگر مذہبی دہشت گردوں کی پولیس مقابلوں میں ہلاکت پہ سوال کھڑے کرتے ہیں اور ان کے لئے فئیر ٹرائل کا شور شرابہ کرتے ہیں نے سیرل المیڈا کی اس وکالت پہ ایک لفظ بھی نہیں بولا تھا-سیرل المیڈا اپنے آپ کو اینٹی اسٹبلشمنٹ ہیرو / سورما بناکر پیش کررہا ہے-اسے میں نے واحد بخش بلوچ اور شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی پہ کالم لکھنے اور اس حوالے سے ہانی بلوچ واحد بلوچ کی بیٹی اور شبیر بلوچ کی بہنوں سے انٹرویو کرنے کو کہا تھا مگر اس نے مرے ایک ٹوئٹ کا جواب نہ دیا-جبکہ اس کے برعکس کیرول اینی گیریسن نے مجھے ایک مسیج کے جواب میں مثبت جواب دیا اور اگلے دن ایک تفصیلی بلاگ لکھ دیا اور ٹوئٹر پہ ٹوئٹس کا سلسلہ شروع کردیا تھا-لبرل مافیا کا اپنا ایجنڈا ہے-وہ شیعہ نسل کشی پہ تو گمراہ کن مساوات اور بیلنس کرنے کے جھوٹے مفروضات پیش کرنے میں اپنا سوائے تکفیریوں کے کوئی ثانی نہیں رکھتے اور بلوچ نسل کشی پہ ان کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں اور ہزارہ کمیونٹی کے قتل کے پیچھے ان کی شیعت کا جو فیکٹر ہے ، اسے چھپانے کا ان کو بہت ہی شوق ہے

میں ایک مرتبہ پھر کہتا ہوں کہ سیرل المیڈا ساگا میں نوٹ کرنے کی سب سے زیادہ بات یہ ہے کہ کمرشل لبرل مافیا نے ملکر میاں محمد نواز شریف کا جو لبرل ، اسٹبلشمنٹ مخالف بت تراشا تھا اور اس بت میں انھوں نے جو جہادی پراکسیز مخالف رنگ بھرے تھے ان رنگوں سمیت یہ بت وزیراعظم آفس سے سوموار کے روز جاری ہونے والے بیان کے بعد دھڑام سے نیچے گرگیا اور اس سے پیدا ہونے والے شور کو چھپانے کے لئے اب اس کمرشل لبرل مافیا نے رنڈی رونا لگا رکھا ہے-یہ جس شئے کے کھوجانے کا ماتم کررہے ہیں وہ شئے تو کبھی نواز شریف کے اندر موجود ہی نہیں تھی-اپنی کھال بچانے کے سواء یہ گریہ و سوگواری اور کچھ بھی نہیں ہے-لبرل کمرشل مافیا سوگوار بیسوائیں ہیں جن کو یہ خوف ہے کہ اب نواز شریف اینڈ کمپنی بریف کیس لیکر ان کےکوٹھوں پہ نہیں آئے گی اور ان کی دکانداری بند ہوجائے گی –ملٹری اسٹبلشمنٹ نے آئی ایس پی آر میں وی آئی پی پروٹوکول دیکر اور اندر کی خبریں دینے کے نام پہ باقر سجاد سید ، سیرل المیڈا اور ان جیسے کئی لبرل چہرہ رکھنے والے صحافیوں کو خوب لبھایا اور آج زمین پہ لاپٹکا ہے تو ان کی چیخیں ہیں کہ بند ہونے کا نام نہیں لے رہیں-یہ وہ مافیا ہے جس نے ایک عرصے سے پاکستان کی سول سوسائٹی کا چہرہ گندا کیا ہوا ہے اور اسے پریشر گروپ میں بدل کر رکھ دیا ہے جو ذاتی مفادات و مراعات کے لئے لڑتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply