• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • الزام تراشی،بیہودہ سیاسی روایت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔۔۔۔محمد اشفاق

الزام تراشی،بیہودہ سیاسی روایت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔۔۔۔محمد اشفاق

اکہتر سے پہلے کا پاکستان بھی کوئی ایسا شائستہ اور سلجھا ہوا نہیں تھا، مگر پاکستانی سیاست میں غلاظت کو فروغ دینے کا سہرا بلاشبہ زندہ بھٹو کے سر جاتا ہے- مخالفین کی کردارکشی کیلئے لفافہ صحافی بھرتی کرنے والے بھی فخر ایشیا ہی تھے۔ پیپلز پارٹی کے اخبارات و جرائد میں جس طرح بھٹو کے سیاسی مخالفین بلکہ ان کی اپنی ہی جماعت کے بعض لوگوں پہ کیچڑ اچھالا گیا، گھٹیا الزامات لگائے گئے اس کی مثال اکہتر سے پہلے کے پاکستان میں شاید کوئی ایک آدھ ہی ہو۔ عوامی جلسوں میں عوامی بلکہ بازاری لب و لہجہ بھی جناب بھٹو نے متعارف کروایا۔ اس سے قبل سیاسی تحریروں اور تقاریر کو ایک طرح کا تقدس حاصل تھا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جنہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو لچر اور بیہودہ انداز میں للکارنا شروع کیا۔ حضرت پھانسی پا کر امر ہو گئے، ضیاء کی آمریت میں شائستہ یا ناشائستہ کسی سیاسی تقریر کی گنجائش ہی نہ رہی۔ ان کے بعد جس ہستی نے بھٹو کی اس بیہودہ روایت کو بام عروج پہ پہنچایا وہ کوئی اور نہیں جناب میاں نواز شریف ہیں۔

بینظیر بھٹو شہید کو آپ کتنا ہی ناپسند کرتے ہوں، ان کا یہی کارنامہ کافی ہے کہ انہوں نے اسّی کی دہائی کے پاکستان میں کردارکشی کی غلیظ ترین مہم کا مقابلہ کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔ ان کی اور ان کی والدہ مرحومہ کی بیہودہ تصاویر اس ملک پر ہیلی کاپٹر سے برسائی گئی تھیں اور یہ کارنامہ انجام دینے والے ہمارے موجودہ اسیرجمہوریت تھے۔ پاکستانی سیاست کے مکروہ ترین کرداروں میں سے ایک جناب شیخ رشید جب قومی اسمبلی میں محترمہ پر غلیظ ذومعنی فقرے کسا کرتے تھے تو انہیں نواز شریف کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہوتی تھی۔ شیخ صاحب جیل گئے تو میاں صاحب نے وہاں بھی ان کا ساتھ نہ چھوڑا۔ انہی خدمات کے صلے میں وہ وفاقی وزیر بنے۔

اللہ پاک بی بی شہید کے درجے بلند فرمائے، ان کے کردار کی بلندی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ کبھی اس غلیظ مہم کا جواب انہوں نے غلاظت سے نہ دیا۔ ایک مرتبہ ان کی پنڈی کچہری پیشی کے موقع پر مسلم لیگ نے جان بوجھ کر اوباش لوگ ان کے پیچھے لگا دئیے، ان پر بیہودہ فقرے کسے گئے، انہیں ہراساں کیا گیا مگر آفرین ہے کہ بی بی نے تب بھی پلٹ کر جواب نہ دیا۔ جو گندی روایت ان کے والد شروع کر کے گئے تھے محترمہ نے اپنے طرزعمل سے اسے ختم کرنے کی پوری کوشش کی۔

جب یہ سب ہو رہا تھا تب جناب عمران خان کرکٹ کھیلا کرتے تھے یا اپنے ہسپتال کی مہم چلا رہے تھے۔ اس لئے جو حضرات آج بڑے دکھ سے یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ” عمران نے ایک نسل ایسی تیار کر دی ہے جو۔۔۔۔” انہیں خبر ہو کہ یہ گندی نسل جس کا وہ خود بھی حصہ ہیں، عمران خان نے نہیں، ہماری جمہوریت کے دو سب سے بڑے چیمپئنز نے تیار کی ہے۔ گیو دی کریڈٹ وئر اٹس ڈیو۔

عمران خان کا قصور یہ ہے کہ وہ اس بیہودہ روایت کو ختم کرنے میں اپنا حصہ ڈال سکتے تھے، مگر اس کی بجائے انہوں نے بھی وہی بھٹو سٹائل عوامی یا عامیانہ لب و لہجہ اختیار کیا۔ ستر کی دہائی سے پاکستان میں جو تعلیم کا زوال شروع ہوا تھا، اس نے بھی اپنے اثرات دکھائے۔ والدین پیسہ کمانے کی جس اندھادھند دوڑ میں ستر کی دہائی میں کودے تھے، اس کے نتیجے میں گھروں پر تربیت کا معیار بھی زوال پذیر ہوا۔ چنانچہ ہماری نوے کی دہائی اور اس صدی کے پہلے عشرے میں پیدا ہونے والی نسل بہت حوالوں سے اس شائستگی، تہذیب اور اخلاقیات سے محروم ہے جس کا کچھ نا کچھ حصہ ہم ستر اور اسی کے عشروں میں پیدا ہونے والوں کے حصے میں آیا۔ یہ اس نسل کا قصور نہیں، ان کے مجرم ہم ہیں۔

عمیر (فیس بک دوست)سے بات یہ چل رہی تھی کہ مسلم لیگ نون کے حامی کسی کی بھی کردارکشی کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ مگر جب اینٹ کا جواب پتھر سے ملے تو پھر انہیں اخلاقیات یاد آ جاتی ہیں۔ مگر یہ معاملہ صرف نون لیگ کا نہیں ہے- عجیب بدقسمتی ہے کہ پیپلز پارٹی، جمیعت، جماعت سب کے سب اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں مگر موردالزام پی ٹی آئی کو ٹھہرایا جاتا ہے جو ان سب سے کم عمر سیاسی جماعت ہے۔

پاکستانی سیاست کے اس غلاظت بھرے کیچڑ میں رہ کر بھی اگر کوئی جماعت اپنی پاکیزگی برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی تو وہ عوامی نیشنل پارٹی ہے۔ اللہ باچا خان کو اس کا اجر دے، انہوں نے اور ان کے بعد ولی خان مرحوم نے اپنے کارکنوں کی ایسی تربیت کی کہ مجموعی طور پر آپ کو کبھی اے این پی کا کوئی راہنما یا ورکر اس کیچڑ اچھالنے کے کھیل میں شریک دکھائی نہیں دے گا۔

ایک بدقسمت رویہ جس پر مجھے ذاتی طور پر شرمندگی ہوتی ہے، یہ دیکھا ہے کہ جمہوریت اور سویلین بالادستی کے حامی سمجھتے ہیں کہ اب انہیں کسی پر بھی انگشت نمائی کا حق حاصل ہوگیا ہے- اگر آپ ایک معاملے میں درست اصولی اور اخلاقی پوزیشن پہ کھڑے ہیں تو یہ امر آپ کو دیگر تمام اخلاقی قدروں سے استثنیٰ نہیں دے دیتا۔ پھر ہوتا یوں ہے کہ عمران خان پہ اپنے دماغ کا سارا فضلہ انڈیل دینے والے بھی مریم نواز پہ بنائے گئے کسی گھٹیا ٹرینڈ پہ دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں۔ پہلے جمائما، پھر ریحام اور اب بشریٰ بی بی کے وقت کوئی نہیں دیکھتا کہ یہ بھی خواتین ہیں۔ آج ٹویٹر پہ بہت پڑھی لکھی سلجھی خواتین کو محترمہ وینا ملک کے متعلق انتہائی گھٹیا زبان استعمال کرتے دیکھا۔

کیا عورت ہونے کے ناطے عزت کا حق صرف وہ عورت رکھتی ہے جو شریف خاندان کی رکن ہو؟ سویلین بالادستی کی قائل ہو؟ فیمنسٹ ہو؟

اور کیا صرف عورت ہی عزت رکھتی ہے، مرد کی کوئی عزت نہیں ہوتی؟

جس شخص کو ہم جب سے ہوش سنبھالا دیکھتے چلے آ رہے اور کبھی اسے سگریٹ پیتے بھی نہیں دیکھا، کیا اسے چرسی، کوکینی، نشئی کہنا جائز ہے؟ حد یہ ہے کہ زانی اور بدکار اتنی آسانی سے کہہ دیا جاتا ہے جیسے عمران کو انہوں نے اپنے گھر میں منہ کالا کرتے رنگے ہاتھوں پکڑا تھا۔ بڑے بڑے دیندار اور ظاہری حلیے  سے پابند شریعت لوگ عمران خان کی مرتبہ بھول جاتے  ہیں کہ بہتان اور تہمت لگانے کے متعلق شریعت کیا کہتی ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والے کی دین میں کیا سزا ہے- جب معاملہ عمران کا ہو تو لبرلز کو بھی فرد کا ذاتی معاملہ بھول جاتا ہے اور اسلام پسند بھی اسلامی اقدار کو استنجہ خانے میں چھوڑ آتے ہیں۔ اس منافقت پہ اور ایسے منافقوں پہ ہزار بار لعنت۔

آخر میں اپنا یہ مشاہدہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ فیسبک پر بھی اور باہر بھی میرے دوستوں کی اکثریت پی ٹی آئی سے تعلق رکھتی ہے- اللہ ان سب کا بھلا کرے، مجھ سے بھی ایک آدھ بار خان صاحب کی شان میں نامناسب کلمات ادا ہوئے مگر ان کے منہ سے میاں صاحب کے متعلق کبھی ایسے بیہودہ جملے یا غلیظ گفتگو نہیں سنی جیسی ہمارے بعض نام نہاد جمہوریت پسند عمران خان کے بارے میں کرتے ہیں۔

اس بیہودہ روایت کو ختم کرنے میں دوست احباب سے گزارش ہے کہ اپنا حصہ ڈالیں۔ ہم کم از کم یہ کر سکتے ہیں کہ کسی ایسی پوسٹ پہ لائیک، شئیر یا کمنٹ نہ کریں جو کسی بھی شخص کی ذات پہ ، کردار پہ کیچڑ اچھال رہی ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

پس نوشت: یہ بھی واضح کر دوں کہ بطور خاتون میرے لئے محترمہ وینا ملک بھی اتنی ہی قابل احترام ہیں جتنی محترمہ مریم نواز۔ کس کا کیا کردار ہے اور کون کتنا باحیا ہے یہ فیصلہ اللہ پاک کرے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply